انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نام ونسب تماضر نام، خنساء لقب، قبیلۂ قیس کے خاندان سلیم سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے: خنساء بنت عمرو بن الشرید بن رباح بن یقظہ بن عصیتہ بن خفاف بن امراء القیس بن بہثہ ابن سلیم بن منصور بن عکرمہ بن حفصہ بن قیس بن عیلان بن مضر، نجد کی رہنے والی تھیں۔ نکاح پہلا نکاح قبیلہ سلیم کے ایک شخص رواحہ بن عبدالعزیٰ سے ہوا، اس کے انتقال کے بعد مرواس بن ابوعامر کے عقدِ نکاح میں آئیں۔ (طبقات الشعراء لابن قینبہ:۱۹۷۔ اسدالغابہ:۵/۴۴۱) اسلام پیری کا زمانہ تھا کہ مکہ کے افق سے ماہتابِ رسالت طلوع ہوا، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کوخبر ہوئی تواپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ مدینہ میں آئیں اور مشرف باسلام ہوئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیرتک ان کے اشعار سنتے اور تعجب کرتے رہے، یہ ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے۔ عام حالات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب قادسیہ (عراق) میں جنگ ہوئی توحضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنے چاربیٹوں کولے کرمیدان میں آئیں اور ان کومخاطب کرکے یہ نصیحت کی، پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے؛ ورنہ تم اپنے ملک کوبھاری نہ تھے اور نہ تمہارے یہاں قحط پڑا تھا، باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کویہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا، خدا کی قسم! تم ایک ماں اور باپ کی اولاد ہو میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کورسوا کیا، تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہے، خدا تعالیٰ فرماتا ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا۔ (آل عمران:۲۰۰) اس بناپر صبح اُٹھ کرلڑنے کی تیاری کر و اور آخروقت تک لڑو۔ (اسدالغابہ:۵/۴۴۲) چنانچہ بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اُٹھائیں اور نہایت جوش میں رجز پڑھتے ہوئے بڑھے اور شہید ہوئے، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کوخبر ہوئی توخدا کا شکرادا کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے لڑکوں کو۲۰۰/درہم سالانہ وظیفہ عطا کرتے تھے، ان کی شہادت کے بعد یہ رقم حضرت حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کوملتی رہی۔ (اسدالغابہ:۵/۴۴۲) وفات اس واقعہ کے دس برس کے بعد حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، سالِ وفات سنہ۲۴ھ ہے۔ اولاد چار لڑکے تھے، جوقادسیہ میں شہید ہوئے، ان کے نام یہ ہیں، عبداللہ، ابوشجرہ (پہلے شوہر سے تھے)، زید، معاویہ (دوسرے شوہر سے)۔ فضل وکمال اقسامِ سخن میں سے مرثیہ میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں صاحب اسدالغابہ لکھتے ہیں: وَأَجْمَعُ أَهْلَ الْعِلْمِ وَالشَّعْرِ أَنَّهُ لَمْ تَكُنْ إِمْرَأَة قَبْلَهَا وَلَابَعْدهَا أَشْعَر مِنْهَا۔ (اسدالغابہ كتاب النساء،خنساء بِنْت عَمْرو ،:۳/۳۴۲، شاملہ،موقع الوراق) ترجمہ:یعنی ناقدانِ سخن کا فیصلہ ہے کہ خنساء رضی اللہ عنہا کے برابر کوئی عورت شاعر نہیں پیدا ہوئی۔ لیلائے اخیلیہ کوشعراء نے تمام شاعر عورتوں کا سرتاج تسلیم کیا ہے؛ تاہم اس میں بھی خضرت خنساء رضی اللہ عنہا کویہ امتیاز حاصل تھا کہ ان کے خیمے کے دروازہ پرایک علم نصب ہوتا تھا، جس پریہ الفاظ لکھے تھے أَرِثِی الْعَرَبْ یعنی عرب میں سب سے بڑی مرثیہ گو، نابغہ جواپنے زمانہ کا سب سے بڑا شاعر تھا اس کو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے اپنا کلام سنایا توبولا کہ اگرمیں ابوبصیر (اعشیٰ) کا کلام نہ سن لیتا توتجھ کوتمام عالم میں سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتا۔ (طبقات الشعراء:۱۹۸) حضرت خنساء رضی اللہ عنہا ابتداءً ایک دوشعر کہتی تھیں؛ لیکن صخر کے مرنے سے ان کوجوصدمہ پہنچا اس نے ان کی طبیعت میں ایک ہیجان پیدا کردیا تھا؛ چنانچہ کثرت سے مرثیے لکھے ہیں، یہ شعر خاص طور پر مشہور ہے: ؎ وَإِنَّ صَخْراً لَتَأْتَمُّ الهُدَاةُ بِہِ كَأَنَّهُ عَلَمٌ في رَأْسِهِ ناَرُ صخر کی بڑے بڑے لوگ اقتدا کرتے ہیں گویا وہ ایک پہاڑ ہے جس کی چوٹی پرآگ روشن ہے حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا دیوان بہت ضخیم ہے، سنہ۱۸۸۸ء میں بیروت میں مع شرح کے چھاپا گیا ہے اس میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے ساتھ ۶۰/عورتوں کے اور بھی مرثیے شامل ہیں، سنہ۱۸۸۶ء میں اس کا فرنچ زبان میں ترجمہ ہوا اور دوبارہ طبع کیا گیا۔