انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو بکر محمد بن موسیٰ واسطیؒ (م:۳۲۰ھ) ۱۔امید اوربیم دو ایسی باتیں ہیں جو بے ادبی سے روکتی ہیں۔ ۲۔عبادت کرنے کے بعد اس کے عوض کا منتظر رہنا اللہ کے فضل کو بھول جانے کی علامت ہے۔ ۳۔جب اللہ تعالی کسی بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے مرداروں اور بدبو میں پھینک دیتے ہیں، اس سے ان کی مراد نو عمروں کی صحبت ہے۔ ۴۔لوگوں نے سوء ادب کا نام اخلاص رکھا ہے، نفس کی طمع کو انبساط قرار دیتے ہیں اورکم ہمتی کو استقلال ،لہذا یہ لوگ راستہ سے اندھے ہیں اور تنگ راستوں پر چلتے ہیں،اسی لئے تو ان کی موجودگی کی وجہ سے نہ کوئی زندگی نشو ونما پاسکتی ہے اورنہ ان سے گفتگو کرنے میں کوئی عبادت پاک ہوسکتی ہے، یہ جب بولیں گے تو غصے میں اور ایک دوسرے کو خطاب کریں گے تو تکبر کے ساتھ،ان کے نفوس کا اچھلنا ان کے باطن کو ظاہر کررہا ہے اورکھانے کی طمع یہ ظاہر کررہی ہے کہ ان کے دل میں کیا ہے،خدا انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے جارہے ہیں؟ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۶۱) ۵۔خلوص والی توبہ، توبہ کرنے والے پر معصیت کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑتی نہ باطن میں نہ ظاہر میں اورجس کی توبہ خالص ہواسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ صبح کیسے گذاری اورشام کیسے؟ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۳۳) ۶۔فراست وہ اٹھتے ہوئے انوار ہیں،جو دلوں میں چمکتے ہیں اور ایسی متمکن معرفت ہے،جو غیبوں میں سے ایک غیب سے دوسرے غیب تک کے رازوں کو اٹھائے ہوئے ہے، یہاں تک کہ صاحب فراست اشیاء کو اس طرح دیکھتا ہے،جس طرح حق تعالی اسے دکھاتا ہے،اس طرح وہ مخلوق کے ضمیر کی باتیں بتانے لگتا ہے۔ (الرسالۃ القشیر یۃ،ص:۳۲۱)