انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خدمات متفرقہ مسجد کی صفائی ایک بار کسی نے مسجد نبویﷺ میں تھوک دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اس قدر برہم ہوئے کہ چہرہ مبارک سرخ ہو گیا ایک صحابیہ اٹھیں اور اس کو مٹادیا اوراس جگہ خوشبولگائی، آپ نہایت خوش ہوئے اور فرمایا کہ خوب کام کیا۔ (نسائی کتاب الصلوٰۃ باب تحلیق المسجد) مسجد میں روشنی کا انتظام ایک صحابیہ تھیں جو ہمیشہ مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھیں، یہ ایک ایسا نیک کام تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نہایت قدر فرماتے تھے ؛چنانچہ جب ان کا انتقال ہوا تو صحابہ کرام نے ان کو رات میں دفن کردیا اورآپ ﷺکو اطلاع نہ دی ،آپﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ مجھے کیوں نہیں خبر کی؟ بولےآپﷺآرام فرمارہے تھے ہم نے تکلیف دینا گوارا نہیں کیا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی بقر) صحابہ کرام کھجور کی شاخوں کی مشعل بناتے تھے اور مسجد نبوی میں روشنی کرتے تھے، مدتوں یہی حالت رہی، اس کے بعد حضرت تمیم دارمیؓ ایک تجارت پیشہ غلام جس کا نام فتح تھا، بیت المقدس سے زیتوں کا تیل اور قندیل لایا اور مسجد میں روشنی کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا کس نے روشنی کی ہے؟ غلام کا نام معلوم ہوا تو اس کا نام فتح کے بجائے سراج رکھ دیا جس کے معنی چراغ جلانے والے کے ہیں، (اسد الغابہ تذکرہ سراج) حضرت عمرؓ نے مساجد میں اور بھی وسیع پیمانے پر روشنی کا انتظام کیا ،چنانچہ ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مسجدوں میں قندیلوں کی جگمگاہٹ دیکھی تو بولے کہ عمرؓ نے جس طرح ہماری مساجد کو روشن کیا اسی طرح خدا ان کی قبر میں بھی روشنی کرے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عمرؓ) مسجد میں بخور کا انتظام ایک بار حضرت عمرؓ کے پاس مال غنیمت میں عود کا ایک بنڈل آیا جس کو انہوں نے حسب ذیل مسلمانوں میں تقسیم کرنا چاہا، لیکن کافی نہ ہوا اس لئے حکم دیا کہ انگیٹھی میں رکھ کر مسجد میں سلگایا جائے ؛تاکہ تمام مسلمانوں کو اس سے فائدہ ہو ان کے بعد تمام خلفاء نے اس انتظام کو قائم رکھا۔ (خلاصۃ الوفاء ،صفحہ:۱۷۴) مسجد کی نگرانی حضرت عمرؓ نہایت اہتمام کے ساتھ مسجد کی نگرانی فرماتے تھے، عموماً عشا کے بعد مسجد میں آتے اور کسی بیکار شخص کو دیکھتے تو نکال دیتے ،البتہ نمازی اس سے مستثنی تھے، حضرت عثمانؓ کا بھی یہی حال تھا، ایک دن عصر کی نماز کے لئے آئے تو دیکھا کہ مسجد کے کسی گوشہ میں ایک درزی بیٹھا ہوا ہے، اس کو نکل جانے کا حکم دیا، لوگوں نے کہا وہ مسجد میں جھاڑو دیتا ہے ،دروازے بند کرتا ہے،کبھی کبھی چھڑکاؤ بھی کرتا ہے، بولے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کاریگروں کو مسجد سے الگ رکھو۔ (خلاصہ الوفاء ،صفحہ:۱۷۴) اذان صحابہ کرام اذان کو نہایت ثواب کا کام سمجھتے تھے، اس لئے اس خدمت کو نہایت شوق کے ساتھ انجام دیتے تھے، حضرت عمرؓ فرماتے تھے اگر میں مؤذن ہوتا تو میرا کام مکمل ہوجاتا ،حضرت ابن ام مکتوم اورحضرت بلالؓ نے تو اپنی زندگی ہی اس خدمت پر وقف کردی تھی اوراس کو نہایت مستعدی کے ساتھ انجام دیتے تھے، مسجد نبوی کے متصل ایک صحابیہ کا مکان سب سے بلند تر تھا، حضرت بلالؓ صبح تڑکے وہیں آجاتے اور طلوع فجر کا انتظار کرتے جب صبح طلوع ہوتی تو اسی مکان کے اوپر چڑھ کر اذان دیتے، اذان دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے، جب آپﷺ کاشانہ نبوت سے برآمد ہوتے تواقامت کہتے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ ابواب الاذان) امامت امامت نہایت ذمہ داری کا کام ہے؛ لیکن صحابہ کرام اس خدمت کو نہایت شوق کے ساتھ انجام دیتے تھے، مہاجرین پہلے پہل مدینہ میں آئے تو حضرت سالم مولی ابی حذیفہؓ امامت کرتے تھے، حضرت عمرو بن سلمہؓ کا قبیلہ مسلمان ہوا تو ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم میں کون امامت کرے گا؟ آپ نے فرمایا جس کو قرآن سب سے زیادہ یاد ہو، حضرت عمرو بن مسلمہؓ کاسن اگرچہ صرف سات آٹھ برس کا تھا ؛تاہم ان کو قرآن سب سے زیادہ یاد تھا، اس لئے ان لوگوں نے انہی کو امام بنایا اور وہ عمر بھر ان کے امام تھے، حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو امامت کے لئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا خلیفہ بنایا تھا، حضرت معاذ بن جبلؓ اپنی قوم کے امام تھے؛ لیکن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے، تب اپنی مسجد میں جاکر امامت کرتے تھے، حضرت اسید بن حضیرؓ اپنی قوم کے امام تھے وہ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کو آئے، ان لوگوں نے کہا ہمار امام بیمار ہے، فرمایا وہ بیٹھ کر نماز پڑھیں تو تم لوگ بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو،(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ ابواب الامامۃ) تمام خلفاء اور فرائض خلافت کے ساتھ یہ فرض بھی ادا کرتے تھے۔ حجاج کی خدمت صحابہ کرام حجاج کی خدمت کو بڑے ثواب کا کام سمجھتے تھے اور نہایت فیاضی کے ساتھ ان کے آرام و آسائش کا سامان بہم پہنچاتے تھے حضرت عمرؓ نے اہل مکہ کو عام حکم دیاتھاکہ وہ اپنے گھروں میں دروازے نہ لگائیں؛ تاکہ تمام حجاج بلا روک ٹوک ان میں قیام کرسکیں ، مکہ اور مدینہ کے راستہ میں انہوں نے سرائیں چوکیاں اور کنوئیں تیار کرائے تھے کہ حجاج ان سے فائدہ اٹھاسکیں ،سقایہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت زمانہ جاہلیت میں حضرت عباسؓ کے خاندان سے متعلق تھی اور عہد اسلام میں بھی ان کا یہ خاندانی شرف قائم رہا، ایام حج میں ان کے خاندان کے لوگ دودھ شہد اورستو کی سبیل چلاتے تھے؛ لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ حاجیوں کو صرف نبیذ پلاتے تھے، ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ کا خاندان بخیل ہے یا محتاج؟ بولے نہ بخیل ہے نہ محتاج وجہ صرف یہ ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا تو ہم نے آپ کو نبیذ پلائی ،آپ ﷺنے فرمایا تم نے خوب کیا ایسا ہی کرتے رہو، اس لئے ہم آپ کے ارشاد میں کسی قسم کا تغیر کرنا نہیں چاہتے۔ (ابوداؤد کتاب المناسک باب فی نبیذ السقایہ)