انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسید بن سعید نام ونسب اسید نام،باپ کانام سعیدتھا (اکثرلوگوں نے آپ کا نام اسد بغیر ’’ی‘‘کے لکھا ہے؛ مگراستیعاب اور اسدالغابہ میں یہ تصریح ہے کہ صحیح اسید ہے،قبیلہ ہدل جو بنو قریظہ (ابنِ ہشام:۲/۱۶۹) ہی کی ایک شاخ تھی، اس سے آپ کا نسبی تعلق تھا۔ ابن ہشام نے بھی اسید ہی لکھا ہے (ابن ہشام:۲/۱۶۹۔ اصابہ:۱/۳۳))۔(هذه النسبة إلى الهدل وهم قبيلة أخوة قريظة ودعوتهم في بني قريظة (الأنساب:۵/۶۲۹، شاملہ، موقع یعسوب،المؤلف: أبوسعيد عبد الكريم بن محمد السمعاني) بنو ہدل بنی قریظہ ہی کی ایک شاخ ہے) اسلام بنوقریظہ کا معاملہ ان کی خواہش کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ کے سپرد کردیا تھا کہ وہ جوفیصلہ کریں گے اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا، حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ قبیلہ کے جتنے بالغ مرد ہیں وہ سب قتل کیے جائیں اور عورتیں اور بچے اور لونڈی غلام بنائے جائیں، جب اس فیصلہ کی خبر حضرت اسید رضی اللہ عنہ کوہوئی تووہ اپنے چند احباب کے ساتھ بنوقریظہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ تم لوگوں کوابن الہیبان (ابن الہیبان ایک یہودی عالم تھا جوشام سے مدینہ چلاآیا تھا، مدینہ کے یہود قحط اور دوسری مصیبتوں کے وقت اس سے دُعائیں کراتے تھے، جب اس کے انتقال کا وقت آیا تواس نے یہود کوجمع کیا اور کہا کہ تمھیں معلوم ہے کہ میں شام جیسی سرسبز وشاداب جگہ کیوں چلاآیا؟ میں یہاں اس لیے آیا تھا کہ مجھے ایک نبی کا انتظار تھا جویہاں ہجرت کرکے آئے گا، میں اگرزندہ رہتا تواس کی اتباع کرتا، دیکھو! تم لوگ اس کی اطاعت سے گریز نہ کرنا؛ ورنہ یہ اعراض تمہارے قتل کا سبب نے گا؛ چنانچہ بنوقریظہ نے اس سے وعدہ کیا کہ ہم لوگ ایسا ہی کریں گے، جنگ قریظہ کے روز حضرت اسید نے اسی وعدہ کی طرف اشارہ کیا تھا (اصابہ:۱/۳۳۔ ابن ہشام:۱/۱۳۷)) کی بات یاد نہیں ہے کہ تم نے کیا وعدہ کیا تھا؟ اے یہود! اللہ سے ڈرو! اور اس نبی برحق کی اتباع کرو! مگریہود نے اتباع کرنے اور اسلام قبول کرنے سے گریز کیا، حضرت اسید رضی اللہ عنہ انپے چند ساتھیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا اور اپنے اہل وعیال اور مال ودولت کواللہ کی حفاظت میں دے کر بچالیا۔ (استیعاب، ذکراسید:۱/۳۶) وفات آپ کے سنہ وفات کی تصریح تونہیں ملتی؛ مگربخاری کے بیان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس دارِ فانی کوچھوڑ چکے تھے۔ (استیعاب، ذکراسید:۱/۳۶) فضل وکمال حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کوپورے طور سے یقین ہوگیا کہ نبی موعود آپ ہی ہیں توان کوآپ کے اتباع سے کوئی تعلق اور رشتہ نہ روک سگا؛ گوآپ کواس راہ میں نشانۂ ملامت ومصیبت بننا پڑا؛ چنانچہ جب آپ اسلام لائے تویہود نے مختلف طریقے سے آپ کوستانا شروع کیا، اس پریہ آیت نازل ہوئی: لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ۔ (آل عمران:۱۱۳) ترجمہ: سب اہلِ کتاب برابر نہیں ہیں، ان میں ایک جماعت ہے جو(دین) پرقائم ہے اور رات کے اوقات میں وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتی ہیں اور وہ نمازی بھی ہیں۔ زندگی کے اور حالات پردۂ خفا میں ہیں، ثعلبہ آپ کے ایک بھائی تھے جن کا ذکر آگے آئے گا۔