انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح قبرص وروڈس عبداللہ بن سعدؓ جب علاقۂ قرطاجنہ یا افریقہ سے مصر واپس چلے آئے اوراُسی سال یعنی ۲۷ ھ میں ان کی جگہ عبداللہ بن نافعہ مصر کے گورنر مقرر ہوئے،تو قسطنطین بے پھر جنگی تیاریاں شروع کیں، ۲۸ھ میں اس نے ایک بحری فوج افریقہ کی طرف روانہ کی،اس فوج نے ساحل افریقہ پر اُتر کر اس خراج کے دینے سے انکار کیا اورکہا کہ جب ہمارے ملک پر مسلمان حملہ آور ہوئے تو قیصر کو خراج کے دینے سے انکار کیا اورکہا کہ جب ہمارے ملک پر مسلمان حملہ آور ہوئے تو قیصر ہماری کوئی امداد نہ کرسکا ،لہذا اب اس کی سیادت تسلیم کرنا اوراُس کو خراج دینا ہمارے لئے ضروری نہیں،یہاں تک کے اہل افریقہ اوررومی لشکر میں مقابلہ ہوا، رومیوں نے اہل افریقہ کو شکست دی اور وہاں سے اسکندریہ کی طرف بڑھے یہاں عبداللہ بن نافع نے مدافعت اورمقابلہ کی تیاری کی،رومی سردار افریقہ سے اسکندریہ کی طرف آیا،تو قیصر روم خود چھ سو کشتیاں لے کر اسکندریہ کے ارادے سے روانہ ہوا، دونوں طرف سے رومی لشکر اسکندریہ پر قبضہ کرنے کے لئے آگئے،اُدھر سے اسلامی لشکر نے مقابلہ کیاسخت خوں ریز لڑائی ہوئی اورنتیجہ یہ ہوا کہ فلسطین اوراس کی فوج باحال تباہ اسکندریہ سے فرار ہوکر قبرص کی طرف گئے قبرص کو انہوں نے اپنا بحری مرکز اور جنگی سامان کا صدر مقام بناکر رکھا تھا- اس کیفیت کو یہیں ملتوی چھوڑ کر حضرت امیر معاویہؓ کا حال بھی اسی موقع پر تھوڑا سا عرض کردینا نہایت ضروری ہے تاکہ سلسلہ مضمون پورے طور پر مربوط ہوسکے۔ وفات فاروقی کے وقت حضرت امیر معاویہؓ دمشق واردن کے گور نر تھے اورحمص وقنسرین کے حاکم حضرت عمیر بن سعید انصاریؓ تھے،وفاتِ فاروقی کے بعد حضرت عمیرؓ بن سعید نے استعفاداخل کیا توحضرت عثمان غنیؓ نے حمص و قنسرین کا علاقہ بھی حضرت امیر معاویہؓ کے دائرۂ حکومت میں داخل کردیا،اُس کے بعد جب عبدالرحمن بن علقمہ حاکم فلسطین فوت ہوئے تو حضرت عثمان غنیؓ نے فلسطین کا ملک بھی حضرت امیر معاویہ کی حکومت میں دے دیا، اس طرح رفتہ رفتہ ۲۷ ھ میں حضرت امیر معاویہؓ تمام اضلاع شام کے مستقل حاکم ہوگئے تھے،حضرت امیر معاویہؓ نے خلافت فاروقی کے آخری ایام میں ساحل شام سے روانہ ہوکر جزیرہ قبرص پر حملہ کرنے کی اجازت فاروق اعظمؓ سے چاہی تھی،فاروق اعظمؓ کو بحری حملہ کی اجازت دینے میں تامل تھا اوربحری حملہ کی اجازت حاصل نہ ہونے پائی تھی کہ فاروق اعظمؓ شہید ہوگئے، اب حضرت عثمان غنیؓ سے امیر معاویہ ؓ نے بحری حملہ کی اجازت چاہی اور دربار عثمانی سے چند شرائط کے ساتھ اجازت حاصل ہوچکی تھی ،منجملہ اورشرائط کے ایک شرط یہ تھی کہ اس لڑائی اور بحری حملہ میں جس شخص کا جی چاہے وہ شریک ہو کسی کو ہرگز شرکت کے لئے مجبور نہ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہؓ کی تحریک سے ایک گروہ قبرص پر حملہ کرنے کے تیار ہوگیا جس میں حضرت ابو ذر غفاری،حضرت ابوالدرداء،شداد بن اوسؓ،عبادہ بن صامتؓ اوران کی بیوی ام حرامؓ بنت ملحان بھی شامل تھے،اس گروہ مجاہدین کی سرداری حضرت عبداللہ بن قیس کو دی گئی،مجاہدین کا لشکر کشتیوں میں سوار ہوکر قبرص کی طرف روانہ ہوا،قسطنطین قیصر روم اسکندریہ سے شکست کھا کر قبرص میں آیا، تو اس کے تعاقب میں مصر کا اسلامی لشکر بھی مصر سے کشتیوں میں سوار ہوکر پہنچ گیا، اُدھر اسلامی لشکر قبرص میں پہنچا، اُدھر ساحل شام سے مذکورۂ بالااسلامی لشکر قبرص کے ساحل پر اُترا جس وقت کشتی سے ساحل پر ام حرامؓ اتریں تو گھوڑا بدک کر بھاگا وہ گرپڑیں اورفوت ہوگئیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق یہی پیشن گوئی کی تھی جو حرف بہ حرف پوری ہوگئی،قسطنطین قبرص میں تاب مقابلہ نہ لاسکا، یہاں سے بہزار خرابی فرار ہوکر قسطنطنیہ پہنچا اوروہاں فوت ہوا، لیکن بہ روایت دیگر اہل قبرص ہی نے قسطنطین کو مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست پر شکست کھاتے دیکھ کر ایک روز جب کہ وہ حمام میں گیا ہوا تھا،موقع پاکر قتل کردیا تھا،قبرص سے فارغ ہوکر انہوں نے روڈس کا ارادہ کیا،روڈس والوں نے خوب جم کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا،کئی خوں ریز معرکوں کے بعد روڈس پر بھی اسلامی لشکر کا قبضہ ہوگیا اسی جزیرے میں ایک بہت بڑا تانبے کا بت تھا جس کی ایک ٹانگ جزیرہ کے ساحل پر اوردوسری ٹانگ ساحل کے قریبی ٹاپور پر تھی اوران دونوں ٹانگوں کے بیچ میں اتنی چوڑی آبنائے تھے کہ جہاز اس کے اندر ہوکر جاتے تھے،حضرت امیر معاویہؓ نے اس بُت کو توڑ کر اُس کے تانبے کے ٹکڑے اسکندریہ والی فوج کے ہمراہ اسکندریہ روانہ کردیئے ،جہاں ان کو ایک یہودی نے خرید لیا تھا،قبرص و روڈس کی فتوحات سے حضرت امیر معاویہ کی شہرت وہردل عزیز ی میں بہت بڑا اضافہ ہوا ؛کیونکہ ان بحری فتوحات نے مسلمانوں کے لئے قسطنطنیہ اوردوسرے ملکوں پر چڑھائیوں کا گویا ایک دروازہ کھول دیا تھا،یہ تمام واقعات ۲۸ ھ کے آخریا ۲۹ ھ کے شروع زمانہ تک کے ہیں۔