انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** چوتھی شہادت قرآنِ کریم میں ہے: "وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَالَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا"۔ (النساء:۱۱۳) ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ نے اُتاری آپ پر کتاب اور حکمت اور آپ کوسکھایا وہ جوآپ نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا آپ پربڑا فضل ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضوراکرمﷺ پردوچیزوں کا اُترنا بیان کیا ہے، کتاب کا لفظ تواپنی جگہ صریح ہے، حکمت کے معنی محکم اور پختہ بات کے ہیں، قرآن کریم کے بعد حضوراکرمﷺ سے زیادہ اور کس کی بات پختہ ہوسکتی ہے، جب اس کا مبدأ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہواور اسی نے آپ پر اسے اتارا ہو تواس کے دین ہونے میں کس کوشبہ ہوسکتا ہے، قرآن پاک کے ساتھ ساتھ یہ دوسری وحی ہے جواللہ تعالیٰ نے آپ پراتاری اس وحی کویہاں حکمت کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے اور یہ وحی قرآن پاک کے علاوہ ہے۔ امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت میں حکمت سے مراد حضور اکرمﷺ کی سنت ہے۔ (کتاب الام:۷/۲۵۱) حافظ ابنِ قیمؒ (۷۵۱ھ) بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد سنت ہے۔ (کتاب الروح:۱۱۹) پس قرآن کریم میں کتاب اور سنت دونوں کا خدا کی طرف سے اترا ہونا صریح طور پر مذکور ہے اور اس سے یہ بات وضاحت سے ثابت ہوتی ہے کہ حدیث بھی وحی الہٰی ہے؛ گووحی غیرمتلو ہو، یعنی ایسی وحی جس کی امت میں تلاوت جاری نہ ہوئی صرف اس کے احکام نافذ ہوئے، ظاہر ہے کہ اس صور تمیں یہ بھی دین کا ایک پورا علمی ماخذ ہے۔ پچھلے صحیفوں (کتابِ مقدس استثناء) میں جب سے یہ خبر چلی اارہی تھی کہ اللہ تعالیٰ بنواسرائیل کے بھائیوں میں سے، یعنی بنواسماعیل میں سے ایک پیغمبر اٹھائیں گے توساتھ ساتھ یہ بات بھی چلی آئی ہے کہ وہ پیغمبر لوگوں کوکتاب اور حکمت دونوں کی تعلیم دے گا اورحضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بنائے کعبہ کے وقت کی دُعا بھی اس کی کھلی شہادت ہے: "رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ" (البقرۃ:۱۲۹) ترجمہ:اے رب! ہمارے اور بھیج ان میں ایک پیغمبر انہی میں سے جوپڑھے ان پر تیری آیات اور سکھلائے ان کوکتاب اور حکمت اور پاک کردے ان کو، بے شک توہی غالب حکمت والا ہے۔ جب آنحضرتﷺ تشریف لائے اور اعلانِ نبوت فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ "میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں اوراپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں" اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بھی تصریح فرمائی کہ آپ اس لیئے بھیجے گئے ہیں کہ لوگوں کوآیاتِ الہٰی سنائیں اس کے ساتھ ساتھ جہاں آپ ایک امت بنائیں وہاں آپ ایمان والوں کوکتاب اور حکمت کی تعلیم بھی دیں، حکمت کی تعلیم دینے کا حکم خدائی تبھی ہوسکتا ہے کہ حکمت آپ کے سینہ مبارکہ پرخدا نے ہی اتاری ہو اور وہ حکمت بھی وحی خداوندی ہی ہو؛ گوغیرمتلو ہے قرآن کریم میں ہے: "لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْبَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ" (آل عمران:۱۶۴) ترجمہ: بے شک احسان کیا اللہ نے مؤمنوں پرجب اس نے بھیجا ان میں ایک پیغمبر انہی میں سے، وہ پڑہتا ہے ان پر اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں اور سکھلاتا ہے انہیں قرآن اور حکمت اور بے شک تھے اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کی یہ آیات سورۂ نساء کی اس آیت کی تمہید ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پرکتاب وحکمت دونوں نازل فرمائی ہیں اور یہ سنت وحدیث کے وحیٔ خداوندی ہونے پرقرآن کریم کی ایک کھلی شہادت ہے۔