انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسعر بن کدام نام ونسب مسعر نام، ابوسلمہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، مسعربن کدام بن ظہیر بن عبیداللہ بن حارث ابن عبداللہ بن عمروبن عبدمناف بن ہلال بن عامر بن صعصہ قرشی عامری۔ فضل وکمال مسعرعلمی اور مذہبی دونوں کمالات کے اعتبار سے ممتاز ترین تبع تابعین میں تھے، یعلیٰ بن مرہ کا بیان ہے کہ مسعر کی ذات علم اور ورع دونوں کی جامع تھی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰) عراق میں ان کے پایہ کے علماء کم تھے، ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ عراقیوں میں مسعر اور ایوب سے افضل ہمارے یہاں کوئی نہیں آیا (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۴) امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت پرسب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الأسماء:۱/۸۹) حدیث حدیث کے وہ اکابرحفاظ میں سے تھے، امام ذہبی انہیں حافظ اور علمائے اعلام میں لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۹) ان کے حافظہ میں ایک ہزار حدیثیں محفوظ تھیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۹) حدیث میں انہوں نے عمروبن سعید نخعی، ابواسحاق سبیعی، عطا، معین، سعید بن ابراہیم، ثابت بن عبداللہ انصاری، عبدالملک بن نمیر، بلال بن خباب، حبیب بن ابی ثابت، علقمہ بن مرثد، قتادہ، معن ابن عبدالرحمٰن، مقدام بن شریح اور اعمش وغیرہ ایک کثیر جماعت سے استفادہ کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۳۔ تہذیب الاسماء) ان کی مرویات کا پایہ ان کے روایات کی صحت کے لیے یہ کافی ہے کہ شعبہ جیسے محدث انہیں مصحف کہتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۹) ان کی ذات احادیث کی جانچ کے لیے معیار تھی، میزان ان کا لقب ہوگیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۴) کم ایسے محدثین نکلیں گے جن کی مرویات پرکسی نہ کسی حیثیت سے تنقید کی گئی ہو؛ لیکن مسعر کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۴) ائمہ حدیث شک اور اختلاف کے موقع پران کی طرف رجوع کرتے تھےسفیان ثوری کا بیان ہے کہ جب ہم لوگوں میں (حدیث کی) کسی چیز کے بارہ میں اختلاف ہوتا تھا تومسعر سے پوچھتے تھے (تہذیب الاسماء:۱/۸۹) ابراہیم بن سعد کہتے تھے کہ جب سفیان اور شعبہ میں کسی حدیث کے بارے میں اختلاف ہوتا تھا تومیزان یعنی مسعر کے پاس جاتے تھے۔ (تذکرۃالحفاظ:۱/۱۷۰) احتیاط اس محدثانہ کمال کے باوجود وہ روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے اس ذمہ داری سے وہ اس قدرگھبراتے تھے کہ کاش حدیثیں میرے سرپر شیشوں کا بار ہوتیں کہ گرکرچور چور ہوجاتیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰) ان کی احتیاط شک کے درجہ تک پہنچ گئی تھی، ابونعیم کا بیان ہے کہ مسعر اپنی احادیث میں بڑے شکی تھے؛ لیکن وہ کوئی غلطی نہ کرتے تھے، اعمش کہا کرتے تھے کہ مسعر کا شیطان ان کوکمزور کرکے شک دلاتا رہتا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۴) ان کے اس شک نے ان کی احادیث کا درجہ اتنا بلند کردیا تھا کہ محدثین ان کے شک کویقین کا درجہ دیتے تھے، اعمش سے بعض لوگوں نے کہا کہ مسعر اپنی حدیثوں میں شک کرتے تھے، انہوں نے کہا ان کا شک اور دن کے یقین کے برابر ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۹) فقہ فقہ میں گوکوئی قابل ذکر شخصیت نہ تھی؛ تاہم کوفہ کے صاحب افتا جماعت میں تھے۔ (اعلام الموقعین:۲۸) امام ابوحنیفہ اور اُن کے اصحاب سے تعلقِ خاطر یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حقلہ تلامذہ میں تونہ تھے مگران کی ذات اور ان کے اصحاب سے ان کوبڑا تعلقِ خاطر تھا اور ان کے علم وفضل کے مداح تھے، کوفہ میں امام ابوحنیفہ کے حلقہ درس کے قریب ہی ان کا حلقہ درس بھی تھا، بسااوقات درس سے فارغ ہوکر استفادہ کی غرض سے امام اور اُن کے اصحاب کی مجلسِ درس میں شریک ہوجایا کرتے تھے، ان کے بعض تلامذہ کویہ چیز ناگوار ہوئی اور انہوں نے ان سے کہا کہ ہم توآپ سے احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سماع کے لیے آتے ہیں اور آپ اہلِ بدعت (یعنی امام ابوحنیفہ اور اُن کے اصحاب) سے سماع کرتے ہیں، یہ سن کراُن کوغصہ آگیا، فرمایا کہ درس سے اُٹھ جاؤ اگران میں کا کوئی معمولی آدمی بھی زمانہ حج کے پورے مجمع میں پہنچ جائے توان کے دامن کوعلم سے بھردے۔ (مناقب مکی:۲/۱۶۶) حلقۂ درس مسجد میں حلقہ درس تھا، عبادت کے معمولات کے بعد روزانہ مسجد میں بیٹھ جاتے تھے اور شائقینِ علم حدیث اردگرد حلقہ باندھ کراستفادہ کرتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۱۰۵۳) زہدوعبادت ان کی ماں بڑی عابدہ خاتون تھیں، ان کے فیض ترتیب کا مسعر پربڑا گہرا اثر پڑا تھا، ان کی ماں بھی مسجد میں نماز پڑھتی تھیں، اکثردونوں ماں بیٹے ایک ساتھ مسجد جاتے، مسعر نمدہ لئے ہوتے تھے، مسجد پہنچ کرماں کے لیے نمدہ بچھادیتے، جس پرکھڑی ہوکر وہ نماز پڑھتیں، مسعر مسجد کے دوسرے حصہ میں نماز میں مشغول ہوجاتے، مسعر انہیں حدیثیں سناتے، اس درمیان میں ان کی ماں عبادت سے فارغ ہوجاتیں، مسعر درس ختم کرنے کے بعد ماں کا نمدہ اُٹھاتے اوور اُن کے ساتھ گھر واپس آتے، ان کے صرف دوٹھکانے تھے، گھریامسجد (ابن سعد:۶/۲۵۴) کثرتِ عبادت سے پیشانی پراونٹ کے گھٹےکی طرح نہایت موٹا گھٹا پڑگیا تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰) روزانہ شب کونصف قرآن تمام کرڈالتے تھے، ان کے صاحبزادے محمد کا بیان ہے کہ والد آدھا قرآن ختم کئے بغیر نہ سوتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰)تلاوت قرآن ختم کرنے کے بعد چادر لپیٹ کرسوجاتے، ایک ہلکی سی جھپکی لینے کے بعد پھراس طرح چونک پڑتے جیسے کسی کی کوئی چیز کھوگئی ہو اور وہ پریشان ہوکراس کی تلاش کررہا ہو، اُٹھ کروضو اور مسواک کرتے؛ پھرنماز کے لیے کھڑے ہوجاتے؛ یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہوجاتا تھا؛ مگراس زہدوعبادت کوانہتائی مخفی رکھتے تھے، ان کے صاحبزادے کا بیان ہے کہ: وكان يجهد على إخفاء ذلك جدا۔ (صفة الصفوة،ابن الجوزي:۳/۱۲۹، شاملہ، الناشر: دارالمعرفة،بيروت۔ دیگرمطبوعہ:۳/۷۲) ترجمہ:وہ اس زہدوعبادت کوانتہائی مخفی رکھتے تھے۔ آخرت کا خوف اور رقتِ قلب آخرت کی باز پرس سے ہروقت ترسان اور لرزاں رہتے تھے، ان کے ایک پڑوسی کا بیان ہے کہ ایک دن یکایک مسعر پرگریہ طاری ہوگیا، ان کی یہ کیفیت دیکھ کران کی والدہ بھی رونے لگیں، مسعر نے پوچھا اماں جان! آپ کیوں رورہی ہیں؟ بولیں بیٹا! میں نے تم کوروتے دیکھا اس لیے میں بھی روپڑی، بیٹے نے کہا کہ اماں! کل جوکچھ پیش آنے والا ہے اس کے تصور سے میں اس قدر روتا ہوں، پوچھا وہ کیا، اس پرمسعر پھر پھوٹ پڑے اور روتےہوئے جواب دیا کہ اماں! قیامت اور اس کی ہولناکی، یہ کہہ کرماں کے پاس سے اُٹھے اور چلے گئے تاکہ اُن کی اس کیفیت سے ان کومزید رنج نہ پہنچے، ابنِ جوزی نے لکھا ہے کہ اُٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اور نماز پڑھتے ہروقت ان پر رقت طاری رہتی تھی۔ (صفوۃ الصفوۃ:۳۷) وہ اس درجہ پرپہنچنے کے بعد بھی رُکے نہیں؛ بلکہ ان کے روحانی مدارج ہمیشہ ترقی پذیر رہے، ابنِ عیینہ کا بیان ہے کہ میں نے مسعرکوخیر میں ہرروز ترقی کرتے دیکھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰) معن کا بیان ہے کہ ہم نے اُن کا ہردن پہلے دن سے افضل پایا، وہ عبادت وریاضت اور فضائلِ اخلاق کے اس درجہ پرپہنچ گئے تھے کہ لوگ اُن کے جنتی ہونے میں شک نہ کرتے تھے، حسن بن عمارہ کہا کرتے تھے کہ اگرمسعر جیسے آدمی بھی جنت میں داخل نہ ہونگے تب توجنتیوں کی تعداد بہت ہی کم ہوگی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۹) ابنِ مبارک یااسی درجہ کے کسی اور بزرگ نے ان کے فضائل سے تاثر ہوکر ان کی شان میں یہ اشعار کہے تھے ؎ منْ كانَ ملتمِساً جليساً صالحاً فَليَأتِ حَلقَة َ مِسعَر بن كِدَامِ جس شخص کواچھے جلیس کی تلاش ہو، اس کومسعربن کدام کے حلقہ میں آجانا چاہیے۔ فيهَا السكينَة ُ والوقارُ، وأهْلها أهلُ العَفَاِف وَعليَة ُ الأقوَامِ اس میں سکینہ ہے اور وقار ہے اور اس کے ارکان، پاکباز اور اُونچے درجے کے ہیں۔ دولتِ دنیا سے بے نیازی اس مندگی کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ وہ دنیا اور اس کے شان وشکوہ سے بالکل بے نیاز تھے؛ چنانچہ حکومت کے عہدوں کووہ آنکھ اُٹھاکر بھی نہ دیکھتے تھے، ابوجعفر عباسی آپ کا عزیز تھا، اس نے اُن کوکسی مقام کا والی بنانا چاہا؛ انہوں نے کہا کہ میرے گھروالے تومجھے دودرہم کا سودا لانے کے لائق بھی نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں ہم تمہارا دودرہم کا سودا کرنا بھی نہیں پسند کرتے اور تم مجھے والی بنانا چاہتے ہو، خدا تم کوصلاحیت دے، ہماری قرابت داری ہے اس لیے ہمارا حق ہے (کہ ہم بھی کچھ کہہ سکیں) ان کے اس عذر پرابوجعفر نے ان کواس خدمت سے معاف کردیا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰) وفات باختلافِ روایت سنہ۱۵۲ھ یا سنہ۱۵۵ھ میں کوفہ میں وفات پائی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱) مرض الموت میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ جوخود صاحب زہد واتقا تھے، ملنے گئے تودیکھا کہ مسعر پر گھبراہٹ اور رقت طاری ہے، بولے! آپ کے اوپر موت کی گھبراہٹ طاری ہے؛ حالانکہ میں توہروقت موت کے لیے تیار رہتا ہوں اور اس وقت بھی تیار ہوں، مسعرنے حاضرین سے کہا کہ اُن کوبٹھاؤ، حضرت سفیان بیٹھ گئے اور پھروہی بات دہرائی، مسعر بولے کہ آپ کواپنے اعمال پراعتماد ہے اس لیے آپ مطمئن ہیں؛ مگرمیری کیفیت تویہ ہے کہ میں اپنے کوایک پہاڑ کی چوٹی پرسمجھتا ہوں اور نہیں جانتا کہ یہاں سے کس طرح اور کہاں گرایا جاؤنگا، یہ پردرد الفاظ سن کرحضرت سفیان رحمہ اللہ کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور فرمایا کہ آپ مجھ سے بھی زیادہ خدا سے ڈرنے والے ہیں۔ (صفوۃ الصفوۃ:۳/۷۳) عادات واخلاق نہایت خوش اخلاق تھے، دوسرے کے جذبات کا بڑا لحاظ رکھتے تھے، جب کبھی کوئی انہیں ایسی حدیث سناتا جس سے وہ خود اس شخص سے زیادہ واقف ہوتے تووہ محض اس کی دل شکنی اور احترامِ حدیث کے خیال سےانجان بن کر نہایت خاموشی سے سنتے تھے (ابن سعد:۶/۲۵۳) زیادہ بولنا پسند نہیں کر تے تھے، یہ عادات عنفوان شباب ہی سے پیدا ہوگئی تھی، ماں کی خدمت اور ان کا حددرجہ احترام کرتے تھے، ایک بار ماں نے عشا کے بعد پانی مانگا، وہ پانی لے کرآئے تووہ سوچکی تھیں انہوں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور پوری رات کھڑے رہ گئے کہ نہ جانے کس وقت ماں کی نیند ٹوٹ جائے۔ (طبقات شعرانی) حکیمانہ اقوال فرماتے تھے کہ میں پسند کرتا ہوں کہ محزون وغمگین آواز سنوں اس لیے کہ اس سے موت اور آخرت کا تصور سامنے آتا ہے (بخلاف قہقہے اور چہچہے کے سننے سے آدمی کے اندر خدا سے غفلت پیداہوتی ہے)، فرماتے تھے کہ آدمی کے نفس کا جوتقاضا بھی ہوتا ہے اس کے اوپر وہ ظاہر ہو جاتا ہے، یہ گویا ترجمہ ہے اس حدیث کا: وَالإِثْمُ مَاحَاكَ فِى نَفْسِكَ۔ ترجمہ: گناہ وہ ہے جوآدمی کے دل میں کھٹکے۔ کسی ے اُن سے کہا کہ آپ اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ کوئی آپ کے عیوب آپ کے سامنے بیان کرے، فرمایا ہاں! اگروہ خیرخواہی کی بناء پربیان کرتا ہے تومیں اس کوپسند کرونگا اور اگرمقصد محض شماتت ہے توپھرنہیں پسند کرونگا؛ اکثرخزینہ اور آخرت کا تصور دلانے والے اشعار ان کی زبان پرہوتے تھے، مثلاً: ؎ ألا قد فسد الدهر فأضحى حلوه مرا زمانہ اس قدر بگڑگیا ہے کہ، اس کی شیرینی بھی تلخ ہوگئی ہے۔ فألزم نفسك اليأس من الناس تعش حرا لوگوں سے کوئی اُمید نہ رکھو، توزندگی آزادی سے گذرے گی۔ تفنى اللذاذة ممن نال صفوتها من الحرام ويبقى الإثم والعار وہ لذتیں اور آسائشیں جوحرام ذرائع سے کسی کوحاصل ہوں، اور جس کے پیچھے گناہ اور ذلت بھی ہو۔ تبقى عواقب سوء من مغبتها لا خير في لذة من بعدها النار ان کے نتائج انجام کار بُرے ہی ہوتے ہیں، اور اُس لذت وآسائش میں کوئی خوبی اور بھلائی نہیں جس کا نتیجہ دوزخ کی آگ ہو