انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زبیرؓ کی صلح پسندی جب لڑائی شروع ہوگئی تو حضرت زبیرؓ بن العوام جو پہلے ہی سے ارادہ فرماچکے تھے کہ حضرت علیؓ سے نہ لڑیں گے،میدانِ جنگ سے جُدا ہوگئے،اتفاقاً حضرت عمارؓ نے اُن کو دیکھ لیا اور بڑھ کر ان کو لڑائی کے لئے ٹوکا ،حضرت زبیرؓ نے فرمایا کہ میں تم سے نہ لڑوں گالیکن حضرت عمارؓ ان کو لڑائی کا بانی سمجھ کر سخت ناراض تھے،انہوں نے حملہ کیا حضرت زبیرؓ اُن کے ہر ایک وار کو روکتے اوراپنے آپ کو بچاتے رہے اورخود اُن پر کوئی حملہ نہیں کیا ،یہاں تک کہ حضرت عمارؓ تھک کر رہ گئے اورحضرت زبیرؓ وہاں سے نکل کر چل دیئے، اہل بصرہ سے احنف بن قیس اپنے قبیلہ کی ایک بڑی جمعیت لئے ہوئے دونوں لشکروں سے الگ بالکل غیر جانب دار حالت میں ایک طرف خیمہ زن تھے انہوں نے پہلے ہی سے دونوں طرف کے سرداروں کو مطلع کردیا تھا کہ ہم دونوں میں سے کسی کی حمایت یا مخالفت نہ کریں گے،حضرت زبیرؓ میدانِ جنگ سے نکل کر چلے احنف بن قیس کی لشکر گاہ کے قریب سے ہوکر گذرے،احنف بن قیس کے لشکر سے ایک شخص عمرو بن الجرموز حضرت زبیرؓ کے پیچھے ہولیا اورقریب پہنچ کر اُن کے ساتھ ساتھ چلنے اور کوئی مسئلہ اُن سے دریافت کرنے لگا ،جس سے حضرت زبیرؓ کو اس کی نسبت کوئی شک و شبہ پیدا نہ ہوا، لیکن اس کی طبیعت میں کھوٹ تھا، وہ ارادہ فاسد سے ان کے ہمراہ ہوا تھا،وادی السباع میں پہنچ کر نماز کا وقت آیا تو حضرت زبیرؓ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے،بہ حالتِ نماز جب کہ یہ سجدہ میں تھے،عمرو بن الجرموز نے اُن پر وار کیا،وہاں سے وہ سیدھا حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اول کسی شخص نے آکر حضرت علیؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ زبیرؓ بن العوام کا قاتل آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے،آپ ؓ نے فرمایا کہ اس کو اجازت دے دو مگر ساتھ ہی اس کو جہنم کی بشارت بھی دے دو، جب وہ سامنے آیا اورآپ ؓ نے اُس کے پاس حضرت زبیرؓ کی تلوار دیکھی تو آپ ؓ کے آنسو نکل پڑے اورکہا کہ اے ظالم! یہ وہ تلوار ہے جس نے عرصۂ دراز تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ہے،عمروبن الجرموز پران الفاظ کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہ حضرت علیؓ کی شان میں اُن کے سامنے ہی چند گستاخانہ الفاظ کہہ کر اورتلوار خود ہی اپنے پیٹ میں بھونک کر مرگیا اور اس طرح واصل بہ جہنم ہوگیا۔