انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت قیس بن سعدؓ نام ونسب قیس نام، ابو الفضل کنیت، خاندان ساعدہ(قبیلہ خزرج) کے معزز رکن اورحضرت سعد بن عبادہؓ سردار خزرج کے فرزند ارجمند ہیں، سلسلۂ نسب ،پدر گرامی کے حالات میں بیان ہوچکا ہے، والدۂ ماجدہ کا نام فکیھ بنت عبید بن ولیم تھا اور ان کے والد بزرگوار کی بنت عم تھیں۔ اجداد گرامی مدینہ کے مشہور مخیر اور رئیس اعظم تھے، والد ماجد قبیلہ خزرج کے سردار اورصحابیت کے شرف سے ممتاز تھے،آل ساعدہ کا یہ نامور اسی پہر بریں کا آفتاب عالمتاب تھا۔ اسلام ہجرت نبوی سے قبل مذہب اسلام سے مشرف ہوئے۔ غزوات تمام غزوات میں شرکت کی جیش الخبط میں کہ رجب ۸ھ میں ہوا تھا شریک تھے ،یہ غزوہ مسلمانوں کے لئے یکسر امتحان وآزمائش تھا ۳۰۰ آدمیوں کو لے کر جن میں حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ بھی تھے، حضرت ابو عبیدؓ ہ ساحل کی طرف بڑھے، وہاں ۱۵ روز قیام رہا زاد راہ ختم ہوچکا تھا، لوگ پتے جھاڑ جھاڑ کر کھاتے تھے،حضرت قیسؓ نے یہ دیکھ کر اونٹ قرض لئے اور ان کو ذبح کرایا، اس طرح تین مرتبہ میں ۹ اونٹ قرض لے کر ذبح کئے اور تما م لشکر کے قوت کا سامان کیا حضرت ابو عبیدہؓ نے یہ دیکھ کر زیادہ زیر بار ہورہے ہیں اس سے منع کردیا۔ (بخاری:۲/۶۲۵،۶۲۶) حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے کہا کہ ان کو روکا جائے ورنہ اپنے باپ کا مال اسی طرح صرف کردیں گے (اسد الغابہ:۴/۲۱۵) غزوہ سے واپس ہوکر لوگوں نے آنحضرتﷺ سے ذکر کیا تو فرمایا کہ سخاوت اورفیاضی اس گھرانے کا خاصہ ہے۔ (استیعاب:۲/۵۳۹) غزوۂ فتح میں رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب تھے، یاد ہوگا، سعد بن عبادہؓ سے جب آنحضرتﷺ نے جھنڈا لے لیا، تو انہی کو عطا کیا تھا۔ (استیعاب::۲/۵۳۹) غزوات کی علمبرداری کے علاوہ ،وہ خلافت الہی کے ایک ضروری رکن تھے، خلافت کا نظام جن ارکان سے قائم تھا ان میں ایک حضرت قیسؓ بھی تھے۔ حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں: إِنَّ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ كَانَ يَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرَطِ مِنْ الْأَمِيرِ (بخاری،باب الحاکم یحکم بالقتل علی من وجب،حدیث نمبر:۶۶۲۲) یعنی قیس کا دربار رسالت میں وہ درجہ تھا جو کسی بادشاہ کے یہاں پولیس کے افسر اعلی کوہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ کی بارگاہ میں ان کو خاص خصوصیت حاصل تھی، مسندِ خلافت پر جلوس فرما ہوئے تو ان کو مصر کا والی مقرر کیا، امیر معاویہؓ نے ان کے خلاف ہر چند کوشش کی؛ لیکن ناکامیاب رہے اور مصر میں کسی قسم کی شورش نہ ہوسکی، آخر کوفیوں کو اٹھا کر حضرت علیؓ سے قیسؓ کی معزولی کا فرمان بھجوایا، اوران کی جگہ پر محمد بن ابی بکر والی ہوکر مصر گئے لیکن مصر کی ولایت ان کے بس کی نہ تھی، امیر معاویہؓ اور عمروبن عاصؓ کی حکمت عملی نے ان کے خلاف بد امنی کا ایک طوفان کھڑا کردیا، جس سے سدِ خلافت ٹکراکر پاش پاش ہوگئی۔ (اصابہ:۵/۲۵۵) حضرت قیسؓ مصر سے مدینہ چلے آئے،یہاںمروان موجود تھا، اس نے دھمکی دی ،تو مجبور ہوکر کوفہ چلے گئے اور وہیں حضرت علیؓ کے ساتھ بود وباش اختیار کرلی۔ (اسد الغابہ:۴/۲۱۶) اسی زمانہ میں صفین کا واقعہ پیش آیا، حضرت قیسؓ اس میں شریک ہوئے اور یہ اشعار پڑھے۔ هذا اللواء الذي كنا نحف به مع النبي وجبريل لنا مدد ما ضر من كانت الأنصار عيبته أن لا يكون له من غيرهم أحد قوم إذا حاربوا طالت أكفهم بالمشرفية حتى يفتح البلد (اسد الغابۃ،باب قیس بن سلع:۲/۴۱۹) اس سے قبل جنگ جمل میں بھی حصہ لے چکے تھے۔ جنگ نہروان میں اپنی تمام قوم کے ساتھ شریک تھے، ابتداً اتمام حجت کے لئے جناب امیر ؓ نے حضرت ابوایوبؓ انصاری اورحضرت قیسؓ کو خوارج کے لشکر میں بھیجا، عبداللہ بن سنجر خارجی سے گفتگو ہوئی،اس نے کہا کہ آپ کی اتباع ہمیں منظور نہیں، ہاں عمربن خطابؓ جیسا کوئی ہو تو اس کو خلیفہ بناسکتے ہیں، حضرت قیسؓ نے جواب دیا کہ ہم میں علی بن ابی طالبؓ ہیں، تم میں کوئی اس مرتبہ کا ہو تو پیش کرو، بولا ہم میں کوئی نہیں ،فرمایا تو پھر اپنی جلد خبر لو، میں دیکھتا ہوں فتنہ تمہارے دلوں میں گھر کرتا جارہا ہے۔ لڑائی کے بعد بھی حضرت علیؓ کے وفادار دوست رہے، ۴۰ ھ میں جناب امیر ؓ شہید ہوئے اورعنان خلافت امام حسن ؓ کو تفویض ہوئی تو قیسؓ ان کے بھی دست بازو رہے ،امیر معاویہ نے حضرت علیؓ کی خبر شہادت سن کر ایک لشکر بھیجا تھا، قیسؓ ۵ ہزار آدمیوں کو لے کر جن کے سرمنڈے ہوئے تھے اور موت پر بیعت کرچکے تھے،شامی لشکر کو روکنے کے لئے ابنار پہونچے ،امیر معاویہؓ نے ابنار کا محاصرہ کیا، اسی درمیان میں فریقین میں صلح ہوگئی اور امام حسنؓ نے قیس ؓ کو خط لکھا کہ "شہر معاویہؓ کے سپرد کرکے میرے پاس مدائن چلے آؤ " خط پہنچا تو نہایت برہم ہوئے اور امام حسنؓ کو سخت وسست کہا، پھر سب کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا اورکہا کہ "دو باتوں میں سے ایک اختیار کرو، قتال بلا امام یا اطاعت معاویہ " سب نے باتفاق کہا کہ جنگ کے بجائے امن اچھا ہے، ہم سب امیر معاویہؓ کی بیعت میں داخل ہوتے ہیں، قیسؓ نے ان لوگوں کے لئے امیر سے امان طلب کی اور سب کو لے کر مدائن چلے آئے۔ یہاں سے قیسؓ نے مدینہ کا رخ کیا، ساتھیوں کے لئے خود اپنے اونٹ ذبح کرائے مدینہ پہنچنے تک ایک اونٹ روزانہ ذبح کراتے تھے۔ مدینہ آکر گوشۂ تنہائی اختیار کیا، اورعبادت الہی میں مصروف ہوئے،یہاں تک کہ ان کا مقرر ہ وقت آگیا۔ وفات ۶۰ھ میں انتقال کیا، یہ امیر معاویہؓ کی حکومت کا اخیر زمانہ تھا ،کچھ دنوں بیمار رہے ،اہل مدینہ کثر ت سے ان کے قرضدار تھے،اس لئےعیادت کو آتے ہوئے شرماتے تھے ،انہوں نے اعلان کرادیا کہ جس پر جتنا قرض ہے میں معاف کرتا ہوں، اس خبر کے مشہور ہوتے ہی عبادت کے لئے تمام شہر امنڈآیا، حضرت قیسؓ بالاخانہ پر تھے،لوگوں کی یہ کثرت ہوئی کہ آمدورفت میں کوٹھے کا زینہ ٹوٹ گیا۔ اہل وعیال لڑکے کا نام عامر تھا، (مسند :۳/۴۲۲) اپنے والد سے حدیث روایت کی ہے۔ حلیہ حلیہ یہ تھا، قد لمبا، بدن دوہرا، خوبصورت اورشکیل تھے، چہرہ پر ایک بال نہ تھا اس لئے انصار ظرافت میں کہا کرتے تھے کہ کاش ان کے لئے ایک داڑھی خرید لیجاتی ،قد اتنا لمبا تھا کہ گدھے پر سوار ہوتے تو پیر زمین پر لٹکتے تھے۔ فضل وکمال فضلائے صحابہؓ میں تھے، اشاعت حدیث، خاص نصب العین تھا، مصر میں جب امیر ہوکر گئے ،تو بعض حدیثیں منبر پر بیان کیں۔ (مسند:۲/۴۲۲) مسائل میں غور و فکر اور تحری سے کام لیتے تھے۔ ایک شخص نے صدقہ فطر کی بابت سوال کیا، فرمایا زکوٰۃ سے پیشتر آنحضرتﷺ نے اس کا حکم دیا تھا، جب زکوٰۃ مقرر ہوگئی تو نہ حکم دیا اور نہ منع فرمایا، اسی بناء پر ہم لوگ اب تک ادا کرتے ہیں۔ (مسند:۲/۴۲۳) راویان حدیث اور تلامذہ خاص میں اصحاب ذیل کا نام لیا جاسکتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ، ثعلبہ بن ابی مالک، ابو میسرۃ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، ابو عمار غریب بن حمید ہمدانی، شعبی، عمرو بن شرجیل وغیرہ۔ اخلاق وعادات گلستان سیرت نسیم اخلاق سے شگفتہ ہے،خدمت رسول ،زہد و اتقا، ادب نبوت،جو دوسخا،رائے و تدبر، شجاعت وبسالت،ہر دلعزیزی اور بے تعصبی اس نوبادۂ ساعدہ کے گلہائے شگفتہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت دین و دنیا کی سعادت ہے، تمام صحابہؓ اس شرف عظیم کے لئے جدوجہد کرتے تھے؛لیکن"ایں سعادت بزور با زونیست"حضرت قیسؓ کو یہ شرف بھی حاصل تھا، مسند ابن حنبل میں ہے: ان اباہ دفعہ الی النبی ﷺ یخدمہ (مسند:۳/۴۲۲) یعنی ان کے باپ حضرت سعدؓ نے ان کو آنحضرتﷺ کے حوالہ کیا کہ ان سےکام لیا کریں۔ زہد کا یہ حال تھا کہ امام حسن ؓ کے زمانۂ خلافت کے بعد بالکل عزلت نشین ہوگئے تھے، اکثر عبادت کیا کرتے تھے۔ فرائض سے گذر کر نوافل تک نہایت پابندی سے ادا کرتے تھے ،یوم عاشورہ کا روزہ نفل ہے اور رمضان کے روزوں سے قبل تمام صحابہؓ رکھتے تھے، روزہ رمضان فرض ہونے کے بعد اس کی ضرورت باقی نہ رہی، تاہم حضرت قیسؓ ہمیشہ عاشورے کے دن روزہ رکھتے تھے۔ (مسند:۳/۴۲۲) حامل رسالت کے ادب واحترام کا یہ حال تھا کہ ایک بار آنحضرتﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ کے مکان تشریف لے گئے،واپسی کے وقت حضرت سعدؓ نے اپنا گدھا منگایا اوراس پر چادر بچھوائی اور قیسؓ سے کہا کہ آپ کے ساتھ ساتھ جاؤ، قیسؓ چلے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سوار ہوجاؤ، ان کو تامل ہوا تو ارشاد ہوا کہ سوار ہو یا واپس جاؤ حضرت قیسؓ آنحضرتﷺ کے برابر بیٹھنا خلاف ادب سمجھتے تھے، اس لئے واپس آئے۔ جو دوسخا، فیاضی وکرم ان کی زندگی کا روشن ترو صف ہے،اسماء الرجال کے مصنفین لکھتے ہیں: کان من کرام اصحاب النبی ﷺ واسخیائھم یعنی وہ صحابہؓ میں نہایت کریم اور سخی تھے۔ سخاوت ایک حد تک تو فطری تھی یعنی طبعاً فیاض پیدا ہوئے تھے،لیکن اس میں ملک کی آب و ہوا،والدین کے طرز بود ومانداور خاندان کی قدیم خصوصیات کو بھی بڑی حد تک دخل تھا۔ جیش الخبط کے معرکے میں جب مدینہ آکر اپنے والد سے لوگوں کی فاقہ مستی کا حال بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اونٹ ذبح کراتے ،جواب دیا کہ میں نے ایسا ہی کیا، دوسرے فاقہ کا حال کہا تو بولے پھر ذبح کراتے ،عرض کیا یہی کیا تھا،اسی طرح تیسری بار کی بھوک اوراس کی شدت کا حال سنا تو فرمایا کہ پھر ذبح کراتے بولے کہ مجھے روک دیا گیا۔ (بخاری:۳/۶۲۶) اسی غزوہ میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے جو جملہ ان کے متعلق استعمال کیا تھا،اس کی خبر سعد بن عبادہ کو پہونچ گئی،وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آکر کھڑے ہوئے اور کہا کہ ابن ابو قحافہؓ اورابن خطابؓ کی طرف سے کوئی جواب دے ،وہ میرے بیٹے کو بخیل کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ (اسد الغابہ:۴/۲۱۵) جس شخص کا باپ اتنا دریا دل ہو، اس کی فیاضی کی کیا انتہا ہوسکتی ہے،مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں: واما جودہ فلہ فیہ اخبار کثیرۃ لانطول بذکرھا۔ (اسدالغابہ:۴/۳۱۶) یعنی ان کی سخاوت کے قصے کثرت سے مشہور ہیں ہم ان کا ذکر طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔ کثیر بن صلت امیر معاویہؓ کے قرضدار تھے، انہوں نے مروان کو لکھا کہ کثیر کا مکان تم خرید لو، اگر نہ دیں تو روپیوں کا مطالبہ کرنا، روپیہ دیں تو خیر ورنہ مکان فروخت کرڈالنا، مروان نے کثیر کو بلاکر اس واقعہ سے آگاہ کیا اور ۳ دن کی مہلت دی،کثیر کو مکان بیچنا منظور نہ تھا روپیوں کی فکر کی؛ لیکن ۳۰ ہزار کی کمی تھی سخت پریشان تھے کہ کہاں سے پوری ہو! اتنے میں قیسؓ کا خیال آیا، ان کے مکان پر پہنچے اور ۳۰ ہزار قرض مانگا، انہوں نے فورا ًدے دیا، چنانچہ مروان کے پاس روپے لیکر آئے اس کو رحم آگیا اورمکان اور روپے دونوں ان کے حوالے کردیئے،وہاں سے اٹھ کر قیسؓ کے پاس پہنچے اور ۳۰ ہزار کی رقم واپس کی، انہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ جو چیز ہم دیدیتے ہیں اس کو پھر واپس نہیں لیتے۔ ( استیعاب:۲/۵۳۹) ایک ضعیفہ اپنی مفلوک الحال اور فقر کی شکایت لے کر آئی اور کہا کہ میرے گھر میں چوہے نہیں ہیں (یعنی اناج نہیں جس کی وجہ سے چوہے آئیں) فرمایا سوال نہایت عمدہ ہے،اچھا جاؤ اب تمہارے گھر میں چوہے ہی چوہے نظر آئیں گے ؛چنانچہ اس کا گھر غلہ اور روغن اور دوسری کھانے کی چیزوں سے بھروادیا۔ (استیعاب:۲/۵۳۹) آبائی جائداد میں نہایت استغنا اور سیر چشمی ظاہر کی،حضرت سعدؓ شام روانہ ہوتے وقت اپنی تمام جائداد اولاد پر تقسیم کر گئے تھے، ایک لڑکا ان کی وفات کے بعد پیدا ہوا اس کا حصہ انہوں نے نہیں لگایا تھا، حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ نے قیس کو مشورہ دیا کہ اس تقسیم کو فسخ کرکے از سر نو حصے لگائیں، انہوں نے کہا کہ میرے باپ جس طرح حصے لگا گئے ہیں بدستور باقی رہیں گے، باقی میرا حصہ موجود ہے، وہ میں اس کو دیئے دیتا ہوں۔ (استیعاب:۲/۵۳۹) رائے و تدبیر میں تمام عرب میں انتخاب تھے،مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں: كانوا يعدون دهاة العرب حين ثارت الفتنة خمسة رهط، يقال لهم: " ذوو رأي العرب ومكيدتهم " : معاوية، وعمرو بن العاص، وقيس بن سعد، والمغيرة بن شعبة، وعبد الله بن بديل بن ورقاء۔(اسد الغابہ،باب قیس بن سلع:۲/۴۱۹) یعنی ایام فتنہ میں عرب میں چال اور حکمت عملی والے پانچ شخص تھے، معاویہؓ، عمرو بن العاصؓ، قیسؓ ،مغیرہؓ، عبداللہ بن بدیل ہوشیاری اورچالاکی کا یہ عالم تھا کہ جب تک وہ مصر کے والی رہے امیر معاویہؓ اور عمروؓ کی کوئی حکمت عملی کارگر نہ ہوئی وہ کہتے ہیں: لو لا الاسلام المکرت مکرالاتطیقہ العرب یعنی اگر اسلام نہ ہوتا تو میں ایسا مکر کرتا جس سے تمام عرب عاجز آجاتا اپنی قوم میں نہایت ہر دلعزیز اور تمام انصار پر حاوی تھے۔ حبیب بن مسلمہ فتنۂ اولی (قتل حضرت عثمانؓ) کے زمانہ میں گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پاس آئے اور کہا کہ اسی گھوڑے پر سوار ہوجایے اورخود زین سےہٹ گئے،قیسؓ نے اس بنا پر آگے بیٹھنے سے انکار کیا کہ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ آگے خود جانور کے مالک کو بیٹھنا چاہیے، حبیب نے کہا یہ بھی جانتا ہوں،لیکن آپ کے پیچھے بیٹھنے میں مجھ کو اطمینان نہیں۔(مسند:۳/۴۲۲) نہایت درجہ بے تعصب تھے،قادسیہ میں سہل بن حنیف کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ گذرا تو جیسا کہ مسلمانوں کا عام قاعدہ تھا، کھڑے ہوگئے،لوگوں نے کہاآپ ناحق کھڑے ہوئے، وہ ایک ذمی کا جنازہ تھا، حضرت قیسؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ بھی ایک یہودی کے جنازہ کے لئے اٹھے تھے، جب واقعہ معلوم ہوا تو ارشاد فرمایا کیا مضائقہ آخر وہ بھی تو ایک جان ہے۔(مسند:۶/۶) شجاعت وبسالت کا تذکرہ غزوات میں آچکا ہے،اس بناء پر اس کا اعادہ چنداں ضروری نہیں۔