انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ ابوخالد یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سنہ۶۵ھ یا سنہ۶۶ھ میں جب کہ حضرت امیرمعاویہ تمام ملکِ شام کے حاکم تھے، پیدا ہوا، اس کی ماں کا نام میسون بنت بحدل تھا جوقبیلہ بنوکلب میں سے تھی؛ نہایت موٹا تازہ آدمی تھا اور اس کے جسم پربال بہت تھے، یزید نے پیدا ہوتے ہی حکومت وامارت کے گھر میں آنکھیں کھولی تھیں، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بہت ذی ہوش ومآل اندیش شخص تھے؛ انھوں نے یزید کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص طور پراپنی توجہ منعطف رکھی تھی، ایک یادومرتبہ اس کوامیرِحج بھی بناکر بھیجا گیا تھا، فوجی لشکر کی سرداری بھی اس کودی تھی، قسطنطنیہ کے حملے اور محاصرے میں بھی وہ ایک حصہ فوج کا سردار تھا، اس کوشکار کا بہت شوق تھا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے مرض الموت میں وہ دمشق کے اندر موجود نہ تھا، آدمی بھیج کراس کوبلوایا گیا اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کووصیت کی؛ لیکن اس وصیت کے بعد بھی وہ باپ کے مرض کوخطرناک نہ سمجھ کرپھرشکار میں چلا گیا؛ چنانچہ جب حضرت امیرمعاویہؓ فوت ہوئے تووہ دمشق میں موجود نہ تھا؛ کئی دن کے بعد واپس آیا اور ان کی قبرپرنماز جنازہ پڑھی، شعروشاعری میں بھی اس کودست گاہِ کامل حاصل تھی، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اس کے لیئے بیعت ہوچکی تھی؛ لیکن اکثر لوگ اسی وجہ سے اور بھی زیادہ اس کی طرف سے منقبض اور دل سے ناراض تھے، مدینہ منورہ کے بعض اکابر نے توبیعت سے قطعی انکار ہی کردیا تھا۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنی زندگی میں یزید کے لیئے بیعت لینا ایک سخت غلطی تھی، یہ غلطی غالباً محبت پدری کے سبب ان سے سرزد ہوئی؛ لیکن مغیرہ بن شعبہ کی غلطی ان سے بھی بڑی ہے؛ کیونکہ اس غلطی کا خیال اور اس پرعامل ہونے کی جرأت مغیرہ بن شعبہ ہی کی تحریک کا نتیجہ تھا؛ اسی لیے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ نے مسلمانوں میں ایک ایسی رسم جاری ہونے کا موقع پیدا کردیا جس سے مشورہ جاتا رہا اور باپ کے بعد بیٹا بادشاہ ہونے لگا۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد اہلِ شام نے توبلاتامل بطیب خاطر یزید کے ہاتھ پربیعت کرلی، دوسرے صوبے کے لوگوں نے بھی عمال کے ذریعہ بیعت کی اور رعب سلطنت کے مقابلے میں انکار کی جرأت نہ کرسکے، یزید نے تختِ حکومت پربیٹھ تے ہی صوبوں اور ولایتوں کے عالموں کولکھا کہ لوگوں سے میرے نام پربیعت لو، اس زمانہ میں مدینہ کے والی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان اور کوفہ کے والی نعمان بن بشیر تھے، یہ دونوں عامل نیک طبیعت اور صلح جوانسان تھے، ان دونوں کے مزاج میں سختی، درشتی، دوسرے عالموں کے مقابلہ میں بالکل نہ تھی۔ جب یزید کا حکم مدینہ میں ولید بن عتبہ کے پاس پہنچا توولید نے اکابر مدینہ کوجمع کرکے یزید کا خط سنایا، امام حسین نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا حال سن کراظہارِ افسوس کیا او ران کے لیے دعائے مغفرت کی اور ولید سے کہا کہ ابھی میری بیعت کے لیئے جلدی نہ کیجئےمیں سوچ کرفیصلہ کروں گا، مروان بن حکم جوپہلے مدینہ کا عامل اور اب ولید بن عتبہ کی ماتحتی میں بطورِمشیر موجود تھا، اس نے ولید کوترغیب دی کہ امام حسین سے اسی وقت بیعت لے لی جائے اور ان کوجانے نہ دیا جائے؛ لیکن ولید نے مروان کے مشورہ کوقبول نہ کیا اور ان کی بیت کواگلے دن پرملتوی رکھا۔ عبداللہ بن زبیر ولید کے پاس نہیں آئے تھے ان کوبلوایا گیا؛ انھوں نے آنے سے انکار کیا اور ایک شب کی مہلت طلب کی، ان کوبھی ولید نے مہلت دیدی، رات کوموقع پاکر عبداللہ بن زبیر معہ اہل وعیال مدینہ سے نکل گئے اور مدینہ کے معروف راستہ کوچھوڑ کرکسی غیرمعروف راستے سے روانہ ہوئے، اگلے دن ان کی گرفتاری کے لیئے مروان اور ولید تیس آدمیوں کا دستہ لے کرنکلے؛ مگرکہیں سراخ نہ ملا، شام کوواپس آگئے، یہ تمام دن چونکہ عبداللہ بن زبیر کے تجسس میں گذرا لہٰذا امام حسین کی طرف کوئی توجہ نہ ہوسکی، اس دوسری شب میں امام حسین رضی اللہ عنہ بھی موقع پاکر مدینہ سے معہ اہل وعیال روانہ ہوگئے، صبح کوان کی روانگی کا حال معلوم ہوا توولید نے کہا کہ میں امام حسین رضی اللہ عنہ کا تعاقب نہ کروں گا؛ ممکن ہے کہ وہ مقابلہ کریں اور مجھ کوان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے پڑیں جومجھ کو کسی طرح گوارا نہیں، ولید بن عتبہ نے ان دونوں صاحبوں کی روانگی کے بعد اہل مدینہ سے خلافت یزید کی بیعت لی، عبداللہ بن عمر سے کوئی خطرہ ہی نہ تھا؛ کیونکہ انھوں نے کبھی خلافت کی حواہش ہی نہیں کی، ادھر یزید نے بھی لکھ دیا تھا کہ اگرعبداللہ بن عمر بیعت نہ کریں تواُن سے کوئی تعرض نہ کیا جائے؛ لہٰذا عبداللہ بن عمر سے رضی اللہ عنہ سے بیعت کے لیئے کسی نے کچھ نہ کہا۔ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس چند روز کے بعد مکہ کی طرف چلے گئے تھے مکہ میں حارث بن حر کویزید نے عامل بناکر بھیج دیا تھا، عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی دونوں مکہ میں ساتھ ہی داخل ہوئے ان کودیکھتے ہی عبداللہ بن صفوان بن امیر نے جوشرفائے مکہ میں سے تھے، ان کے ہاتھ پربیعت کی؛ پھراس کے بعد مکہ کے دوہزار آدمیوں نے جوشرفا ووعمائدین شمار ہوتے تھے، عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پربیعت کرلی، عبداللہ بن زبیر نے حارث کوگرفتار کرکے قید کردیا اور مکہ کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی مکہ میں موجود تھے، نہ انھوں نے عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پربیعت کی، نہ عبداللہ بن زبیر نے، حضرت امام حسین یااُن کے اہلِ خاندان سے بیعت لینی چاہی؛ اسی طرح جب عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مکہ میں تشریف لے آئے توان سے بھی عبداللہ بن زبیر نے اپنی بیعت کے لیئے کوئی خواہش ظاہر نہیں کی، عبداللہ بن زبیر اپنا زیادہ وقت خانہ کعبہ میں مصروفِ عبادت رہ کربسر کرتے تھے، ان چند حضرات کے سوا تمام اہلِ مکہ ان کے ہاتھ پربیعت ہوگئے تھے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اکثرملتے اور مشورہ بھی کرتے رہتے تھے، معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خلافت کی بیعت نہیں لی تھی؛ بلکہ اس بیعت کا منشاء صرف یہ تھا کہ یزید کوخلیفہ تسلیم نہ کیا جائے اور جب تک خلیفہ عالم اسلام کے لیے متفقہ طور پرمتعین نہ ہواس وقت تک امن وامان اور انتظام قائم رکھنے کے لیئے عبداللہ بن زبیر مکہ کے حاکم تسلیم کیئے جائیں؛ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کویہ بات کچھ گراں گذرتی تھی کہ عبداللہ بن زبیر کوحکومت مکہ کیوں حاصل ہے؟ اس لیے کہ وہ اور ان کے اہل خاندان عبداللہ بن زبیر کے پیچھے نماز پڑھتے اور شریک جماعت نہ ہوتے تھے۔ ادھرعبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے مدینہ سے چلے جانے اور اہلِ مدینہ کے بیعت کرلینے کی کیفیت مروان نے یزید کے پاس لکھ کربھیجی، یزید نے فوراً ولید بن عتبہ کومعزول کرکے ان کی جگہ عمروبن سعید بن عاص کومدینہ کا حاکم مقرر کرکے بھیجا، عمروبن سعید نے آکر مدینہ کی حکومت سنبھالی اور ولید بن عتبہ مدینہ سے یزید کے پاس چلے گئے ادھر مکہ پرعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قابض ہوجانے اور حارث کے قید ہونے کی کیفیت حارث بن خالد نے جومکہ میں موجود تھے اور اپنے گھر سے باہر نہ نکلتے تھےلکھ کریزید کے پاس روانہ کی، مکہ کی حالت سے واقف ہوکر یزید نے عمروبن سعید کولکھا کہ مکہ جاکرعبداللہ بن زبیرکوگرفتار کرو اور پابہ زنجیر میرے پاس روانہ کردو، عمرو نے ایک زبردست فوج مکہ کی جانب بھیجی، وہاں لڑائی ہوئی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوفتح حاصل ہوئی اور مدینہ سے آئی ہوئی فوج کا سپہ سالار گرفتار ہوکر قید ہوا۔ کوفہ والے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ہی کے زمانے میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط وکتابت رکھتے اور بار بار لکھتے رہتے تھے کہ آپ کوفہ میں چلے آئیں، ہم آپ کے ہاتھ پربیعت کرلیں گے، کوفہ والوں کی ان خفیہ کاروائیوں اور ریشہ دوانائیوں سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بھی واقف تھے، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کوفہ والوں کی عادت کا نہایت صحیح اندازہ رکھتے تھے؛ اسی لیئے انھوں نے فوت ہوتے وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کووصیت کی تھی کہ تم کوکوفہ والوں کے فریب میں نہیں آنا چاہیے، ادھر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ یزید کوبتاگئے تھے کہ کوفہ والے امام حسین رضی اللہ عنہ کوضرور خروج پرآمادہ کریں گے؛ اگرایسی ضرورت پیش آئے اور تم امام حسین پرقابو پاؤ توان کے ساتھ رعایت کا برتاؤ کرنا؛ چونکہ مکہ کی حکومت عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ میں آگئی تھی؛ لہٰذا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی توجہ اب کوفہ کی طرف زیادہ مبذول رہتی تھی، کوفہ میں جب وہاں کے حاکم نعمان بن بشیر کے پاس یزید کا خط پہنچا اور عام طور پرامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر مشہور ہوئی توشیعانِ بنواُمیہ نے فوراً نعمان بن بشیر کے ہاتھ پرخلافت یزید کی بیعت کی؛ لیکن شیعانِ علی رضی اللہ عنہ اور شیعانِ حسین رضی اللہ عنہ نے جوپہلے ہی سے امام حسین رضی اللہ عنہ کوکوفہ میں بلانے کی کوشش کررہے تھے، بیعت میں تامل کیا اور سلیمان بن صرو کے مکان میں جمع ہوئے، سب نے اس قرارداد پر اتفاق کیا کہ یزید کوخلیفہ تسلیم نہ کیا جائے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کوکوفہ میں بلایا جائے، ابھی یہ خفیہ مشورے ہوہی رہے تھے کہ انھوں نے سنا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے مکہ چلے گئے ہیں؛ مگروہاں اہلِ مکہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کونہیں؛ بلکہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کواپنا حاکم بنالیا ہے اور امام حسین رضی اللہ عنہ مکے میں ہی موجود ہیں اور امام حسین رضی اللہ نعہ نے عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پراب تک بیعت نہیں کی ہے؛ چنانچہ انھوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط روانہ کیاکہ: ہم آپ کے اور آپ کے والد بزرگوار کے شیدائی اور بنوامیہ کے دشمن ہیں، ہم نے آپ کے والد ماجد کی حمایت میں طلحہ اور زبیر سے جنگ کی، ہم نے میدانِ صفین میں ہنگامہ کارزار گرم کیا اور شامیوں کے دانت کھٹے کردیئے، اب ہم آپ کے ساتھ مل کربھی جنگ کرنے کوتیار ہیں، آپ فوراً اس خط کے دیکھتے ہی کوفہ کی طرف روانہ ہوجائیے؛ یہاں آئیے تاکہ ہم نعمان بن بشیر کوقتل کرکے کوفہ آپ کے سپرد کردیں، کوفہ وعراق میں ایک لاکھ سپاہ موجود ہیں، وہ سب کے سب آپ کے ہاتھ پربیعت کرنے کوتیار ہیں، ہم آپ کوحقدارِ خلافت یقین کرتے ہیں، یزید توکسی طرح بھی آپ کے مقابلے میں خلافت کا استحقاق نہیں رکھتا، یہ موقع ہے دیر مطلق نہ کیجئے، ہم یزید کوقتل کرکے آپ کوتمام عالم اسلام کا تنہا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں، ہمارے سربرآوردہ لوگوں نے یزید کے عامل یعنی نعمان بن بشیر کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھنی بھی ترک کردی ہے؛ کیونکہ ہم امامت کا مستحق آپ کواور آپ کے نائبین کوسمجھتے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس مکہ میں اس مضمون کے خطوط مسلسل پہنچنے شروع ہوئے توانھوں نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کوبلایا (یہ مسلم انہی عقیل بن طالب کے بیٹے ہیں جوحضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے مصاحب خاص اور مشیر بااخلاص تھے)اور فرمایا کہ تم میرے نائب بن کرکوفہ میں جاؤ، پوشیدہ طور پرجاؤ، پوشیدہ طور پرکوفہ میں رہو اور میرے نام پرلوگوں سے پوشیدہ طور پربیعت لو، جولوگ تمہارے ہاتھ پربیعت کریں، ان کی تعداد اور خاص خاص کے نام خط میں لکھ کرمیرے پاس روانہ کرو، تم اپنے آپ کوپنہا رکھنے کی بہت کوشش کرو اور ان لوگوں کوجوبیعت میں داخل ہوں سمجھاؤ کہ جب تک میں وہاں نہ پہنچوں، ہرگز لڑائی نہ کریں۔ مسلم نہایت احتیاط کے ساتھ کہ عبداللہ بن زبیر کواطلاع نہ ہوسکے، مکہ سے روانہ ہوئے، راستہ میں انھوں نے کچھ سوچا اور ایک خط امام حسین رضی اللہ عنہ کولکھا کہ مجھ کواس کا انجام کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا، آپ مجھ کومعاف رکھیئے اور بجائے میرے کسی دوسرے شخص کوکوفہ کی طرف بھیجیں؛ لیکن امام حسین نے ان کوخط لکھا کہ تم بزدلی کا اظہار نہ کرو اور تم ہی کوفہ میں جاؤ؛ چنانچہ مسلم بن عقیل روانہ ہوئے اور کوفہ میں پہنچ کرمختار بن عبیدہ کے مکان پراُترے؛ اسی وقت یہ خبر شیعانِ علی میں پھیل گئی، لوگ جوق درجوق آکربیعت ہونے شروع ہوئے، پہلے ہی دن بارہ ہزار آدمیوں نے بیعت کی، مسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام اپنے بخیرت پہنچنے اور لوگوں کے بیعت کرنے کا حال لکھا اور ان کواطلاع دی کہ پہلے دن بارہ ہزار آدمی بیعت میں داخل ہوئے، جن میں سلطان بن صرد، مسیب بن ناجیہ، رقاطہ بن شداد، ہانی بن عروہ بھی شامل ہیں، آپ جب آئیں گے اور علانیہ بیعت لینا شروع کریں گے تولاکھوں آدمی بیعت میں داخل ہوجائیں گے، یہ خط امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قیس وعبدالرحمن دوشخص لے کرروانہ ہوئے،امام حسین علیہ السلام اس خط کوپڑھ کر بہت خوش ہوئے اور دونوں نامہ بروں کوفوراً واپس کردیا اور کہلا بھجوایا کہ میں بہت جلد کوفہ پہنچتا ہوں، اب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ خال کرکے کہ بصرہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کی کافی تعداد موجود ہے، اپنے ایک معتمد کواحنف بن مالک اور دوسرے شرفاء بصرہ کے نام خطوط دے کربصرہ کی جانب روانہ کیا، ان خطوط میں لکھا تھا کہ آپ کومیرے ہاتھ پربیعت کرنی چاہیے اور فوراً کوفہ پہنچ جانا چاہیے۔ کوفہ میں مسلم بن عقیل کے پہنچنے اور لوگوں کے بیعت کرنے کا حال جب عام طور پرمشہور ہوگیا توعبداللہ بن مسلم الحضرمی نعمان بن بشیر کے پاس آیا او رکہا کہ اے امیرخلیفہ وقت کے کام میں ایسی سستی نہیں کرنی چاہیے، آج کئی روز ہوئے مسلم بن عقیل کوفہ میں آکرلوگوں سے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیئے بیعت لے رہے ہیں، آپ کوچاہیے کہ مسلم کوقتل کردیں یاگرفتار کرکے یزید کے پاس بھیج دیں اور جن لوگوں نے بیعت کی ہے ان کوبھی سزادیں، نعمان بن بشیر نے کہا کہ یہ لوگ جس کام کومجھ سے چھپاکر کررہے ہیں میں اُس کوآشکارا کرنا مناسب نہیں سمجھتا، جب تک یہ لوگ مقابلہ کے لیئے نہ نکلیں گے میں ان پرحملہ نہ کرونگا، عبداللہ یہ جواب سن کر باہر آیا اور اسی وقت یزید کوایک خط لکھا کہ: مسلم بن عقیل کوفہ میں آکر حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لئیے بیعت لے رہے ہیں اور لوگ ان کے ہاتھ پرکثرت سے بیعت کررہے ہیں، حسین بن علی کے بھی آنے کی خبر ہے، نعمان اس معاملے میں بڑی کمزوری دکھارہے ہیں، آپ اگرولایت کوفہ کواپنے قبضہ میں رکھنا چاہتے ہیں توکسی زبردست گورنرکو فوراً کوفہ میں بھیجیں؛ تاکہ وہ آکر مسلم کوگرفتار کرے اور لوگوں سے بیعت فسخ کرائے اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوکوفہ میں داخل ہونے سے روکے، اس کام میں اگردیر ہوئی توآپ کوفہ کواپنے قبضہ سے نکلا ہوا سمجھئے۔ اسی مضمون کے خطوط عمارۃ بن عقبہ اور ابی معیط نے بھی یزید کے نام روانہ کئے، ان خطوط کوپڑھ کریزید بہت پریشان وفکرمند ہوا، سرجون نامی حضرت امیرمعاویہ کا ایک آزاد کردہ غلام تھا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بھی بعض پیچیدہ باتوں اور اہم معاملات میں اس سے مشورہ لیا کرتے اور اس کے مشورہ سے فائدہ اُٹھایا کرتے تھے، یزید نے اس کوبلایا اور عبداللہ بن الحضرمی کا خط دکھاکرمشورہ طلب کیا، اس جگہ جملہ معترضہ کے طور پریہ بات قابل تذکرہ ہے کہ یزید ہمیشہ زیاد بن ابی سفیان سے ناراض رہتا تھا، زیاد کے بعد وہ عبیداللہ بن زیاد سے بھی بہت ناخوش اور متنفر تھا، عبیداللہ بن زیاد کوامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے بصرہ کا حاکم مقرر فرمایا تھا، یزید ارادہ کررہا تھا کہ بصرہ کی حکومت سے عبیداللہ بن زیاد کومعزول کرکے اور کسی دوسرے شخص کوبصرہ کا حاکم بنائے، اب کوفہ سے یہ وحشت ناک خبریں آنے پریزید نے جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے آزاد کردہ غلام سے مشورہ طلب کیا تواس نے عرض کیا کہ اس وقت عراق آپ کے قبضے سے نکلنا چاہتا ہے؛ اگرآپ عراق کوبچانا چاہتے ہیں توعبیداللہ بن زیاد کے سوا کوئی دوسرا شخص آپ کی مدد نہیں کرسکتا، میں جانتا ہوں کہ آپ کویہ میرا مشورہ ناگوار گذرے گا؛ مگرعبیداللہ بن زیاد کے سوا جس شخص کوبھی آپ کوفہ کی حکومت پربھیجیں گے وہ کوفہ کوبچانے میں کامیاب نہ ہوسکے گا، ساتھ ہی میرا مشورہ یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ کے باپ زیاد کوبصرہ وکوفہ دونوں ولایتوں کی حکومت سپرد کررکھی تھی؛ اسی طرح آپ بھی عبیداللہ کوبصرہ وکوفہ دونوں ولایتیں سپرد کردیں، بصرہ کے لیئے کسی دوسرے حاکم کوانتخاب کرنے کی ضرورت نہیں، یزید نے یہ سن کرتھوڑی دیر تامل کیا؛ پھرفوراً عبیداللہ بن زیاد کے نام حکم نامہ لکھا کہ: ہم نے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی ولایت بھی تم کوسپرد کی، اب تم کوچاہیےکہ اس حکم کے پہنچتے ہی بصرہ میں کسی کواپنا نائب بناکر چھوڑدو اور خود بلاتوقف کوفہ میں پہنچو، وہاں مسلم بن عقیل آئے ہوئے ہیں اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت لے رہے ہیں، ان کوپکڑ کرقید یاقتل کرو اور جن لوگوں نے اُن کی بیعت کی ہے، ان کوبھی اگرفسخ بیعت سے انکار کریں توتلوار کے گھاٹ اُتاردو اور اس قسم کے ہرایک خطرہ کابندوبست کردو۔ عبیداللہ بن زیا دکویقین تھا کہ یزید مجھ کوبصرہ کی حکومت سے معزول اور برطرف کیئے بغیر نہ رہے گا، اس کوپڑھ کروہ حیران رہ گیا؛ پھرخوش بھی ہوا اور رنجیدہ بھی؛ کیونکہ اس حکم کے پڑھنے سے اس کے دل میں یہ خطرہ بھی پیدا ہوا تھا کہ یزید اس بہانہ سے مجھ کوبصرہ سے نکالنا چاہتا ہے؛ تاہم اس نے اس حکم کی تعمیل کومناسب سمجھا اور اپنے بھائی عثمان بن زیاد کوبصرہ میں اپنا قائم مقام مقرر کرکے خود اگلے دن کوفہ کی طرف روانہ ہونے کا عزم کیا، اتنے میں منذر بن الحارث اس کے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ حسین بن علی کا فرستادہ ایک شخص آیا ہے اور آپ سے چھپاکرخفیہ طور پرلوگوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت لے رہا ہے، عبیداللہ بن زیاد نے یہ سن کراسی رات میں دھوکہ سے حضرت امام حسینؓ کے قاصد کوگرفتار کرلیا اور اگلے دن لوگوں کوجمع کرکے ایک تقریر کی اور کہا: حسین بن علی کا ایک قاصد بصرہ میں آیا ہے اور بہت سے لوگوں کے نام خطوط لایا ہے، میں نے اس قاصد کوگرفتار کرلیا ہے، بصرہ میں جن جن لوگوں کے نام وہ خطوط یاپیغام لایا ہے، میں نے سب کے نام اس سے دریافت کرلیے ہیں اور جن جن لوگوں نے بیعت اس کے ہاتھ پرکی ہے ان کی فہرست بھی تیار کرلی ہے، آپ لوگوں کومعلوم ہے کہ میں زیاد بن ابی سفیان کا بیٹا ہوں، مسلم بن عقیل کوفہ میں آئے ہوئے ہیں، میں اب کوفہ کوجارہا ہوں، وہاں مسلم بن عقیل اور جن لوگوں نے ان کے ہاتھ پربیعت کی ہے، سب کوقتل کرڈالوں گا اور اگر تمام کوفہ بیعت کرچکا ہے توایک شخص کوبھی وہاں زندہ نہ چھوڑوں گا، تمہارے ساتھ اس وقت یہ رعایت کرتا ہوں کہ بجز حسین بن علی کے قاصد کے اور کسی کوکچھ نہیں کہتا؛ لیکن یہاں سے میرے جانے کے بعد اگرکسی نے ذرا بھی کان ہلایا توپھراس کی خیر نہ ہوگی۔ یہ کہہ کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے قاصد کوبلوایا اور اس کوتمام مجمع کے روبرو قتل کروادیا، کسی نے اُف تک نہ کی، اس کاروائی کے بعد مطمئن ہوکر وہ کوفہ کی طرف روانہ ہوا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں بیٹھے ہوئے یہ خیال کررہے تھے کہ بصرہ میں بھی ہمارے نام پربیعت ہورہی ہوگی؛ لیکن یہاں ان کا فرستادہ قتل کیا جارہا تھا، عبیداللہ بن زیاد نے قادسیہ کے مقام پرپہنچ کراپنی رکابی فوج کووہیں چھوڑا اور خود اپنے باپ کے آزاد کردہ غلام کے ساتھ ایک اونٹ پرسوار ہوکر کوفہ کی جانب تیز رفتاری سے روانہ ہوکر مغرب وعشاء کے درمیان کوفہ میں داخل ہوا، عبیداللہ بن زیاد نے عمامہ حجازیوں کی وضع کا باندھ رکھا تھا؛ یہاں لوگوں کوحضرت امام حسین کی آمد کا انتظار تھا، شیعانِ علی وحسین کا یہاں تک زور ہوگیا تھا کہ نعمان بن بشیر شام ہی سے اپنے دیوان خانے کے احاطہ کا دروازہ بند کرلیتے اور اپنے خاص خاص آدمیوں کے ساتھ مجلس گرم کرتے، دروازے پرغلام کوبٹھادیتے کہ ہرآنے واےل کا پتہ معلوم کرنے کے بعد اگروہ اندر آنے کے قابل ہوتودروازہ کھولے؛ ورنہ انکار کردے، عبیداللہ بن زیاد جب کوفہ میں داخل ہوا تولوگوں نے یہ سمجھا کہ امام حسین جن کا انتظار تھا کوفہ میں آگئے، جس طرف عبیداللہ کااونٹ گذرتا لوگ کہتے السلام علیک یاابن رسول اللہ، عبیداللہ اپنا اونٹ لیئے سرکاری دیوان خانے تک پہنچا، وہاں دیکھا تودروازہ بند ہے، عبیداللہ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور زبان سے کچھ کہا، نعمان بن بشیر اپنے دوستوں کے ساتھ چھت پربیٹھے ہوئے تھے، وہ اٹھے اور چھت کے کنارے پرآکر دیکھا توچونکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا تمام شہر میں انتظار کیا جارہا تھا، عبیداللہ کویہی سمجھے کہ امام حسین آگئے ہیں؛ چنانچہ انھوں نے اوپر ہی سے کہا کہ اے ابن رسول اللہ! آپ واپس چلے جائیے اور فتنہ برپا نہ کیجئے، یزید ہرگز کوفہ آپ کونہ دے گا، نعمان کے دوستوں نے جوچھت پربیٹھے تھے، نعمان سے کہا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اتنی بے مروتی نہ کیجئے، کم از کم دروازہ کھول کراُن کواندر توآنے دیجئے؛ کیونہ وہ سفر سے آرہے ہیں اور سیدھے آپ کے پاس مہمان بن کرآئے ہیں، نعمان نے کہا کہ میں اس کوپسند نہیں کرتا کہ لوگوں کویہ کہنے کا موقع ملے کہ نعمان کے عہد حکومت میں کوفہ کے اندر امام حسین قتل کیے گئے، عبیداللہ نے اپنا عمامہ اُتارا اور کہا: کمبخت دروازہ توکھول، عبیداللہ کی آواز سن کرلوگوں نے اس کوپہچانا، دروازہ کھولا، سب ادھر اُدھر منتشر ہوگئے، عبیداللہ اندر داخل ہوا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد عبیداللہ کا لشکر کوفہ میں داخل ہونا شروع ہوا، جس کوپیچھے چھوڑ آیا تھا؛ اسی وقت مسلم بن عقی کوخبر پہنچی کہ ابن زیاد معہ لشکر آگیا ہے، وہ جس مکان میں مقیم تھے اور لوگوں کوعام طور پراس کا علم تھا اسے چھوڑ دیا اور ہانی بن عروہ کے مکان میں جاکر پناہ گزیں ہوئے، اس وقت تک مسلم کے ہاتھ پربیعت ہونے والوں کی تعداد کوفہ میں اٹھارہ ہزار تک پہنچ چکی تھی، عبیداللہ بن زیاد نے اگلے دن صبح کومجمع عام کے روبروتقریر کی اور یزید کا حکم نامہ جواس کے پاس بصرہ میں پہنچا تھا، سنایا، عبیداللہ نے کہا کہ: تم لوگ میرے باپ زیاد بن ابی سفیان کوخوب جانتے ہو اور تم کومعلوم ہے کہ وہ کس قسم کی سیاست برتنے کے عادی تھے، مجھ میں اپنے باپ کی تمام عادات موجود ہیں، تم لوگ مجھ سے بھی خوب واقف ہو اور میں بھی تمہارے ایک ایک شخص کا نام جانتا ہوں اور ہرایک کا گھر اور محلہ پہچانتا ہوں، مجھ سے تم کوئی چیز چھپا نہیں سکتے، میں یہ نہیں چاہتا کہ کوفہ میں خون کے دریا بہاؤں اور تم کوقتل کروں، مجھ کومعلوم ہے کہ تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے لیئے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پربیعت کرلی ہے، میں تم سب کوامان دیتا ہوں اس شرط پرکہ تم اس بیعت سے رجوع کرلو اور جوشخص بغاوت پرآمادہ ہے، اس کوکوئی شخص اپنے مکان میں پناہ نہ دے؛ ورنہ ہرایک پناہ دہندہ کواسی کے دروازے پرقتل کیا جائے گا۔ اس تقریر کے بعد عبیداللہ نے مسلم بن عقیل کا پتہ دریافت کیا کہ وہ کس جگہ ہیں، کسی نے پتہ نہ بتایا، آخرعبیداللہ کواپنے جاسوس کے ذریعہ معلوم ہوا کہ وہ ہانی بن عروہ کے مکان میں چھپے ہوئے ہیں،’ عبیداللہ نے معقل نامی ایک شخص کوجوتمیم کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا اور اُس کوکوفہ میں کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا، بلاکر تنہائی میں تین ہزار درہم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ فلاں محلہ میں ہانی بن عروہ کے مکان پرجاؤ، جب ہانی بن عروہ سے ملاقات ہوجائے تواس سے کہو کہ مجھ کوآپ سے تنہائی میں کچھ کہنا ہے، جب تنہائی میں پہنچو توہانی سے کہو کہ مجھ کوبصرہ کے فلاں فلاں شخصوں نے بھیجا ہے اور تین ہزار درہم دیئے ہیں کہ کوفہ میں جاکر مسلم بن عقیل کے پاس پہنچادوں اور اُن سے کہو کہ ہمارے پاس مکہ سے حسین علیہ السلام کا خط آیا ہے؛ انھوں نے ہم کولکھا ہے کہ تم فلاں تاریخ کوفہ پہنچ جاؤ؛ اسی تاریخ امام حسین رضی اللہ عنہ بھی کوفہ میں پہنچیں گے، آپ بالکل مطمئن رہیں، ہم سب تاریخ مقررہ امام حسین کے ساتھ داخل ہوں گے، یہ تین ہزار درہم اپنی ضروریات میں صرف کرو اور ہماری طرف سے بطورِ ہدیہ قبول کرو؛ لہٰذا آپ مجھ کومسلم بن عقیل کے پاس پہنچادیجئے؛ تاکہ میں تمام پیغامات اور یہ روپیہ ان کی خدمت میں پہنچادوں اور فوراً کوفہ سے چلاجاؤں؛ کیونکہ عبیداللہ بن زیاد آگیا ہے اور وہ مجھ کوپہچانتا ہے، ایسا نہ ہوکہ میں گرفتار ہوجاؤں، معقل تین ہزار درہم کی تھیلی لےکر ہانی کے پاس پہنچا، وہ مکان کے دروازے پربیٹھا تھا، معقل کی باتیں سن کرفوراً مسلم بن عقیل کے پاس لے گیا، مسلم بن عقیل نے خوش ہوکر وہ تھیلی لے لی اور پیغامات سن کرمعقل کورخصت کردیا، معقل وہاں سے چل کرسیعھا عبیداللہ کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں تھیلی مسلم بن عقیل کودے آیا ہوں اور خود ان سے باتیں کی ہیں، وہ ہانی کے مکان میں موجود ہیں، عبیداللہ بن زیاد نے ہانی بن عروہ کوبلاکر پوچھا کہ مسلم کہاں ہیں؟ ہانی نے لاعلمی بیان کی، عبیداللہ نے معقل کوبلواکر سب کے سامنے اس کا بیان سنوایا، ہانی شرمندہ ہوکر کہنے لگا کہ ہاں میرے پاس مسلم بن عقیل پناہ گزیں ہیں؛ لیکن میں اپنی یہ بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا کہ اب ان کوآپ کے سپرد کردوں، عبیداللہ نے ہانی کووہیں گرفتار کرلیا، شہر میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ہانی کوعبیداللہ نے قتل کردیا، ہانی بن عروہ کے گھر کی عورتیں یہ سن کررونے لگیں، مسلم بن عقیل نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تووہ ضبط نہ کرسکے اور فوراً شمشیر بدست ہانی کے گھر سے نکل کر ان لوگوں کوآواز دی جنھوں نے مسلم کے ہاتھ پربیعت کی تھی، اٹھارہ ہزار میں سے صرف چار ہزار آدمی اُن کے گرد جمع ہوئے، مسلم نے باقیوں کوبھی بلایا؛ لیکن ہرایک نے یہ جواب دیا کہ ہم سے توبیعت کے وقت یہ اقرار لیا گیا ہے کہ جب تک امام حسین رضی اللہ عنہ نہ آجائیں، کسی سے جنگ نہ کریں گے، ان کے آنے تک آپ کوبھی صبر کرنا چاہیے، مسلم بن عقیل چونکہ اب باہر آچکے تھے؛ لہٰذا دوبارہ نہیں چھپ سکتے تھے؛ انھیں چارہزار آدمیوں کولےکرمسلم بن عقیل نے عبیداللہ بن زیاد کا محاصرہ کیا اس وقت عبیداللہ دارالامارۃ میں تیس چالیس آدمیوں کے ساتھ تھا، چھتوں پرچڑھ کرمحاصرین پرتیروں کی بارش شروع کی، مسلم کے ہمرائیوں کوان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے آآکرسمجھانا شروع کیا کہ اپنے آپ کوکیوں ہلاکت میں ڈالتے ہو، غرض رفتہ رفتہ سب جدا ہوگئے اور مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس چالیس آدمی رہ گئے۔