انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
فدیہ کے مسائل واحکام نماز کے فدیہ کا کیا حکم ہے؟ ہندہ بحالت ضعیفی پانچ ماہ بیمار رہ کر فوت ہوگئی، اس عرصہ میں کسی وقت افاقہ نہیں ہوا،ان ایام کی نمازیں اس کی فوت ہوئیں ، البتہ ابتدائی دو ماہ پورے ہوش باقی رہا اور ہوش میں بھی یہ حالت تھی کہ عیادت کرنے والوں کو پہچانتی تھی، کھانا پانی طلب کرتی تھی اور بول و براز کا کچھ خیال نہ تھا اور جس وقت تیمار دار وضو کرواکر چار پائی قبلہ رخ کرکے نماز کی نیت بندھواتے تو اس وقت رفع یدین کراکے ہاتھ بندھوانے کے بعد پھر ایک دو منٹ کے بعد دعاء کے لئے ہاتھ خود بخود اٹھالیتی تھی گویا نسیان تھا، ہوش قائم نہ تھے، بتانے پر کہتی کہ ہاں نماز پڑھتی ہوں۔...... ایسی صورت میں جن نمازوں کے پڑھنے کا وقت پایا اور اس قدر حواس باقی رہے کہ اشارہ کرکے نماز پڑھ سکے اور پھر نہیں پڑھی نہ ادا نہ قضاء اور ان کے متعلق وصیت کی ہے تو ورثہ کے ذمہ ایک تہائی ترکہ سے وصیت کو پورا کرنا واجب ہے، حساب کرکے ہر نماز کے عوض ایک صدقۃ الفطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت ادا کریں، وتر مستقل نماز ہے، اگر تہائی ورثہ سے وصیت پوری نہ ہوسکے تو پھر ورثہ کی اجازت پر موقوف ہے، اگر ورثہ بالغ ہوں اور وہ سب رضامند ہوں تو زیادہ میں وصیت پوری کردی جائے ورنہ نہیں، نالبالغ کی اجازت کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں اور جن نمازوں کا وقت ایسی حالت میں پایا کہ اس قدر حواس باقی نہیں تھے اور بعد میں حواس اس قدر درست نہیں ہوئے کہ ان کی قضاء کرسکے تو ان کا فدیہ واجب نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۷/۳۹۰،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۳۶۵، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)