انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو محجن ثقفیؓ نام ونسب عمرونام،ابو محجن کنیت،نسب نامہ یہ ہے، عمروبن حبیب بن عمرو بن عمیر بن عوف ابن حقدہ بن غیرہ بن عوف ثقفی عمرو زمانۂ جاہلیت کے مشہور بہادروں میں تھے۔ اسلام ۹ھ میں اپنے قبیلہ بنی ثقیف کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے۔ (اسد الغابہ:۵/۲۹۰) جنگ قادسیہ عمرو نہایت شجاع وبہادر تھے،لیکن بہت آخر میں اسلام کے شرف سے مشرف ہوئے تھے، اس لیے حیاتِ نبویﷺ میں کسی خدمت کا موقع نہ ملا،ان کے کارناموں کا آغاز عہد فاروقی سے ہوتا ہے،جس زمانہ میں ایران پر فوج کشی ہوئی،اتفاق سے اسی زمانہ میں حضرت عمرؓ نے انہیں ایک جر م میں قید کردیا تھا، فوج کشی کا حال سن کر ابو محجن کی رگِ شجاعت بھڑک اٹھی وہ کسی طرح قید خانے سے نکل گئے اس وقت قادسیہ کی جنگ پھر چکی تھی، ابو محجن سیدھے قادسیہ پہنچے،حضرت عمرؓ کو ان کے فرار کی اطلاع ہوئی، تو آپ نے اسلامی افواج کے سپہ سالار حضرت سعد ؓبن ابی وقاص کو ان کی گرفتاری کا حکم لکھ بھیجا، انہوں نے گرفتار کرکے قید کردیا،ابو محجن لڑائی کے واقعات سن سن کر میدانِ جنگ میں پہنچنے کے لیے بیقرار ہوجاتے تھے، مگر بیڑیوں نے پاؤں پکڑ رکھے تھے،اس لیے مجبور تھے،آخر میں ضبط نہ ہوسکا، ایک دن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی بیوی سلمیٰ سے کہا کہ مجھ پر رحم کرکے میری بیڑیاں کاٹ دو اور سعد کا گھوڑا مجھے دیدو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زندہ بچ گیا تو خود آکر بیڑیاں پہن لونگا، سلمیٰ نے انکار کیا ان کے انکار پر ابو محجن اورزیادہ شکستہ خاطر ہوئے،لیکن ولولہ جہاد چین نہ لینے دیتا تھا،اپنی معذوری پر نہایت درد انگیز اشعار پرھ پڑھ کر دل کی بھڑاس نکالنے لگے،یہ رقت انگیز اشعار سن کر سلمیٰ کا دل پسیج گیا، انہوں نے بیڑیاں کھول دیں اور شوہر کا گھوڑا انہیں دیدیا ابو محجن اسی وقت گھوڑا کداتے ہوئے میدانِ جنگ میں پہنچے اور تکبیر کا نعرہ لگا کر اس زور شور سے لڑے کہ جدھر نکل جاتے تھے،ایرانی فوجیں درہم برہم ہو جاتی تھیں، یہ غیر معمولی شجاعت دیکھ کر لوگ عش عش کرتے تھے،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ عرق النساء کی وجہ سے خود میدان جنگ میں نہ جاسکتے تھے اور ایک مقام سے بیٹھے ہوئے لڑائی کا رنگ دیکھ رہے تھے،ابو محجن کی بہادری دیکھ دیکھ کر تعجب کررہے تھے،لیکن انہیں یہ نہ معلوم تھا کہ ابو محجن قید سے چھوٹ کر میدانِ جنگ میں پہنچ گئے، اس لیے کہہ رہے تھے کہ اگر ابو محجن قید میں نہ ہوتے تو وہی ہوسکتے تھے، گھوڑا بھی میرا ہی معلوم ہوتا ہے،اختتامِ جنگ کے بعد ابو محجن نے لوٹ کر بیڑیاں پاؤں میں ڈالیں۔ (فتوح البلدان بلاذری نے اس واقعہ کو نہایت مختصر لکھا ہے، ہم نے تفصیلات استیعاب سے نقل کی ہیں ،کتاب مذکور:۲/۶۸۲) حضرت سعدؓ گھر واپس آئے اوربیوی کو جنگ کے حالات سنانے لگے،اسی سلسلہ میں انہوں نے کہا آج میدانِ جنگ میں خدانے ایک عجیب شخص بھیج دیا تھا، اگر ابو محجن قید نہ ہوتے تو میں سمجھتا کہ وہی ہوسکتے ہیں، یہ سن کر بیوی نے سارا قصہ سنادیا، سعد نے اسی وقت ابو محجن کو قید سے رہا کردیا اور ان سے کہا میں کبھی تمہارے جیسے شخص پر حد جاری نہیں کرسکتا۔ وفات آذر بیجان میں وفات پائی،سنہ وفات متعین نہیں ہے۔ فضائل اخلاق صاحبِ اسد الغابہ لکھتے ہیں، کان شجاعا کریما جوادا،(اسد الغابہ:۵/۲۹) شاعر بھی تھے چنانچہ قید کی حالت میں جو اشعار پڑہتے تھے وہ ان کے طبغراد تھے۔