انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ بنو قینقاع(شوال ۲ہجری) غزوہ بدر میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرماکر انھیں فتح عطا فرمائی،یہ دیکھ کر یہودیوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ علانیہ بغاوت و ایذا رسانی پر اتر آئے،یہودیوں کے تینوں قبائل میں بنو قینقاع کا قبیلہ سب سے زیادہ بدمعاش تھا، یہ لوگ مدینہ کے اندر ہی رہتے تھے، اور پیشہ کے لحاظ سے سنار، لوہاراور برتن ساز تھے اور ان کے پاس وافر مقدار میں سامان جنگ موجود تھا، انھوں نے اپنی شرارت سے مسلمانوں کو ستانا اور ان سے مذاق کرنا شروع کردیا حتٰی کہ مسلمان عورتوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ مدینہ میں یہودکے تین بڑے قبیلے تھے، بنو قینقاع ، بنو نضیر، بنو قریظہ، ان میں بنو قینقاع مدینہ کے اندر رہتے تھے گویامار آستین تھے ، بدر میں قریش کی شکست کے بعد یہ اس قدر بے قابو ہوئے کہ کھل کر مخالفت پر اتر آئے اور معاہدہ کا بھی پاس و لحاظ نہ رکھا، طبقات ابن سعد میں ہے، جب جنگ بدر ہوئی تو انھوں نے نافرمانی اور حسد کا اظہار کیا اور عہد و میثاق کو توڑ دیا، ابن ہشام میں ہے کہ بنو قینقاع نے عہد توڑا اور جنگ پر اتر آئے، محمد بن اسحاق کی عاصم بن عمرو بن قتادہ سے روایت ہے کہ " بنو قینقاع پہلے یہود تھے جنھوں نے اس معاہدہ کو جو ان میں اور رسول اﷲﷺ میں تھا توڑ ڈالا اور بدر اور احد کے درمیان مسلمانوں سے جنگ کی۔ وہ اس معاہدہ کو توڑنے کے بعد اتنے بے باک ہوگئے تھے کہ اپنے بازار میں مسلمان عورتوں سے ذلیل قسم کی چھیڑ چھاڑ کرتے تھے، ابن ہشام میں ہے کہ ایک مسلمان عورت اپنا سامان بیچنے کو لائی اور بنوقینقاع کے بازار میں بیچ کر ایک سونار کے پاس بیٹھ گئی، انھوں نے اس کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہا تو اس عورت نے انکار کیا، اس نے اس کے کپڑے کا سرا اس کے پچھلی طرف کے کپڑے سے باندھ دیا ، جب وہ اٹھی تو اس کا ستر کھل گیا اور لوگوں نے اس کی خوب ہنسی اڑائی، وہ اپنی اس بے حرمتی پر چلا اٹھی، ایک مسلمان اسے دیکھ کر غیرت سے بے تاب ہوگیا اور اس یہودی پر حملہ کردیا جس سے وہ مرگیا،یہودیوں کا بازارتھا وہ لوگ جمع ہوگئے اور اس مسلمان کو مارڈالا، اس مسلمان نے دوسرے مسلمان سے امداد طلب کی اس طرح بنو قینقاع کے بازار میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ رسول اﷲﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فتنہ و فساد کے برے نتیجہ سے ڈرایااور اسلام کی تبلیغ کی: اے یہود کے گروہ خدا سے ڈرو، ایسا نہ ہو کہ بدر والوں کی طرح عذاب آئے اس لئے تم لوگ اسلام اختیار کرلو، تم جانتے ہو کہ میں اﷲ کا بھیجا ہوا نبی ہوں اور یہ پیشن گوئی تم اپنی کتاب میں پاتے ہو اور خدانے اس کے بارے میں عہد بھی لیاہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا : اے محمد(ﷺ)تم سمجھتے ہو کہ ہم بھی تمھاری قوم کی طرح ہیں، تم اس دھوکہ میں نہ رہنا، تم نے ایسے لوگوں سے مقابلہ کیا جنھیں جنگ کے متعلق معلومات نہ تھیں اس لئے ان پر قابو پالیا، ہماری حالت یہ ہے کہ ہم تم سے جنگ کریں گے تو تمھیں معلوم ہوگا کہ ہم (جنگ کے کارآزمودہ) لوگ ہیں، چونکہ ان کی طرف سے نقضِ عہداور اعلان جنگ ہو گیا تھااس لئے مجبور ہو کر آنحضرت ﷺ نے لڑائی کی، چنانچہ آپﷺ صحابہ کا ایک دستہ لے کر محلہ بنو قنیقاع کی طرف بڑھے ، مدینہ میں حضرت ابو لبا بہؓ بن عبد المنذر کو اپنا نائب مقرر کیا، علم حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں تھا ، پندرہ روزکے محاصرہ کے بعد یہود اس بات پر راضی ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جو فیصلہ کریں گے ان کو منظور ہوگا، عبداللہ بن ابی ان کا دوست تھا، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے در خواست کی کہ وہ جلا وطن کر دئیے جائیں، غرض وہ اذرمات میں جو شام کے علاقہ میں ہے جلا وطن کر دیئے گئے،یہ سات سو اشخاص تھے جن میں تین سو زرہ پوش تھے۔