انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضورﷺ کی زبان مبارک سے (۱)حضرت انس بن مالکؓ(۹۳ھ)کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا : "اَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي"۔ (بخاری،بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ، حدیث نمبر:۴۶۷۵،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:میں روزے رکھتا اور چھوڑتا بھی ہوں،تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں، جو میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔ اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے طریق کو سنت کے لفظ سے بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ سنت اس لیے ہے کہ امت کے لیے نمونہ ہو اور وہ اسے سند سمجھیں، جو آپ کے طریقے سے منہ پھیرے اور اسے اپنے لیے سند نہ سمجھے وہ آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے۔ (۲)ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ: "اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ فَجَاءَهُ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ قَالَ فَإِنِّي أَنَامُ وَأُصَلِّي وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ،الخ"۔ (ابو داؤد،بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْقَصْدِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۱۱۶۲،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:نبیﷺ نے کسی کو حضرت عثمان بن مظعون کو بلانے کے لیے بھیجا، حضرت عثمانؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے کہا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے ہٹنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں! خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ؛بلکہ میں آپ کی سنت کا طلب گار ہوں، آپ نے فرمایا:میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے جاگتا ہوں،روزے بھی رکھتا ہوں اور انہیں چھوڑتا بھی ہوں ۔ حضور اکرمﷺ نے حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کو فرمایا: "مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْأُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَاتُرْضِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَايَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا"۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۱،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی ہو اورجس نے کوئی غلط راہ نکالی جس پر اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی موجود نہیں تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کمی آئے۔ اس حدیث میں دین کی فروعی باتوں کو بھی سنت کہا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے،دین اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے اصول ہمیشہ زندہ رہنے چاہئیں، ان پر کبھی موت نہیں آسکتی، اسلام کا تاریخ کے ہر دور میں قائم وباقی رہنا ضروری ہے اور یہی اس کی مسلسل زندگی ہے ایک فرع دب گئی تو دوسری ضرور زندہ ہوگی یہ نہیں ہوسکتا کہ اصول کی تمام کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں، ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فرع دبنے لگے اور اس پر عمل ترک ہوجائے ؛لیکن اسے پھر سے زندہ کرنے کا اسلام میں پورا اہتمام کیا جائے گا، حضورﷺ کی ہدایت اسے پھر سے زندہ کرنے کی ایک بڑی بشارت ہے، ناممکن ہے کہ کل مسلمان کسی سنت سے ناآشنا رہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں: "فنعلم أن المسلمين كلهم لا يجهلون سنة"۔ (کتاب الام:۷/۳۰۵،شاملہ،موقع یعسوب) ترجمہ:ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ سارے کے سارے مسلمان کبھی بھی سنت سے ناآشنا نہیں رہ سکتے۔