انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہنم کا دھواں،چنگاریاں اورشعلے جہنم کا دھواں اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ ، فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ،وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ،لَا بَارِدٍ وَلَا کَرِيمٍ (الواقعۃ:۴۱،۴۴) (ترجمہ)جو بائیں والے ہیں وہ بائیں والے کیسے بُرے ہیں(اس کی تفصیل یہ ہے کہ)وہ لوگ آگ میں ہوں گے اورکھولتے ہوئے پانی میں اورسیاہ دھویں کے سایہ میں جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ فرحت بخش ہوگا۔ (فائدہ)دنیا میں تین چیزیں ایسی ہیں جن سے گرمی میں ٹھنڈک ملتی ہے۔(۱)پانی(۲)ہوا(۳)سایہ ۔جہنم کی ہوا کا نام سموم ہے جو سخت ترین گرم ہے جہنم کے پانی کا نام تمیم ہے،یہ بھی سخت گرم ہے جہنم کے سایہ کا نام یموم ہے جو جہنم کے دھواں کا نام ہے اللہ تعالی اپنے کرم سے ہمیں ان سے محفوظ فرمائے۔(منہ) انْطَلِقُوا إِلَى ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ ، لَا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ ، إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ ، کَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ ، وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِي (المرسلات:۳۰،۳۴) (ترجمہ)سائبان کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں جس میں نہ(ٹھنڈا) سایہ ہے اور نہ وہ گرمی سے بچا تا ہے(مراد اس سائبان سے ایک دھواں ہے جو جہنم سے نکلے گا اورچونکہ کثرت سے ہوگا اس لئے بلند ہوکر پھٹ کر تین ٹکڑے ہوجائیں گے(کما فی الطبری) اورفراغ حساب تک کفار اسی دھویں کے احاط میں رہیں گے جیسا کہ مقبولین ظل عرش میں ہوں گے(کذافی الخازن آگے اس دھویں کا اورحال مذکور ہے کہ )وہ انگارے برسائے گا جیسے بڑے بڑے محل جیسے کالے کالے اونٹ(قاعدہ یہ ہے کہ جب چنگاری آگ سے جھڑتی ہے تو بڑی ہوتی ہے،پھر بہت سے چھوٹے ٹکڑے ہوکر زمین پر گرتی ہے پھر جو لوگ اس واقعہ کو جھٹلاتے رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز(حق کے)جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی۔ يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ (الرحمن:۳۵) (ترجمہ)تم دونوں(جن وانس) پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم(اس کو)ہٹانہ سکو گے۔ (فائدہ)حضرت ابن عباسؓ اور دوسرے آئمہ تفسیر نے فرمایا کہ شواظ شین کے پیش سے آگ کے اس شعلہ کو کہا جاتا ہے جس میں دھواں نہ ہو اورنحاس اس دھواں کو کہا جاتا ہے جس میں آگ کی روشنی نہ ہو، اس آیت میں بھی جن وانس کو خطاب کر کے ان پر آگ کے شعلے اوردھواں چھوڑنے کا بیان ہے اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حساب وکتاب کے بعد جو مجرمین کو جہنم میں ڈالا جائے گا اس میں دو طرح کے عذاب ہوں گے ،کہیں آگ ہی آگ اورشعلہ ہی شعلہ دھویں کا نام نہیں اورکہیں دھواں ہی دھواں جس میں آگ کی کوئی روشنی نہیں اوربعض مفسرین نے اس آیت کو پچھلی آیت کا تکملہ قرار دے کریہ معنی کئے ہیں کہ اے جن وانس آسمانوں کے حدود سے نکل جانا تمہارے بس کی بات نہیں اگر تم ایسا ارادہ کربھی لو تو جس طرف بھاگ جاؤ گے آگ کے شعلے اوردھویں تمہیں گھیر لیں گے۔ (ابن کثیر،معارف القرآن:۸/۲۵۵) حضرت فضیل بن عیاض نے مذکورہ آیت کی تفسیر بتانے کے لئے کھڑکی سے اپنا سر نکال کر اس آیت کی تلاوت کی تو اپنا سر اندر کو کرلیا اور بہت روئے دوبارہ سرنکالا تو فرمایا یہ آگ کے شعلوں کے ٹکڑے ہوں گے اس کے بعد ان کو مکمل بات بیان کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ درج ذیل حدیث سے بھی جہنم میں دھویں کے ہونے کا ثبوت ملتا ہے،حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ فِي جَوْفِ عَبْدٍ أَبَدًا (سنن النسائی،باب فضل من عمل فی سبیل اللہ ،حدیث نمبر:۳۰۵۹) (ترجمہ)کسی (مسلمان)آدمی کے پیٹ میں جہاد فی سبیل اللہ کا غبار اورجہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔