انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مامون الرشید مامون الرشید بن ہارون الرشید کا اصل نام عبداللہ تھا، باپ نے مامون کا خطاب دیا، کنیت ابوالعباس تھی، بروز جمعہ نصف ربیع الاوّل سنہ۱۷۰ھ میں پیدا ہوا، جس رات مامون الرشید پیدا ہوا اسی رات ہادی کا انتقال ہوا، اس کی ماں کا نام مراجل تھا، جومجوسی النسل اُمِ ولد تھی اور چلہ ہی میں مرگئی تھی، مراج بادغیس علاقہ ہرات میں پیدا ہوئی تھی، علی بن عیسیٰ گورنرخراسان نے اس کوہارون الرشید کی خدمت میں پیش کیا تھا، مامون الرشید کوآغوشِ مادر میں پرورش پانے کا موقع نہیں ملا، ہارون الرشید نے اس کی پرورش اور تربیت میں خصوصی توجہ مبذول رکھی، پانچ برس کی عمر میں کسائی، نحوی اور یزیدی کی شاگردی میں دیا گیا، ان دونوں استادوں نے اُس کوقرآن مجید اور ادب عربی کی تعلیم دی۔ بارہ برس کی عمر میں جب کہ مامون اپنی ذہانت وذکاوتِ خدادا کی بدولت اچھی دست گاہ پیدا کرچکا تھا، جعفر برمکی کی اتالیقی میں سپرد کیا گیا؛ اسی سال یعنی سنہ۱۸۲ھ میں اس کوہارون نے امین کے بعد ولی عہد مقرر کیا مندرجہ بالااساتذہ کے علاوہ دربارِ ہارون میں علماء وفضلاء کی کمی نہ تھی اور وہ سب بھی وقتا فوقتا مامون کی استادی پرمامور ہوتے رہے، مامون قرآن کریم کا حافظ اور عالم متبحر تھا، فصاحتِ کلام اور برجستہ گوئی میں اس کوکمال حاصل تھا، اپنے بھائی امین سے عمر میں کسی قدر بڑا تھا، فقہ اور حدیث اس نے بڑے بڑے ائمہ فن سے پڑھی تھی، ہارون الرشید نے امین ومامون دونوں کوبڑی ہی توجہ کے ساتھ تعلیم دلائی تھی؛ لیکن مامون پراس تعلیم اور توجہ کا جواثر ہوا وہ امین پر نہ ہوا؛ اگرچہ جمادی الثانی سنہ۱۹۳ھ سے جب کہ ہارون الرشید کا انتقال ہوا تھا، مامون الرشید خراسان وغیرہ ممالکِ مشرقیہ کا خود مختار فرماں روا تھا؛ لیکن اس کی خلافت کا زمانہ محرم سنہ۱۹۸ھ سے جب کہ امین مقتول ہوا، شروع ہوتا ہے، امین ۲۵/محرم کوبوقتِ شب مقتول ہوا اور مامون کی بیعت ۲۶/محرم سنہ۱۹۸ھ بروز ہفتہ بغداد میں ہوئی۔ جب مامون کوامین کے مقتول ہونے کا حال معلوم ہوا اور بغداد میں اس کی فوج کا تسلط قائم ہوکر اہلِ بغداد نے مامون کوخلیفہ تسلیم کرلیا، تومامون نے اپنے وزیر فضل بن سہل کے حقیقی بھائی حسن بن سہل کوجہاں، فارس، اہواز، بصرہ، کوفہ، حجاز، یمن وغیرہ نومفتوحہ ممالک کی حکومت عطا کرکے بغداد کی جانب روانہ کیا، ہرثمہ بن اعین اور طاہر بن حسین نے یہ تمام علاقہ فتح کیا تھا اور انہی ہردوسپہ سالاروں کی پامردی سے یہاں تک نوبت پہنچی تھی کہ مامون کواہلِ بغداد نے خلیفہ تسلیم کیا اور امین مقتول ہوا، طاہر جس نے سب سے زیادہ کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے، اس بات کا متوقع تھا کہ اس کواِن نومفتوحہ صوبوں کی حکومت عطا ہوگی؛ مگرخلافِ توقع حسن بن سہل کویہ حکومت ملی اور طاہر بن حسین کوحسن بن سہل نے جزیرہ وموصل وشام کا گورنرمقرر کرکے نصربن شیت بن عقیل بن کعب بن ربیعہ بن عامر کے مقابلہ پرروانہ کیا، جس نے امین کی بیعت کے ایفاء کا اظہار کرکے خلافتِ مامون کے خلاف موصل وشام میں گروہِ کثیر جمع کرلیا تھا اور عراق کے شہروں پرقبضہ وتصرف کرتا جاتا تھا، حسن بن سہل کے حاکم اور نائب سلطنت مقرر ہوکر آنے سے لوگوں کویقین ہوگیا کہ فضل بن سہل مامون پرپورے طور پرمستولی ہے اور اب ہرطرف ایرانیوں ہی کا دور دورہ ہوگا، عرب سرداروں کواس تصور سے سخت اندیشہ ہوا اور اُن میں عام طور پربے دلی پھیل گئی، ساتھ ہی یہ بھی یقین ہوگیا کہ مامون اب فضل بن سہل کی خواہش کے موافق مرو ہی کودارالخلافہ رکھے گا اور بغداد میں نہ آئے گا۔ طاہر کوحسن بن سہل نے نصر بن شیت کے مقابلے پربھیجا تووہاں اُس کوکوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور طاہر نے شہر رقہ میں قیام کرکے نصر بن شیث کے ساتھ معمولی چھیڑ چھاڑ جاری رکھی، رقہ ہی میں طاہر کے پاس خبر پہنچی کہ خراسان میں اُس کے باپ حسین بن زریق بن مصعب نے انتقال کیا اور خلیفہ مامون اُس کے جنازہ میں خود شریک ہوا، ہرثمہ بن اعین کوحسن بن سہل نے خراسان کی طرف چلے جانے کا حکم دیا، نصر بن شیث کی بغاوت چونکہ محض اس وجہ سے تھی کہ اہلِ عرب پراہلِ عجم کوکیوں مقدم کیا جاتا ہے، اس لیے طاہر نے اس کے مقابلے میں زیادہ توجہ سے کام نہیں لیا؛ کیونکہ طاہر خود اس بات کوناپسند کرتا تھا کہ اہلِ عجم اہلِ عرب پرمستولی ہوتے جاتے ہیں، ہرثمہ بن اعین بھی جوخاندانِ عباسیہ کے قدیمی متوسلین میں سے تھا، اہلِ عجم کے اقتدار کواندیشہ ناک نگاہوں سے دیکھتا تھا۔