انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بنی اسرائیل میں فن روایت کا فقدان بنو اسرائیل میں اعتدال کلیۃ مفقود تھا،جب وہ تحقیق پر آتے تو کوہ طورپر کلام باری بلاواسطہ سن کر بھی سو طرح کے شبہات نکالنے لگتے اورجب تقلید کرنے پر آمادہ ہوتے تو جوان کے احبا رو رہبان ان کے سامنے ڈالتے اسے اندھوں کی طرح مٹکنے کے لیے تیار ہوجاتے؛ غرض نقد وتبصرہ اور فہم و فکر کی ان میں کوئی استعداد نہ تھی، حضرت الشیخ مولانا بدر عالم مدنی مذکورہ بالاتبصرہ کے بعد لکھتے ہیں: روایت اور درایت کے اس غیر متوازن دور میں اسلام آیا اوراس نے ان دونوں کا توازن قائم کرکے صحیح تنقید کی راہ دکھلائی اوراس کے لیے ایک ایسا معتدل آئین مرتب فرمایا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط، اس نے بتایا کہ ہر کان پڑی خبر کی طرف دوڑ پڑنا بھی غلط ہے اور تحقیق و تفتیش کے سلسلہ میں بد گمانی کی حد تک پہنچ جانا بھی غلو اور وہم پرستی ہے، انسان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بے اعتمادی کی حالت میں آنکھ میچ کر تغلیط اور اعتماد کی صورت میں بے دلیل تصدیق کرلیا کرتا ہے،مگر قرآن نے یہاں دوست دشمن اپنے اور پرائے کا فرق ختم کرکے سب کے لیے یکساں تحقیق و تبیین کا قانون مقرر کردیا ہے۔ قرآن نے یہ تعلیم دی کہ ہر خبرکی تحقیق و تبیین کرلیا جائے کہ وہ خواہ فاسق شخص ہی کی خبر کیوں نہ ہو،ہر چند کہ فاسق آدمی کی خبر رد کردینے میں بھی مضائقہ نہیں تھا مگر قرآن کسی خبر کارد کرنا بھی پسند نہیں کرتا، فاسق آدمی بھی صحیح خبر دے سکتا ہے، پس اس کی ہر خبر کارد کردینا بھی قرین مصلحت اورطور انصاف نہیں ہے۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَافَعَلْتُمْ نَادِمِينَ"۔ (الحجرات:۶) ترجمہ: اے ایمان والو جب کوئی فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آیا کرے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے تحقیق کسی قوم پر حملہ کردو بعد میں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ دوسری طرف اس نے تجسس اور بدظنی کی بھی ممانعت فرمائی؛کہ ایسی تحقیق سے بھی نظام عالم برباد ہوتا ہے۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَاتَجَسَّسُوا۔ (الحجرات:۱۲) ترجمہ: اے ایمان والو بہت سی بدگمانیوں سے بچا کرو؛ کیونکہ بعض بد گمانی گناہ کی حد تک ہوتی ہیں اور تجسس اورڈھونڈ کر لوگوں کے عیب بھی تلاش کرنے کی خصلت مت اختیار کرو۔