انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بیعتِ خلافت اور جنگ مرجِ راہط معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے، ملکِ شام میں بھی دوگروہ ہوگئے تھے، ایک توبنواُمیہ تھے جواپنے ہی قبیلے میں خلافت کورکھنا چاہتے تھے، دوسرے ضحاک بن قیس حاکمِ دمشق اور ان کے ہم خیال عمال تھے جودل سے عبداللہ بن زبیر کی خلافت کے موید تھے؛ مگرعلانیہ زبان سے کچھ نہ کہتے تھے، سب سے پہلے نعمان بن بشیر نے حمص میں عبداللہ بن زبیر کے نام پربیعت لینا شروع کی، قنسرین کے حاکم ظفربن حارث نے بھی ان کی تقلید کی، دمشق میں بنواُمیہ اور بنوکلب کی کثرت تھی، یہ دونوں قبیلے ہم خیال اور عبداللہ بن زبیر کے مخالف تھے؛ لہٰدا ضحاک بن قیس جودل سے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے طرف دار تھے، زبان سے کچھ نہ کہتے اور دمشق پرحکومت کرتے تھے، دمشق والوں کواس کی اطلاع نہ تھی کہ حمص اور قنسرین کی افواج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت پربیعت کرچکی ہیں، سب سے پہلے حسان بن مالک کلبی جوفلسطین کا عامل اور اپنی رشتہ داری کی وجہ سے بنواُمیہ کا طرف دار تھا، اس خبر سے مطلع ہوا، اس نے روح بن زنباع کواپنا قائم مقام بناکر کہا کہ سردارانِ لشکر ابن زبیر کی بیعت کرتے جاتے ہیں، میری قوم کے آدمی اردن میں ہیں، میں وہاں جاکر ان کوخبردار کرتا ہوں، تم یہاں خوب چوکس رہنا، جوکوئی مخالفت کرے اس کوفوراً قتل کردینا، یہ سمجھا کرحسان بن مالک اردن کی طرف روانہ ہوا، اس کے جاتے ہی نابل بن قیس نے عبداللہ بن زبیر کا طرفدار ہوکر روح بن زبناع کوفلسطین سے نکال دیا تھا، روح بھی اردن میں حسان بن مالک کے پاس پہنچ گیا اور فلسطین کا علاقہ بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پہنچ گیا، حسان بن مالک نے اہل اردن کوجمع کرکے عبداللہ بن زبیر کے خلاف آمادہ کیا اور ان سے وعدہ لیا کہ ہم خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کوخلیفہ بنانے کی کوشش کریں گے، حسان بن مالک کویہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ ضحاک بن قیس امیردمشق بھی درپردہ عبداللہ بن زبیر کا طرف دار ہے؛ مگرعلانیہ اس طرف داری کا اظہار ابھی تک نہیں ہوا ہے؛ لہٰذا حسان نے ایک خط ضحاک بن قیس کے نام لکھا اور اس خط میں عبداللہ بن زبیر کی برائیاں لکھیں اور خاندانِ معاویہ کا حق دارِ خلافت ہونا بیان کرکے لکھا کہ جابجا لوگ عبداللہ بن زبیر کی بیعت کرتے جاتے ہیں، جلد اس کا تدارک کرو، یہ خط جس قاصد کے ہاتھ دمشق کی جانب روانہ کیا، اس کوسمجھادیا کہ یہ خط جامع مسجد میں جمعہ کے دن جب کہ تمام رؤساءِ شہر اور بنوامیہ موجود ہوں، ضحاک بن قیس کوپڑھ کرسنادینا؛ چنانچہ یہ خط سب کی موجودگی میں جمعہ کے دن پڑھاگیا۔ یہاں پہلے سے ہی ضحاک بن قیس کے ہم خیال لوگوں کی کافی تعداد موجود تھی، اس خط کے سنتے ہی لوگوں کے دوگروہ ہوگئے، ایک بنواُمیہ اور اُن کے طرف دار، دوسرے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے طرف دار، دونوں گروہ آپس میں الجھنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہتھیار لے لے کرایک دوسرے پرحملہ آوری کے لیے مستعد ہوگئے؛ مگرحالد بن ولید بن معاویہ نے بیچ میں آکردونوں کوسمجھایا اور لڑائی سے باز رکھا، ضحاک بن قیس خاموش مسجد سے اُٹھ کردارالامارۃ میں آئے اور تین دن تک باہر نہ نکلے، انھیں دنوں عبیداللہ بن زیاد جوعراق سے مایوس وبے دخل ہوکر شام کی طرف بھاگا تھا دمشق پہنچا، عبیداللہ بن زیاد کے دمشق پہنچنے سے بنی اُمیہ اور ان کے طرف داروں کوبہت تقویت پہنچی، ضحاک بن قیس اور بنواُمیہ سب مل کرجابیہ کی طرف نکلے، ثوربن معن سلمی ضحاک کے پاس پہنچا او رکہا کہ تم نے ہم کوعبداللہ بن زبیر کی بیعت کے لیے مشورہ دیا اور ہم نے اس کوتسلیم کیا، اب تم حسان بن مالک کلبی کے کہنے سے اس کے بھانجے خالد بن یزید کی بیعت کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہو، ضحاک کچھ شرماسے گئے اور ثور بن معن سے کہا کہ اچھا اب تمہاری کیا رائے ہے؟اس نے کہا کہ اب تک تم نے جس چیز کوپوشیدہ رکھا ہے، اسے ظاہر کردو اور علانیہ عبداللہ بن زبیر کی بیعت کے لیے لوگوں کودعوت دو؛ چنانچہ ضحاک اپنے ہم خیال لوگوں کولے کرالگ ہوگئے اور مقامِ مرجِ راہط میں جاکر قیام کیا، بنواُمیہ اور ان کے طرف دار بنوکلب مقامِ جابیہ میں مقیم رہے، یہیں حسان بن کلبی بھی اردن سے معہ اپنی جمعیت کے پہنچ گیا، جابیہ میں پانچ ہزار بنواُمیرہ اور بنوکلب جمع ہوگئے تھے، مرج راہط میں ضحاک بن قیس کے پاس کل ایک ہزار بنوقیس تھے، ضحاک بن قیس نے دمشق میں جواپنا نائب چھوڑا تھا، اس کویزید بن انیس نے بے دخل کرکے بیت المال پرقبضہ کرلیا، یہ درحقیت ایک بڑی شکست ضحاک کوپہنچی؛ اگردمشق اور بیت المال ضحاک کے قبضہ میں رہتا توان کی طاقت کواس قدر صدمہ نہیں پہنچ سکتا تھا، ضحاک نے مرجِ راہط سے فوراً نعمان بن بشیر، ظفر بن حارث اور نائل بن قیس کوحمص قنسرین اور فلسطین میں حالات سے اطلاع دی، ان لوگوں نے ضحاک کی امداد کے لیئے مرج راہط کی طرف فوجیں روانہ کیں، ادھر جابیہ میں حسان بن مالک نے امامت کی خدمات انجام دینی شروع کیں اور یہ مسئلہ پیش ہوا کہ پہلے اپنا ایک امیراور خلیفہ منتخب کرلو، عام طور پرخالد بن یزید ہی کا نام لیا جاتا تھا اور اسی طرف لوگ زیادہ مائل تھے۔ مروان نے درپردہ لوگوں کواپنی خلافت کے لیئے ترغیب دینی شروع کی اور روح بن زنباع نے مروان کے حسب منشاء آمادہ ہوکر ایک روز مجمع عام میں کھڑے ہوکراپنی رائے اس طرح پیش کی کہ: خالد بن یزید ابھی نوعمر ہے، ہم کوایک تجربہ کار اور ہوشیار خلیفہ کی ضرورت ہے؛ لہٰذا مروان بن حکم سے بہتر کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے، وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لےکرآج تک برابر حکومت وخلافت کے کاموں کا تجربہ رکھتا ہے، مناسب یہ ہے کہ ہم مروان بن حکم کوخلیفہ منتخب کرلیں؛ مگراس شرط کے ساتھ کہ مروان کے بعد خالد بن یزید خلیفہ بنایا جائے اور خالد بن یزید کے بعد عمروبن سعید عاص کوخلافت سپرد کی جائے۔ غرض انتخاب خلیفہ کا مسئلہ چالیس روز تک مقامِ جابیہ میں زیربحث رہا، بالآخر روح بن زنباع کی مذکورہ تجویز عبیداللہ بن زیاد کی تائید وکوشش سے منظور ہوئی اور ۳/ذیقعدہ سنہ۶۴ھ کومقام جابیہ میں مروان کے ہاتھ پربنوامیہ، بنوکلب اور غسان وطے وغیرہ قبائل نے بیعت کرلی، اس کے بعد مروان بن حکم اپنی جمعیت کولے کرمرجِ راہط کی طرف بڑھا اور ضحاک بن قیس کے مقابل جاکر خیمہ زن ہوا، مروان کے پاس کل تیرہ ہزار جنگ جوتھے، ادھرضحاک کے پاس اس سے چوگنی جمعیت فراہم ہوچکی تھی، طرفین نے اپنے میمنہ ومیسرہ کودرست کرکے لڑائی کا سلسلہ شروع کیا، بیس روز تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا؛ مگرکوئی فیصلہ کن جنگ نہ ہوئی، آخرعبیداللہ بن زیاد نے مروان بن حکم کواپنی فوج کی قلت کی طرف توجہ دلاکرمشورہ دیا کہ دشمنوں پرشب خون مارنا چاہیے؛ چونکہ بیس روز سے طرفین برابر صف آرا ہوتے رہے تھے اور کسی نے کسی پرشب خون مارنے کا ارادہ نہیں کیا تھا؛ لہٰذا ضحاک اور ان کی فوج بے فکر تھی، اس پرمستزاد یہ کہ مروان نے دن میں ضحاک کے پاس صلح کا پیغام بھیج کراستدعا کی کہ لڑائی کوبند کردیجئے اور صلح شرائط کے طے ہونے تک کوئی کسی پرحملہ آور نہ ہو؛ اسی قرار داد کے موافق لڑائی بند ہوگئی، غروب آفتاب کے بعد جب رات شروع ہوئی توابن زیاد کی تجویز کے موافق یہاں شب خون کی تیاری ہونے لگی اور وہاں بالکل فارغ ومطمئن ہوکر ضحاک اور ان کی فوج مصروفِ خواب ہوگئی، آدھی رات کے وقت انھوں نے حملہ کئی جانب سے شروع کیا، اس اچانک حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنوقیس کے اسی سردار اور بنوسلیم کے چھ سوآدمی مقتول ہوئے، ضحاک بن قیس بھی کام آئے اور بقیۃ السیف جس طرف کومنھ اٹھا بھاگ نکلے۔ یہ لڑائی درحقیقت بنوکلب اور بنوقیس کی لڑائی تھی، ان دونوں قبیلوں میں عہدجاہلیت سے رقابت چلی آرہی تھی، اسلام نے اس رقابت کوبھلادیا تھا اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں قبیلوں سے بڑی قابلیت کے ساتھ کام لیا اور ان کی آپس کی رقابتوں کودبائے رکھا تھا، یزید کی شادی بھی انہوں نے بنوکلب میں اسی لی کی تھی کہ ایک زبردست قبیلے کی حمایت اس کوحاصل رہے، بنوقیس کی تعداد بنوکلب سے بھی زیادہ تھی، ان کی مدارات ودل جوئی کا بھی خاص طور پرلحاظ رکھا جاتا تھا؛ یہی دونوں قبیلے ملکِ شام کی سب سے بڑی طاقتیں سمجھے جاتے تھے، جس طرح حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بنوامیہ اور بنوہاشم کی دیرینہ رقابت پھرتازہ ہوگئی تھی؛ اسی طرح امیرمعاویہ کی وفات کے بعد بنوقیس اور بنوکلب کی فراموش شدہ رقابت ازسرِنوبیدار ہوگئی اور جنگ مرہط نے اس رقابت کوتادیر اور ہمیشہ باقی رہنے والی عداوت ودشمنی کی شکل میں تبدیل کرکے مقاصد اسلامی کوعالم اسلام میں سخت نقصان پہنچایا۔ جس زمانے میں معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد دمشق میں انتخاب خلیفہ کے متعلق اختلاف آراء اور بنوکلب وبنوقیس کے درمیان رقابتیں آشکارا ہونے لگی تھیں تومروان بن حکم نے یہ دیکھ کرکہ عراق ومصر اور شام کا بھی بڑا حصہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کوتسلیم کرچکا ہے، ارادہ کیا تھا کہ دمشق سے روانہ ہوکر مکہ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کرلے اور خلافت تسلیم کرنے میں زیادہ دیرنہ لگائے؛ چنانچہ جامع دمشق میں جب لوگوں کے اندر فساد برپا ہوا تومروان بن حکم، بنوامیہ کی خلافت سے قطعاً مایوس ہوکر مکہ کے سفر کا سامان درست کرچکا تھا کہ اتنے میں عبیداللہ بن زیاد دمشق میں وارد ہوا اور مروان بن حکم کے ارادے سے واقف ہوکر اس نے مروان کوباصرار روانگی سے باز رکھا اور اسی کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ مروان کے ہاتھ پربیعت ہوئی اور اسی کی تدبیر سے مرجِ راہط میں ضحاک بن قیس قتل اور بنوقیس کوشکست ہوئی۔ مرجِ راہط کی فتح کے بعد مروان دمشق میں آیا اور یزید بن معاویہ کے محل میں فروکش ہوا؛ یہاں آتے ہی اس نے ابن زیاد کے مشورے کے موافق سب سے پیشتر خالد بن یزید کی ماں سے نکاح کیا؛ تاکہ بنوکلب کی حمایت حاصل رہے اور آئندہ خالد بن یزید کی ولی عہدی کے اندیشے سے نجات حاصل ہوسکے، اس کے بعد اس نے فلسطین ومصر کی جانب کوچ کیا اور سنہ۶۵ھ کے ابتدائی ایام میں عبداللہ بن زبیر کے تمام ہوا خواہوں کوشکست دے کرقتل یاملک سے خارج کردیا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اس معاملہ میں بڑی غلطی ہوئی کہ انہوں نے ملکِ شام کے ان واقعات وحالات سے جوان کے موافق پیدا ہوچکے تھے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا اور عین وقت پراپنے ہواخواہوں کوکوئی امداد روانہ نہ کرسکے؛ انہوں نے اپنے بھائی مصعب بن زبیر کوشام کے ملک پرحملہ کرنے کی ہدایت کی؛ لیکن اس وقت جب کہ موقع ہاتھ سے جاتا رہا تھا اور ان کے طرف داروں کی ہمتیں شام میں پست ہوچکی تھیں۔