انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اجتہاد اور عصر حاضر کے تقاضے اجتہاد کے لغوی معنی کسی کام کی تکمیل میں اپنی تمام ترقوت صرف کرنے کے ہیں: "اماالاجتہاد فھو فی اللغۃ عبارۃ عن استفراغ الوسع فی تحقیق امرمن الامور مستلزم للکلفۃ والمشقۃ"۔ (الاحکام فی اصول الاحکام:۴/۱۶۹) فقہا اور اصولیین کے نزدیک اجتہاد نام ہے غیرمنصوص مسائل اور واقعات کے شرعی احکام معلوم کرنے کے لیے اس درجہ انتہائی کوشش صرف کرنے کا کہ اس کے بعد مزید تحقیق وجستجو کا امکان باقی نہ رہے۔ "واما فی اصطلاح الاصولیین فمخصوص باستفراغ الوسع فی طلب الظن بشیٔ من الاحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید فیہ"۔ (الاحکام فی اصول الاحکام:۴/۱۶۹) حکم حالات اور واقعات کے اعتبار سے اجتہاد کے حکم اور اس کی فقہی حیثیت میں بھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے، مختصراً یہ کہ: (الف)عرف وعادت کی تبدیلی، یاعصری تغیرات کی وجہ سے جدید مسائل پیش آئے ہوں اور جس زمانہ یاجس علاقہ میں پیش آئے ہوں وہاں اجتہاد کی اہلیت اور صلاحیت رکھنے والا کوئی ایک ہی شخص ہوکوئی دوسرا مجتہد نہ ہو جوان مسائل کے بارے میں شریعت کے حکم کی تلاش وتحقیق کرسکے، توان حالات میں ایسے شخص پراجتہاد فرضِ عین ہے "ثم ینقسم الاجتہاد من حیث الحکم الذی یتعلق بہ الی اجتہادواجب عیناً علی المجتہد المسئول عن حکم حارث اذا خاف ای المجتہد فوت الحادثۃ"۔ (ب)اور اگرایسی صورت میں اجتہاد کی مطلوبہ صلاحیتوں کے مالک کئی افراد موجود ہوں تواجتہاد فرضِ کفایہ ہے کہ کسی ایک نے بھی اجتہاد کے ذریعہ شرعی حکم دریافت کرلیا توسب سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا؛ ورنہ سب عنداللہ ماخوذ وگنہگار ہوں گے: "الی اجتہاد واجب کفایۃ علی المسئول فی حق غیرہ، لولم یخف فوت الحادثۃ...... وثم غیرہ من المجتھد فیتوجہ الوجوب علی جمیعھم حتی لوامسکوا مع اقتدارھم علی الجواب، اثمو"۔ (تیسیرالتحریر، شرح کتاب التحریر:۴/۱۷۹) (ج)ٹھیک یہی تفصیل ان مسائل کے بارے میں ہے جوابھی پیش نہ آئے ہوں، یعنی کسی مجتہد وقت کویہ اندازہ ہوکہ مستقبل قریب میں کچھ عصری اور جدید مسائل پیش آنے والے ہیں؛ لیکن علمی انحطاط کے تحت اس بات کا اندیشہ ہوکہ اس وقت کوئی اجتہاد کی مطلوبہ صلاحیتوں کا مالک نہ ہوگا توان مسائل کے بارے میں شرعی حکم کی تلاش وتحقیق اور اجتہاد کی مطلوبہ صلاحیتوں کا مالک نہ ہوگا توان مسائل کے بارے میں شرعی حکم کی تلاش وتحقیق اور اجتہاد کرنا بھی فرض ہے۔ (د)ان صورتوں کے علاوہ عام حالات میں مستحب ہے؛ نیزشریعت کے قطعی اور صریح دلائل کے موجود ہوتے ہوئے اجتہاد کرنا اور قیاس سے کام لینا حرام ہے: "ومندوب معطوف على واجب وهومايقع قبلهما أي قبل وجوبه عينا ووجوبه كفاية لماذكر أوقبل السؤال ونزول الحادثة وإلى حرام وهوالاجتهاد في مقابلة دليل قاطع من نص كتاب أوسنة أوإجماع"۔ (تیسیرالتحریر، شرح کتاب التحریر:۴/۱۸۰) اجتہاد کے مدارج غیرمنصوص مسائل اور واقعات کومنصوص مسائل کا حکم دینے کے لیے مجتہد کوتین قسم کے عمل کرنے پڑتے ہیں: (الف)تنقیح مناط (ب)تخریجِ مناط (ج)تحقیقِ مناط۔ قرآن مجید زیادہ تراصولی احکام پر مشتمل ہے، ذخیرۂ حدیث قرآن مجید کا شارح وترجمان ہے؛ تاہم اس میں مذکورہ احکام بھی محدود ہی ہیں اور زمانہ میں پیش آنے والے تغیرات، حاداثات اور واقعات بے شمار ہیں، اس لیے ایسے جدید اور عصری مسائل کے لیے اجتہاد ایک ضرورت ہے، ذیل میں اجتہاد سے متعلق ان تینوں شعبوں کی مختصر سی وضاحت کی جاتی ہے: (۱)تنقیحِ مناط سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ کریم یاحدیث شریف میں ایک حکم کے ساتھ کئی ایسے اسباب واوصاف مذکور ہوں، جواس کی علت بن سکتے ہوں، دلائل وقرائن کے ذریعہ ان میں سے کسی ایک کوعلت کا حکم قرار دیا جائے اور باقی ان اتفاقی قیود کونظرانداز کردیا جائے، جن کاحکم میں کوئی دخل نہیں "وذلك أن يكون الوصف المعتبر في الحكم مذكورا مع غيره في النص؛ فينقح بالاجتهاد، حتى يميز ماهومعتبر مماهوملغى"۔ (الموافقات:۴/۶۰) مثلاً ایک دہاتی صحابیؓ نے حضوراکرمﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں توبرباد ہوگیا، آپﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا، آپؐ نے بطورِ کفارہ انہیں ایک غلام آزاد کرنے کا حکم دیا: "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَارَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ قَالَ وَمَاأَهْلَكَكَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ قَالَ هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً، الخ"۔ (ترمذی،كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي كَفَّارَةِ الْفِطْرِ فِي رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۶۵۶، شاملہ، موقع الإسلام) اس روایت میں غور کرنے سے اصل سبب حکم کے علاوہ چند اور اسباب واوصاف کا بھی پتہ چلتا ہے، جیسے سائل کا دیہاتی ہونا، رمضان کے مہینہ میں جماع کرنا، بحالتِ روزہ جماع کرنا، اپنی زوجہ کے ساتھ جماع کرنا وغیرہ، جب کہ اصل سبب حکم توکسی بھی عاقل وبالغ مسلمان کا کسی بھی رمضان میں کسی بھی عورت کے ساتھ جماع کرنا ہے؛ لہٰذا اس اصل سبب کے علاوہ سابق میں ذکرکردہ تمام اسباب واوصاف، اتفاقی قیود قرار پائیں گی، جن کا حکم میں کوئی دخل نہیں اور یہی تنقیحِ مناط ہے۔ (۲)تخریجِ مناط سے مراد یہ ہے کہ کسی خاص مسئلہ میں علتِ حکم کی صراحت کے بغیر شریع تکوئی حکم دے اور مجتہد اپنی تحقیق واجتہاد سے اس کی کوئی علت متعین کرے اور پھراشتراکِ علت کی صورت میں اس حکمِ منصوص کودوسرے غیرمنصوص مسائل اور واقعات پرنافذ کرے: "والثاني: المسمى بتخريج المناط، وهوراجع إلى أن النص الدال على الحكم لم يتعرض للمناط؛ فكأنه أخرج بالبحث، وهوالاجتهاد القياسي"۔ (الموافقات:۴/۶۰) مثلاً شارع علیہ السلام نے علتِ حکم کی صراحت یامدارِ حکم کی تعیین کے بغیر سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور اور نمک میں ربوا کوحرام قرار دیا ہے: "عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَاكَانَ يَدًا بِيَدٍ"۔ (مسلم،كِتَاب الْمُسَاقَاةِ،بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا،حدیث نمبر:۲۹۷۰، شاملہ، موقع الإسلام) اب مجتہدین نے اپنی آخری کوشش علت حکم کی یافت میں صرف کردی اور پتہ چلایا کہ مدارِ حکم، ثمنیت اور طعم (یعنی کسی شئی کا قابل قیمت اور خوردنی ہونا) یاجنس وقدر ہے (یعنی دوچیزوں کے درمیان جنس اور وزن وپیمائش میں اتحاد کا ہونا) پس شریعت کے ایسے احکام جن میں حکم کی علت صریح اور واضح نہ ہو، مجتہد کااپنے اجتہاد سے علتِ حکم کومتعین کرنا "تخریجِ مناط" ہے۔ (۳)تحقیقِ مناط تحقیقِ مناط کی دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ غیرمنصوص مسائل اور واقعات کے بارے میں یہ تحقیق کرنا کہ وہ (یعنی غیرمنصوص مسائل) اس قاعدۂ کلیہ کا مصداق بن رہے ہیں یانہیں، جس کا ثبوت نص یااجماع سے ہو؛ اگروہ قاعدہ کلیہ کا مصادق بن رہے ہوں تواس کا حکم ان پر بھی نافذ ہوگا، مثلاً حالتِ احرام میں اگرکوئی شکار کرے توقرآنی نص کے مطابق اس پرکفارہ شکار کے مماثل ہوگا: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَاقَتَلَ مِنَ النَّعَمِ"۔ (المائدۃ:۹۵) پس کفارہ کا شکار کے مماثل ہونا منصوص قاعدکلیہ ہے؛ لیکن یہ تحقیق کہ آیا نیل گائے، گائے کے مماثل ہے یانہیں؟ تحقیقِ مناط ہے، ایسے ہی اگرکوئی چوری کرے تونص قطعی کی رو سے اس کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں گے: "وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ"۔ (المائدۃ:۳۸) پس سرقہ کے ثبوت پرچور کے ہاتھ کا کاٹا جانا منصوص قاعدہ کلیہ ہے؛ لیکن یہ تحقیق کہ جیب کترنا، کفن چرانا سرقہ ہے "تحقیقِ مناط" ہے اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ "علت حکم" جس کا ثبوت نص یااجماع سے ہو __________ کےبارے میں یہ تحقیق کرنا کہ وہ نئے پیش آنے والے مسائل اور جزئیات میں پائی جاتی ہے یانہیں، مثلاً بلی کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اس کا جھوٹا نجس نہیں: "إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَا مِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ"۔ (مسنداحمد بن حنبل، حدیث نمبر:۲۲۶۸۹، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) اس نص کی روشنی میں اس حکم کی علت بلی کا طوافین (بار بار آمد ورفت کرنے والی چیزوں) میں سے ہونا ہے؛ لیکن یہ تحقیق کرنا کہ آیا چوہے اور دوسرے حشرات الارض میں یہ علت پائی جاتی ہے یانہیں، تحقیقِ مناط ہے: "فأما الأول؛ فهوالاجتهاد المتعلق بتحقيق المناط ومعناه أن يثبت الحكم بمدركه الشرعي لكن يبقى النظر في تعيين محله"۔ (الموافقات:۴/۵) ائمہ اربعہ کے عہد اور ان کے بعد بھی ایک عرصہ تک کارِ اجتہاد کے ان تینوں شعبوں سے استفادہ کیا جاتا رہا اور اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی گئی؛ البتہ بعد کوچل کر،خاص کرسلطنتِ عباسیہکے زوال کے بعد کارِ اجتہاد کا ایک بڑا حصہ آپ سے منقطع ہوگیا؛ لیکن اسی کے ایک حصہ یعنی "تحقیقِ مناط" (جس کا قدرے وضاحت کے ساتھ اوپرتذکرہ کیا گیا ہے) کوابدی ضرورت کے تحت علماء نے باقی رکھا؛ یہی وہ قسم ہے جوعلم فقہ کونئی ضروریات اور جدید پیش آنے والے مسائل کے بارے میں شرعی حکم کی یافت کے لیے زندہ، کارکرد اور ہرطرح کے جمود واضمحلال سے محفوظ رکھتی ہے۔ شرائطِ اجتہاد اجتہاد کی تعریف؛ بلکہ اس کا نام ہی سے واضح ہے کہ یہ ایک بڑا نازک اور اہم کام ہے، جس میں شرعی مآخذ کی روشنی میں غیرمنصوص مسائل کا استنباط کرنا پڑتا ہے، اس لیے فطری بات ہے کہ اس کے لیے تقویٰ، خداترسی اور عدل وثقاہت کے ساتھ ساتھ غیرمعمولیا علمی تبحراور انتہائی فہم وفراست درکار ہوتی ہے، اس لیے اصولیین اور اسلامی قانون کےماہرین نے کارِ اجتہاد انجام دینے والوں کے لیے چند شرطوں اور صلاحیتوں کوضروری قرار دیا ہے، جن کے بغیر انہیں اس راہ میں ایک قدم رکھنا بھی جائز نہیں، ذیل میں انہیں شرطوں کوایک خاص ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے: ۱۔ان میں سب سے اہم اور بنیادی شرط تقوی اور خدا ترسی ہے کہ اس کے بغیر مسائل کی صحیح تخریج تقریباً ناممکن ہے، اس جوہر کے بغیر جوبھی اس راہ میں قدم رکھے گا خوفِ خدا اور عنداللہ جواب دہی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے کوشش کرے گا کہ احکام شرع کا بوجھ سرسے اتارا جائے اور شریعت کواپنی ہوس اور خواہش کا تابع بنایا جائے؛ یہی وجہ ہے کہ تمام ائمہ مجتہدین علمی تبحر اورفہم وفراست کے ساتھ عدل وخداترسی میں بھی مشہور زمانہ تھے: "وھناک نجد الأئمۃ الذین اورثوا من بعدھم ذالک الفقہ العمیق کانوا ممن اشتھروا بالورع قبل ان یشتھروا بالفقہ، واخبارھم ناصحۃ بالنور والمعرفۃ"۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۳۶۵) ۲۔عربی زبان میں مہارت: عربی زبان قرآن وحدیث کی زبان ہے، اسی میں مذہب کے اصلی الفاظ اور دینی اصطلاحات ہیں، اس سے مکمل واقفیت کے بغیر اسلامی نظامِ حیات سے براہِ راست واقفیت اور اس کے عظیم الشان ذخیرہ سے نہ صحیح اور نہ زندہ تعلق استوار ہوسکتا ہے اور نہ اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، ترجمے خواہ کتنی ہی مہارت سے کیوں نہ کئے گئے ہوں کسی بھی اصل کتاب کی تمام کیفیات کے حامل نہی ںہوسکتے؛ چہ جائیکہ قرآن وحدیث کہ جن کی مختصر سی عبارت بھی معانی وفکر سے لبریز ہوتی ہے؛ اسی لیے عربی زبان اور اس سے متعلق علوم، لغت، صرف، نحو اور اصولِ بلاغت پربھی دست رس ضروری ہے، ہاں یہ لازم نہیں کہ ان علوم میں بھی اجتہاد کا درجہ حاصل ہو؛ بلکہ بوقتِ ضرورت ان علوم سے متعلق کتابوں کی مراجعت کرسکے، یہ بات بھی کافی ہے: "وسادسها علم العربية لغة ونحوا وتصريفا فلتعرف القدر الذي يفهم به خطاب العرب وعاداتهم في الاستعمال إلى حد يميز به من صريح الكلام وظاهره ومجمله ومبينه وحقيقته ومجازه وعامه وخاصه إلى غير ذلك وليس عليه أن يبلغ مبلغ الخليل بن أحمد"۔ (الابہاج فی شرح المنہاج:۳/۲۵۵) ۳۔قرآن وحدیث کا علم: قرآن وحدیث کی تعلیمات اور مضامین کا اجمالی؛ لیکن جامع اور محیط خاکہ مجتہد کومستحضر رہنا چاہئے، خصوصیت کے ساتھ ان آیات واحادیث پرگہری نگاہِ کامل دست رس اور مکمل بصیرت ہونی چاہئے، جن کا تعلق احکام ومسائل سے ہو، عام علماء کی تشریح کے مطابق ایسی آیات ۵۰۰/ اور احادیث تقریباً ۳۰۰۰/ہیں؛ لیکن اس سے مقصود فقہی اور قانونی آیات واحادیث کوایک خاص عدد میں منحصر کرنا نہیں، یہ تعداد دراصل ان آیات واحادیث کی ہے جوبہ صراحت اصولِ تشریع واحکام سے متعلق ہیں؛ ورنہ محقق مفسرین ومحدثین نے اس سے کہیں زیادہ آیات واحادیث سے مسائل کی تخریج کی ہے: "ان غالب القرآن لایخلوا من ان یستنبط منہ حکم شرعی.... فان احکام الشرع کماتستنبط من الاوامر والنواھی کذالک تستنبط من الاقاصیص والمواعیظ ونحوھا"۔ (شرح ابن بلدان علی روضۃ الناظر:۲/۴۰۲، بحوالہ: اسلامی عدالت) قرآنِ کریم اور ذخیرۂ حدیث کا حافظ ہونا ضروری نہیں؛ البتہ امام شافعیؒ حفظِ قرآن کوضروری قرار دیتے ہیں: "وروی عن الامام الشافعیؒ، انہ اشترط حفظ کلہ واستیعابہ لکل مااشتمل علیہ"۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۳۵۹) اس باب میں پسندیدہ اور معتدل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے احکام ومسائل سے متعلق حصہ کا حافظ ہونا بہتر ہے، علم قرآن وحدیث کے ذیل میں ناسخ ومنسوخ کی پہچان اور شناخت بھی ضروری ہے، ان سے واقفیت کے بغیر کسی بھی مسئلہ میں فتویٰ دینا یاکسی اصل شرع سے مسئلہ کی تخریج کرنا فتنہ اور لغزش سے خالی نہیں: "وان یکون عالما بمانسخت احکامہ منہا علی فرض ان فیھا ناسخا ومنسوخا"۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۳۵۸) علمِ حدیث میں متاوتر مشہور اور خبرِواحد کی شناخت اور متعارض روایات کے درمیان تطبیق یاترجیح کے اصول اور طریقِ کار سے واقفیت، نیزجرح وتعدیل یافن اسماء الرجال پرنگاہ ہونا بھی ضروری ہے، جس سے حدیث کی صحت وسقم اور ناقلینِ حدیث کا قابل اعتبار ہونا اور نہ ہونا معلوم ہوتا ہے __________ تدوینِ فقہ کے ابتدائی دور میں چونکہ یہ تمام بحثیں مرتب نہیں تھیں، اس بنا پر مجتہد کے لیے ان کومحفوظ اور مستحضررکھنا ضروری تھا، ہمارے دور میں جب کہ حدیث اور متعلقاتِ حدیث پرنہایت محققانہ بحثیں کتابی شکل میں محفوظ ومرتب ہوچکیں، اس باب میں اتنی صلاحیت کہ بوقتِ ضرورت متعلقہ کتب سے استفادہ کیا جاسکے کافی ہوگی۔ (۴)اجماعی احکام اور اختلافی مسائل کی شناخت بھی مجتہد کے لیے لازمی ہے تاکہ کسی مسئلہ میں ایسا فیصلہ اور فتویٰ نہ دے بیٹھے جو خارقِ اجماع ہو، فقہا اور اصولیین کے درمیان جن مسائل پراتفاقِ رائے نہ ہوسکا ان کی واقفیت مجتہد کے اندر مختلف فیہ مسائل میں تقابل اور ترجیح کی صلاحیت اور استدلال واستنباط کی قوت پیدا کرتی ہے؛ تاہم ان تمام مسائل کا زبانی یاد رکھنا ضروری نہیں، اس باب میں بھی اتنی صلاحیت کافی ہوگی کہ بوقتِ ضرورت متعلق کتب کی مراجعت کرکے ان کا استحضار کیا جاسکے: "ولیس المراد ان یحفظ کل مواضع الاجماع حفظاً یستظھرہ فی عامۃ احوالہ، بل المراد ان کل مسئلۃ یتصدی لدراستھا یکون علی علم بموضع الاجماع فیھا ان کان اجماع وموضع الاختلاف ان کان اختلاف" (اصول الفقہ:۳۶) (۵)علم اُصول الفقہ مجتہدین کے اوصاف وشرائط بحث وتحقیق کا اہم ترین موضوع ہیں، اس باب میں متقدمین اور متاخرین کی گرانقدر تصنیفات ہیں، ان تمام شرائط واوصاف کواختصار کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی فقیہ کے لیے علم اصولِ فقہ میں مہارت کے بغیر اجتہاد جائز نہیں، اس میں بھی خاص کرقیاس اور اس کے ارکان وشرائط کا علم؛ نیزمختلف دلائل میں ترتیب وترجیح کے اصول وطریقہ کار سے واقفیت بھی ضروری ہے: "لابد ان بعرفہ ویعرف شرائطہ المعتبرۃ لانہ قاعدۃ الاجتہا، والموصل الی تفاصیل الاحکام التی لاحصر لہا"۔ (شرح الاسنوی:۳/۳۱۰، بحوالہ، اسلامی عدالت) (۶)مقاصد شریعت اہلیت وشرائطِ اجتہاد کی اس بحث کوختم کرنے سے پہلے مقاصدِ شریعت کے بارے میں بھی کچھ عرض کردینا ضروری ہے، اسلامی شریعت اور قانون کوئی منجمد اور ساکن شریعت نہیں، یہ شریعت عہدِ رسالتﷺ اور ابتدائے اسلام میں بھی ایک زندہ شریعت تھی اور اسلامی تاریخ کے ہردور میں ایک زندہ شریعت رہی اور اس زمانہ میں بھی وہ حقیقتاً ایک زندہ اور ترقی یافتہ قانون کی صلاحیت رکھتی ہے، اسلامی قانون کی اس کامیابی کی سب سے بری وجہ شریعت کے عطا کردہ ایسے وسیع اور ہمہ گیر رہنمایانہ اصول ہیں جو ہرزمانہ اور تمام حالات میں انسانی معاشرے کی عادلانہ تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قابلِ عمل ہیں، ایسی صورت میں مجتہد کے لیے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقاصد، اس کے مزاج ومذاق اور اس کی روح سے واقف ہو اور پھراحوالِ ناس کے تغیر اور عرف وعادت کی تبدیلیوں سے پیدا شدہ نئے مسائل ومشکلات کا اسلامی حل پیش کرے، اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جوبھی تغیروتبدیلی ہوگی، یانئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی حکم کی یافت کی جائے گی وہ عین شریعت کے مطابق ہی ہوگی، اس کی مثال میں عہد صحابہؓ وتابعین کی بہت سی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ مجتہد کی اقسام اسلامی قانون کے ماہرین نے علماء فقہ کوکم وبیش چھ طبقوں میں تقسیم کیا ہے: (۱)مجتہد کامل (۲)مجتہد فی المذہب (۳)مجتہد فی المسائل (۴)اصحاب تخریج (۵)اصحاب ترجیح (۶)اصحاب تمییز، مواخرالذکر چاروں طبقات کا شمار ایک طرح سے "علماء مقلدین" ہی میں ہوتا ہے موضوع بحث چونکہ اجتہاد ہے اس لیے ذیل میں طبقاتِ فقہاء کی صرف ان ابتدائی قسموں کا ذکر کیا جاتا ہے جوتخریجی احکام میں مکمل یاکچھ نہ کچھ اجتہاد سے کام لیتے ہیں۔ مجتہد کامل ان میں سرِفہرست مجتہدیِ کامل کا شمار ہوتا ہے، یہ حضرات کسی دوسرے فقہ مجتہد کی تقلید کے بغیر اپنی دینداری وخداترسی اور بے پناہ علم صلاحیت کی بنا پر براہِ راست کتاب وسنت سے اصول وقواعد کا استنباط بھی کرتے ہیں اور پھران کی روشنی میں احکام ومسائل کی تخریج بھی: "وفی الجملۃ یسلکون کل سبل الاستدلال التی یرتوونہا ویسوفیہا تابعین لاحد فہم الذین یرسمون المناھج لانفسہم ویفرعون الفروع التی یرونہا"۔ (اصول الفقہ، لابی زہرہ:۳۰) اس زمرہ میں بالاتفاق، فقہا، صحابہؓ، اور فقہاء تابعینؓ میں سے ائمہ اربعہ کے علاوہ محمالباقرؓ، جعفر الصادقؓ، سعید بن المسیبؒ، اوزاعیؒ، ابراہیم نخعیؒ، سفیان ثوریؒ، لیث بن ثابت سعدؒ،ابوثورؒ اور صحیح ترقول کے مطابق صاحبین اور امام زفر رحمہم اللہ کا شمار بھی اسی طبقہ میں ہوتا ہے۔ مجتہد منتسب دوسری قسم ان مجتہدین کی ہے جنھیں منتسب مجتہدین فی المذہب کہا جاتا ہے، یہ حضرات اصول میں توکسی مجتہد کامل کے مقلد ہوتے ہیں لیکن احکام کے استنباط اور مسائل کی تخریج میں خود بھی اجتہاسے کام لیتے ہیں، مثلاً علماء حنفیہ میں حسن بن زیادؒ، ابوالحسن کرخیؒ، ہلال الرائی، ابوبکر الاصم رحمہم اللہ تعالیٰ: "ھذۃ الطبقۃ الثانیۃ ویسمون المنتبین وھم الدین اختاروا اقوال الامام فی الاصل وخالفوہ فی الفرع"۔ (اصول الفقہ، لابی زھرہؒ:۳۶۹) مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ سوائے ائمہ اربعہ کے ظظ "مجتہدین صحابہ وتابعین"میں سے ایک کا مسلک اور مذہب بتدریج دنیا سے مفقود ہوتا گیا، اب کچھ فقہ وحدیث کی مختلف کتابوں میں ان حضرات کے اقوال ملتے ہیں، بعد کوچل کرجب ائمہ اربعہ کی جامع وہمہگیری فقہ کومرتب ومدون شکل میں محفوظ کرلیا گیا تواجتہاد کایہ سلسلہ از خود منقطع ہوگیا اور جمہور علماءِ امت نے ان چاروں مذہبوں میں سے کسی ایک کی تقلید ہی کو ضروری قرار دیا ہے: "انعقد الاجماع علی عدم العلمل بالمذاہب المخالفۃ للائمۃ الاربعۃ"۔ (فتح القدیر) "ولما اندرست المذاھب الحقۃ الاھذہ الاربعۃ کان اتباعھا تباعاً للسواد الاعظم والخروج عنھا خروجاً عن السواد الاعظم"۔ (عقدالمجید:۳۵) اور حقیقت یہ ہے کہ اس بے دینی اور بے ایمانی کے دورمیں مذاہب اربعہ میں سے کسی کی تقلید ہی ضروری ہے؛ ورنہ اگراجتہاد کی اجازت دیدی جائے تودین وشریعت کے ساتھ وہ کچھ کیا جائے گا جس کا نقشہ شاعر مشرق نے ان لفوظوں میں کھینچا ہے ؎ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ واعظانِ حرم بے توفیق تجزی اجتہاد اجتہاد کے بارے میں جن نکات اور موضوعات پربحث وتحقیق ہوتی ہے ان میں ایک اہم ترین بحث تجزی اجتہاد، یعنی کسی خاص شعبۂ دین میں اجتہاد کی ہے، اس مسئلہ کی اہمیت اس لیےبھی ہے کہ فی زمانہ ایک طرف عربیت، علومِ قرآن، معارفِ حدیث، اصولِ تشریع، فقہی فروعات اور احکام ومسائل کی جامع ہستی "مجتہدِ مطلق" کا وجود نایاب اور محال ہے، تودوسری طرف احوال ناس کے تغیر اور عرف وعادات کی تبدیلی خاص کردورِ حاضر کی حیرت انگیز ایجادات واکتشافات اور دنیا کے معاشی اور سیاسی انقلابات نے ایسے مسائل پیدا کردئیے ہیں جوعہدِ سلف میں پیش نہیں آئے تھے، ایسی صورت میں جب کہ تمام فقہی ابواب میں اجتہادِ کامل کی صلاحیت رکھنے والی ہستی نہ ہو، آیا یہ بات درست ہوگی کہ کسی شخص کودین کے خاص شعبہ میں علمی براعت اور کمالِ تحقیق کی وجہ سے مجتہد تسلیم کرلیا جائے اور دوسرے شعبوں میں نہیں؟ زمانۂ قدیم اور آج کے عہد میں بھی علماء کے درمیان اس باب میں اتفاقِ رائے نہ ہوسکا، امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے فقہاء اسے ناجائز کہتے ہیں: "واختار طائفۃ فقیہ مطلقاً"۔ بعض فقہاء اسے علم فرائض کی حد تک جائز تسلیم کرتے ہیں؛ مگردوسرے شعبائے دین میں اس کی اجازت نہیں دیتے، بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ کسی بھی مکمل فقہی باب میں توتجزی درست ہے؛ لیکن یہ درست نہیں کہ ایک باب کے کسی خاص مسئلہ میں کوئی مجتہد ہو اور اسی باب کے دوسرے مسئلہ میں نہ ہو: "واختار طائفۃ نفیہ مطلقا وقیل لایتجر اوقیل یتجزا فی باب لافی مسئلۃ وقیل فی الفرائض لافی غیرھا"۔ (مختصر التحریر:۳۹۸، بحوالہ اسلامی عدالت) لیکن جمہور کارحجان اس کے جواز کی طرف ہے: "وَقَدْ حُكِيَتْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةُ فِي أُصُولِ ابْنِ الْحَاجِبِ وَغَيْرِهَا وَذُكِرَ فِيهَا جَوَازُهُ، وَهُوَقَوْلُ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَلَى مَاذَكَرَهُ الْبُسْتِيُّ مِنْ مَشَايِخِنَا وَمُخْتَارُ الْغَزَالِيِّ وَنَسَبَهُ السُّبْكِيُّ وَغَيْرُهُ إلَى الْأَكْثَرِ وَقَالَ: إنَّهُ الصَّحِيحُ وَقَالَ ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ: وَهُوَالْمُخْتَارُ"۔ (التقریر والتحریر:۲/۲۹۳، یہ حوالہ اسلامی عدالت) لیکن اس میں بھی دواحتیاطیں ملحوظ رکھنی ضروری ہیں، پہلی یہ کہ جوشخص کسی خاص شعبۂ دین میں اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو، اس کے اندر اپنے موضوع میں کمال تحقیق کے علاوہ وہ عمومی شرطیں اور صلاحیتیں بھی ہوں، جن کا تعلق مطلق اجتہاد سے ہے، مثلاً مسائل کی کنہ تک پہونچنا، مفہوم کی تہ کوسمجھنا، دلائل میں امتیاز اور قوتِ استنباط وغیرہ پس جس شخص میں اجتہاد کی یہ عمومی شرطیں اور صلاحیتیں ہوں، اسے کسی خاص شعبہ دین میں علمی براعت اور کمال تحقیق کی وجہ سے یہ اجازت ہوگی کہ اپنے خاص موضوع سے متعلق باب میں اجتہاد کرے اور تقلید سے احتراز کرے، دوسری بات یہ کہ آج کے ماحول میں جب کہ احکام شرع کا بوجھ سرسے اتارنے کارحجان بڑھا ہوا ہے، دینی کیفیتیں اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہیں، کسی کوبھی محض کمال تحقیق کی بناپراجتہاد کا حق دینا فتنہ سے خالی نہیں، اس لیے مناسب ہے کہ کتاب وسنت کے ساتھ فقہاء کے اجماعی اور مختلف فیہ مسائل پرنگاہ رکھنے والے اصحاب بصیرت اور جدید علوم وفنون کے زمانہ شناس ماہرین ومتخصصین پرمشتمل ایک مجلس کی تشکیل عمل میں لائی جائے، جہاں یہ حضرات جمع ہوکر اجتماعی تبادلۂ خیال، غوروفکر اور بحث وتحقیق کے ذریعہ مسائل حل کریں، اس طرح کے اجتماعی غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کی مثالیں عہدسلف میں بھی ملتی ہیں، حضرت عمرؓ کے عہد میں فقہاء صحابہؓ کا اجتماع مدینہ کے فقہاء سبعہ کی مجلس فقہ، امام اعظمؒ اور ان کے رفقا کی مجالس اجتہاد اس طرف بہ صراحت رہنمائی کرتی ہے __________ موجودہ دور میں مجامع اور اکیڈمیوں کے ذریعہ اجتماعی غوروفکر اور تبادلۂ خیال کی جوطرح پڑی ہے، وہ اسی صفت کی تجدید اور اس میں توسیع ہے، علماء ہند نے بھی اس سلسلہ کی مساعی میں کبھی کوتاہ ہمتی کا ثبوت نہیں دیا، مولانا تھانویؒ کا نام اس فہرست میں پیش پیش ہے، اللہ کے شکر ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی نے ہندوستان میں اس کام کووسیع اور اعلیٰ سطح پرانجام دینا شروع کیا ہے اور حضرت مولانا مجاہد الاسلام صاحب قاسمی کی سرپرستی میں اس کے کام اور اقدام کی جورفتار ہے وہ نہایت اطمینان بخش اور امید افزا ہے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اس چراغ کوہمیشہ روشن رکھے اور اس کے افادہ واستفادہ کے دائرہ کو وسیع سے وسیع ترفرمائے، آمین۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔