انوار اسلام |
س کتاب ک |
زکوۃ کی ادائیگی سے متعلق نئے مسائل مساجد اور پلوں وغیرہ کی تعمیر میں زکوٰۃ خرچ کرنا زکوٰۃ کے کچھ مخصوص مصرف ہیں جس کی خود قرآن مجید میں صراحت موجود ہے، صرف ان ہی اُمور پریہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے (التوبۃ:۶۰) احناف کے یہاں ان تمام صورتوں میں ضروری ہے کہ زکوٰۃ جن کوادا کی جائے وہ مالک بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں، مسجد یاپلوں کی تعمیر وغیرہ میں یہ رقم خرچ کی جاتی ہے توصرف یہ رقم خرچ ہوجاتی ہے کوئی خاص آدمی اس کا مالک نہیں بنتا، اس لیے ان دوسرے کاموں کوکرنا توچاہیے؛ مگرزکوٰۃ کے علاوہ دوسرے عطیات سے، زکوٰۃ ان چیزوں میں نہیں خرچ کی جاسکتی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۳) دینی مدارس کوزکوٰۃ کی ادائیگی دینی مدارس کی حیثیت دراصل دین کے مضبوط قلعوں اور الحاد ودہریت کے سمندر میں محفوظ جزیروں کی ہے، مسلمانوں کے سیاسی زوال اور اس کے بعد سے اسلام کومٹانے کی پیہم کوششوں کے باوجود ہمارے ملک میں اسلام کا محفوظ رہنا بلکہ یہاں کی مذہبی حالت کا عالمِ اسلام سے بھی بہتر ہونا بڑی حد تک ان ہی مدارس کا فیض ہے، اللہ تعالیٰ اس نظام کوجاری وساری رکھے، اسلام نے زکوٰۃ کے جومصارف بتائے ہیں ان پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا مقصد صرف غرباء اور مستحقین کی مدد ہی نہیں ہے؛ بلکہ اسلام کا تحفظ بھی ہے؛ چنانچہ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (التوبۃ:۶۰) سے اکثر فقہاء کے نزدیک مجاہدین کی مدد مراد ہے جواسلامی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور مُؤلِّفَۃِ الْقُلُوْب سےنومسلموں یاان غیرمسلموں کا تعاون مراد ہے، جن سے شرکا اندیشہ ہو، ظاہر ہے زکوٰۃ کے یہ دونوں مصارف اسلام کی حفاظت ہی کا ایک حصہ ہیں، تعلیمی اداروں کی اور اہلِ علم کی مدد بھی دراصل دین ہی کی مدد کا ایک حصہ ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۴) وصولی زکوٰۃ میں نظماءِ مدارس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہندوپاک میں دینی مدارس کا ایک غیرمعمولی نظام قائم ہے اور اس خطہ میں اسلام کا بقاء اور مسلمانوں کا دینی وملی وجود اسی نظام کا رہینِ منت ہے، یہ نظم کسی مستقل سرکاری یاغیرسرکاری امداد پرمبنی نہیں ہے؛ بلکہ عام مسلمانوں کی اعانتوں اور نصرتوں سے ان اخراجات کی تکمیل ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ ان اعانتوں کا بڑا حصہ زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقم ہے، مدارس کے نظماء وسفرا زکوٰۃ وصول کرتے ہیں؛ پھرمدرسہ ان کوطلبہ کے اخراجات پرخرچ کرتا ہے؛ اس سلسلے میں بہتر ہے کہ نظماءِ مدارس کوطلبہ اور زکوٰۃ دہندگان دونوں کا وکیل تصور کیا جائے، طلبہ کا وکیل ہونے کی وجہ سے اس کے زکوٰۃ وصول کرتے ہی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور زکوٰۃ دہندگان کے وکیل ہونے کی حیثیت سے ان پریہ پابندی ہوگی کہ اس رقم کومصارفِ زکوٰۃ ہی میں صرف کریں، آج کل دینی درسگاہوں میں پرشکوہ تعمیرات اور دوسری زوائد وتحسینیات پرکثیر صرفہ کاجورحجان پیدا ہوگیا ہے، ان میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہ کی جائے کہ ان مدات میں توخود زکوٰۃ دہندگان بھی اپنی رقم خرچ نہیں کرسکتے، علماء ہند میں بعضوں نے نظماء کوطلبہ کا، بعضوں نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا اور بعضوں نے دونوں کا وکیل تسلیم کیا ہے، اس عاجز کا خیال ہے کہ یہی تیسری رائے زیادہ صحیح، قرینِ صواب اور مبنی براحتیاط ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۶) زکوٰۃ وصدقات میں حیلہ ٔتملیک حیلہ کا مقصد اگر خواہ مخواہ بلاضرورت شریعت کے ایک حکم کوبے معنی بنادینا اور اپنی خواہشات کی تکمیل اور نفع کی تحصیل ہوتوظاہر ہے یہ ناجائز اور نادرست ہوگا اور عنداللہ اس کی باز پرس ہوگی؛ لیکن اگرکسی واقعی دینی مصلحت کے پیشِ نظر ایسا کرنا ناگزیر ہوجائے تواجازت ہے، مثلاً مدرسہ میں اساتذہ کی تنخواہ کے لیے کوئی دوسری رقم موجود نہ ہو یامسجد کی ضروریات پرخرچ کرنا پڑے اور کوئی دوسرا ذریعہ نہ ہو جس سے ضرورت کی تکمیل ہوسکے توایسی صورت میں آخری درجہ مجبوری کے وقت یہ حیلہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق شخص کودے دی جائے؛ پھروہ شخص کچھ لے کریاپوری کی پوری رقم مدرسہ ومسجد کے انتظامی ذمہ داروں کوبطورِ عطیہ دے دے اور اس طرح یہ رقم مذکورہ مدات میں خرچ کی جائے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۸) سادات اور بنوہاشم کوزکوٰۃ سادات کوزکوٰۃ دینی درست نہیں ہے، سادات سے مراد بنو ہاشم یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ، حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اور حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں...... البتہ ان کوعطیہ اور صدقاتِ نافلہ دے سکتے ہیں، سادات کے لیےمالِ زکوٰۃ کی حرمت خود حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ البتہ اسلامی حکومت میں اموالِ غنیمت اور معدنیات کے خمس(۱/۵) جوبیت المال میں جمع ہوا کرتے تھے ان میں سے بنوہاشم کا خصوصی تعاون کیا جاتا تھا ، موجودہ دور میں یہ بات باقی نہیں رہی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف خاندانِ نبوت کو اس ہتک سے بچاتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ کا مال لیں، دوسری طرف عملاً اس بات کوگوارہ کرتے ہیں کہ وہ دریوزہ گری کریں یااپنی ناداری کی وجہ سے تعلیم سے بھی محروم رہیں...... اس لیے مناسب ہے کہ ایک ایسی راہِ اعتدال نکالی جائے کہ حدیث پربھی عمل ہوجائے اور بنو ہاشم کی مدد کا موقع بھی نکل آئے، اس کی صورت وہی ہے جواُوپر مذکور ہوئی کہ کسی غیرہاشمی مستحق کوزکوٰۃ کی رقم دی جائے، وہ یاتوخود دینے والے کوہبہ کردے اور پھریہ ہاشمی ضرورت مندوں کویاخود وہ غیرہاشمی دوسرے ہاشمی کو اس کا مالک بنادے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۹۔ فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۳۸۴)