انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمروبن امیہؓ نام ونسب عمرونام،ابوامیہ کنیت،سلسلۂ نسب یہ ہے،عمروبن امیہ بن خویلد بن عبداللہ ابن ایاس بن عبید بن ناثرہ بن کعب بن جدی بن حمزہ بن عبدمناۃ بن کنانہ کنانی۔ (اسد الغابہ:۴/۸۶) اسلام بدر اوراحد کی لڑائیوں میں مشرکین کے ساتھ تھے اورمسلمانوں کے خلاف نہایت شجاعت اورپامردی سے لڑے؛لیکن بدر واحد کے معرکوں میں جو شخص مسلمانوں کے خون سے پیاس بجھانے آیا تھا،وہ احد کے بعد اسلام کے سرچشمہ ایمان سے سیراب ہوگیا۔ (استیعاب:۲/۴۴۳) بیرمعونہ اسلام لانے کے بعد سب سے پہلے بیر معونہ میں شریک ہوئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ ۴ھ میں ابوبراء قبیلہ کلاب کے رئیس نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ آپ کچھ مسلمان ہمارے قبیلہ میں دعوت اسلام کے لیے بھیجیں، آپﷺ نے فرمایا مجھ کو نجد والوں کی طرف سے خطرہ ہے؛لیکن اس کی ضمانت کے بعدستر آدمیوں کی جماعت منذربن عمروکی ماتحتی میں بھیج دی،ان لوگوں نے بیر معونہ پہنچ کر قیام کیا اورحرام بن ملحان کے ہاتھ آنحضرتﷺ کا دعوت نامہ عامر بن طفیل کے پاس بھجوادیا، اس نے ان کو قتل کردیا، اورعصیہ،رعل اورذکوان وغیرہ کے قبائل میں منادی کرادی، یہ سب جمع ہوگئے،یہاں جب حرام کی واپسی میں دیر ہوئی تو مسلمان ان کی تلاش میں نکلے؛لیکن آگے بڑھ کر رعل وذکوان وغیرہ کا سامنا ہوگیا ان سب نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کی پوری جماعت تہ تیغ کردی،صرف حضرت عمروبن امیہؓ کو عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی نذرمانی تھی، چھوڑیا،اورنشان ذلت کے طورپر پیشانی کے بال تراش لیے،یہ واپس ہو رہے تھے کہ راستہ میں دو کلابی شخص ملے، ان دونوں کو آنحضرتﷺ نے امان دیدی تھی؛لیکن عمروؓ کو معلوم نہ تھا، اس لیے دونوں کو قصاص میں قتل کردیا، آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو آپ کو بہت صدمہ ہوا اوردونوں کی دیت اداکی۔ (ابن سعد حصہ مغازی:۳۶) حضرت عمروؓ کی سفارت اورنجاشی کا اسلام ۶ھ میں آنحضرتﷺ نے ان کو نجاشی کے پاس دعوت اسلام کا خط لے جانے پر مامور کیا، اس خط میں دعوت اسلام کے علاوہ مہاجرین کی میزبانی کی سفارش اورحضرت ام حبیبہؓ جو اس وقت مہاجرین حبش کے ساتھ حبشہ میں موجود تھیں کے ساتھ نکاح کا پیام بھی تھا، اس دعوت نامہ کے اثر سے نجاشی حضرت جعفر کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوا اورآنحضرتٓﷺ کے نامہ مبارک کے جواب میں ایک عریضہ لکھا،جس میں اسلام کا اقرار،قدم بوسی کی تمنا اورمہاجرین کی میزبانی وغیرہ کا ذکر تھا، اس کے بعد نجاشی نے حضرت ام حبیبہؓ کو آنحضرت ﷺ کی طرف سے نکاح کا پیام دیا اورخود آنحضرتﷺ کی طرف سے وکیل بنا اورنکاح کے بعد آپ کی طرف سے چار سودینار مہر معجل ادا کیا۔ (طبری:۱۵۶۹،۱۵۷۰) ایک سریہ اس سفارت کے بعد ابوسفیان کی ایک شرارت کا بدلہ لینے کی خدمت سپرد ہوئی،اس کا واقعہ یہ ہے کہ ابوسفیان قریش کے کچھ لوگوں کو آنحضرتﷺ کے قتل پر آمادہ کررہا تھا، ایک اعرابی نے اسکا بیڑا اٹھایا اورابوسفیان نے ضروری سامان مہیا کردیا، وہ مدینہ پہنچا، آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف رکھتے تھے یہ بھی وہیں پہنچا؛لیکن آنحضرتﷺ اس کی نیت تاڑ گئے، فرمایا کہ یہ کوئی فریب کرنا چاہتا ہے،اعرابی حملہ کرنے ہی والا تھا کہ حضرت اسید بن حضیرؓ نے جھپٹ کر دبوچ لیا،اعرابی کے ازار سے خنجر گرا، جرم کھلا ہوا تھا، کسی شاہد کی ضرورت نہ تھی، لیکن رحمۃ اللعالمین نے معاف کردیا، اس نے پورا پورا واقعہ سنایا؛چونکہ اس جرم کا اصل بانی ابو سفیان تھا اوراس کے بدولت اہل مدینہ اورقریش کی دائمی جنگ کی سی حالت قائم تھی، اس لیے آنحضرتﷺ نے عمروبن امیہ اورسلمہ بن اسلم کو اس غرض سے بھیجا کہ اگر موقع ملے تو اس فتنہ کے بانی کو ہمیشہ کےلیے خاموش کردیا جائے، یہ دونوں بزرگ مکہ پہنچے؛لیکن معاویہ نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور قریش کو خبر کردی،ان لوگوں نے کہا، ان کا آنا بے سبب نہیں ہے اور یہ کوئی نہ کوئی حرکت ضرور کریں گے ،ان لوگوں نے جب دیکھا کہ راز فاش ہوگیا تو مکہ سے نکل گئے ،راستہ میں عبیداللہ بن مالک اوربنو ہذیل کا ایک آدمی ملا، عمروؓ نے عبیداللہ کا اورسلمہ نے دوسرے شخص کا کام تمام کردیا، اس کے بعد قریش کے دو جاسوس ملے جو انہیں کی تلاش میں پھر رہے تھے، ان دونوں بزرگوں نے ان میں سے بھی ایک کو قتل کردیا اورایک کو پکڑ کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں لائے۔ (ابن سعد،جز۲،ق۱:۶۸) وفات امیر معاویہؓ کے آخری عہدامارت ۶۰ھ کے قبل مدینہ میں وفات پائی۔ (تہذیب الکمال:۲۸۷) اولاد جعفر،عبداللہ اورفضل تین لڑکے یادگارتھے۔ (تہذیب التہذیب:۸/۶) فضل وکمال فضل وکمال میں گو کوئی ممتاز حیثیت نہ تھی،تاہم ان کی ۲۰ روایات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،تلامذہ میں ذیل کے نام ہیں،عبداللہ،جعفر فضل ،زبرقان شعبیٰ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن،ابوقلابہ جرمی اورابو المہاجر۔ (تہذیب الکمال:۲۸۷) عام حالات شجاعت وشہامت اورجرات ودلیری میں عرب کے ممتاز لوگوں میں تھے، (تہذیب التہذیب حوالہ مذکور) اس لیے آنحضرتﷺ اہم امور کی تکمیل ان کے سپرد فرماتے تھے۔ (اسدالغابہ:۴/۱۸۶)