انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت محمد بن ادریس (امام شافعیؒ) صحابہ کرام وتابعین عظام کے خیر القرون کے بعد دین متین کی جس قدر خدمات ائمہ اربعہ نے انجام دیں وہ بلاشبہ تاریخ اسلام کے اوراق میں انمنٹ نقوش بن کر مرقم ہیں،بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہؒ اورامام شافعیؒ نے تو اپنے فضل وعلم، زہد وتقویٰ،تبحروجامعیت اورباریک بینی و نکتہ آفرینی سے پوری دنیا کو گرویدہ اور شیدا بنالیا تھا وہ جہاں کہیں بھی جاتے پورا خطہ ارض بقعہ نور بن جاتا اورلاکھوں وارفتگانِ علم اس شمع فروزاں کے گرد منڈلانے لگتے۔ یہ حقیقت ہے کہ امام اعظمؒ کے بعد جس کے مقلدین ربع مسکون کے گوشہ گوشہ میں کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں، وہ امام شافعیؒ کی ذاتِ گرامی ہے،عراق ،خراسان شام انڈونیشیا،حضر موت اورملایا وغیرہ میں مذہب شافعی کی غیر معمولی نشر واشاعت ہوئی اوران میں سے بعض ملک تو سو فیصدی شافعی ہیں، خصوصاً مصر میں شوافع دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہیں،سواحل ہند میں بھی یہی مذہب ہمیشہ غالب رہا۔ ائمہ اربعہ میں سے امام ابو حنیفہؒ اورامام مالکؒ پر دارالمصنفین سے مستقل مبسوط کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور امام احمد بن حنبل کے سوانح وکمالات تذکرۃ المحدثین(حصہ اول) میں بہت شرح وبسط کے ساتھ لکھے جاچکے ہیں،اس لیے ذیل میں امام شافعیؒ کی مفصل سوانح اورخدمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ نام ونسب محمد نام،ابو عبداللہ کنیت اورناصر الحدیث لقب تھا،جیسا کہ خود فرماتے ہیں "سمیت ببغداد ناصرالحدیث"(تاریخ بغداد:۲/۶۸،تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۲،ابدایہ والنہایہ:۱۰/۲۵۳،العبر فی خبر من غبر:۱/۳۴۴) اپنے جدا علی شافع کی نسبت سے شافعی کہلائے جو صغار صحابہ میں سے تھے (البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۷۲)ان کے والد سائب غزوۂ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ تھے،ان کی شکست کے بعد قید ہوکر شرفِ اسلام سے بہرہ ورہوئے تھے(التاج المکلل:۶۳)پورا سلسلہ نسب یہ ہے:محمد بن ادریس بن العباس بن عثوان بن الشافع بن السائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب بن عبد مناف القرشی المطلبی(حسن المحاضرۃ:۱/۱۲۱)اس نسب نامہ کی بنا پر آپ حضور اکرم ﷺ کے عم زاد بھائی ہوتے ہیں۔ (تاریخ ابوالمقدار:۲/۲۶) جائے ولادت امام شافعی ۱۵۰ ھ میں پیدا ہوئے ،مولد کی تعیین میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے،صحیح تر قول یہ ہے کہ آپ کا مولد مقام غزہ ہے ،جو بیت ا لمقدس سے بہت قریب واقع ہے (کتاب الانساب للسمعانی ورق:۳۲۵) مورخ ابن خلکان اورحافظ ابن عبدالبر نے اسی قول کو اصح قرار دیا ہے۔ (ابن خلکان:۲/۲۱۴ والانتقاء لا بن عبدالبر:۲۷) دوسرے قول میں عسقلان کو امام شافعی کی جائے پیدائش بتلایا گیاہے،لیکن درحقیقت ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے؛کیونکہ غزہ اور عسقلان دونوں فلسطین کے سرحدی علاقے ہے،عسقلان شہر ہے،اورغزہ اسی کا ایک نواحی قریہ ہے،اس لیے عسقلان کی طرف انتساب یا تو مجازاً ہے،یا ممکن ہے ولادت غزہ میں ہوئی ہو، اورپھر ان کی والدہ نومولود کو لے کر عسقلان منتقل ہوگئی ہوں جہاں آپ نے نشو ونما پائی۔ (معجم الادباء:۲/۳۶۸) علامہ ابن حجر نے ان دونوں روایتوں میں جمع وتطبیق کی یہی صورت نکالی ہے جو بالکل قرین قیاس ہے،جو قریے شہر کے قریب ہوتے ہیں ان کے باشندے عام طور سے شہر کی جانب منسوب ہوجاتے ہیں،امام شافعی کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ولدت بغزہ فحملتنی امی الیعسقلان (توالی التاسیس لا بن حجر :۴۹) میں غزہ میں پیدا ہوا پھر میری والدہ مجھے عسقلان لے گئیں۔ امام صاحب سے ایک اورروایت یہ بھی منقول ہے کہ ولدت بالیمن نخافت اُمی علی الضیعۃ فجھزتنی الیٰ مکۃ وانا ابن عشر (توالی التاسیس لابن حجر :۴۹) میری ولادت یمن میں ہوئی پھر میری والدہ کو میرے شرف ضائع ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوا تومجھے دس سال کی عمر میں مکہ لے آئیں۔ حافظ ذہبی نے اس قول کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے قبیلہ یمن مراد ہوسکتا ہے اورشیخ الاسلام ابن حجر نے اسے احمد بن عبدالرحمن راوی کا وہم قرار دیا ہے دراصل روایت میں "ولدت"سے مراد "نشات"ہے،یعنی میری نشو ونمایمن میں ہوئی۔ (ایضاً) یاقوت حموی نے مذکورہ بالاروایت کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:"اس کی تاویل محققین نے یہ کی ہے کہ یمن سے مراد وہ سر زمین ہے جہاں یمنی قبائلی آباد ہوگئے ہوں اورغزہ عسقلان کی کل آبادی یمنی قبائل پر مشتمل تھی اگر مذکورہ بالا روایت صحیح ہے تو اس کی یہی تاویل میرے نزدیک احسن ہے۔ (معجم الادباء:۶/۳۶۸) ابتدائی حالات ان کے سنہ پیدائش کے بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے (معجم المصنفین:۲/۲۴۲) جس روز امام اعظم ابو حنیفہؒ نے رحلت فرمائی،اسی دن امام شافعیؒ کی ولادت ہوئی نواب صدیق حسن خان رقمطراز ہیں: درایں جامیان حنیفہ وشافعیہ مزاح است حنفیہ گویند امام شافعی بودتآنکہ امامِ ما انتقال کرد،شافعیہ گویند چوں امامِ ما ظاہر شد امام شما بگر یخت (تولی التاسیس:۵۰) اس واقعہ نے احناف وشوافع کے درمیان ایک مذاق پیدا کردیا ہے،حنفیہ کہتے ہیں کہ جبتک ہمارے امام کا انتقال نہ ہوگیا تمہارے امام چھپے رہے اور شوافع کہتے ہیں کہ جیسے ہی ہمارے امام ظاہر ہوئے تمہارے امام چلتے بنے۔ یافعی نے مرأۃ الجنان میں بھی اس مزاح کا ذکر کیا ہے (توالی التاسیس:۵۰) لیکن علامہ ابن حجرؒ نے اس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعیؒ کا سال ولادت اورامام ابوحنیفہؒ کا سال وفات ۱۵۰ء تو ایک ضرور تھا،لیکن دن کی تعیین غلط ہے کیونکہ محققین نہ تو امام شافعی کے ماہ ولادت کی صحیح تعیین کرسکے اورنہ امام اعظمؒ کے ماہ وفات کی اورخود امام ابو حنیفہؒ کے سال وفات میں رواۃ کا اختلاف پایا جاتا ہے،۵۰ ،۵۱ اور ۵۳ تینوں منقول ہیں۔ (طبقات الشافعیہ:۲) علامہ بیہقی کا قول ہے کہ مجھے ایسی کوئی قوی روایت نہ مل سکی جس سے معلوم ہو کہ امام اعظمؒ کی وفات اورامام شافعی کی ولادت کا ایک ہی دن تھا،ہاں محققین اس پر متفق ہیں کہ سال ایک ہی تھا۔ (ایضاً) جب امام شافعی کے دوسال ہوگئے تو آپ کی والدہ جو صحیح قول کے مطابق قبیلہ ازد سے تعلق رکھتی تھیں ،آپ کو لے کر حجاز مقدس منتقل ہوگئیں اوروہاں سے اپنے آبائی وطن یمن چلی گئیں جہاں امام صاحبؒ نے اپنی عمر عزیز کے دس سال گذار ے اورجب آپ کی والدہ کو نسبی شرافت کے ضائع ہونے کا اندیشہ لاحق ہوا تو پھر مکہ معظمہ،واپس آگئیں۔ (طبقات الشافعیہ:۲) امام شافعیؒ کو خدا وند قدوس نے غیر معمولی ذکاوت وفطانت سے نوازا تھا،صغر سنی سے ہی آپ کی صلاحیتیں منظر عام پر آنے لگی تھیں،تیر اندازی،نیزہ بازی اورشہسواری میں پوری مہارت رکھتے تھے،خود امام شافعی کا بیان ہے کہ میں تیر اندازی بہت زیادہ کیا کرتا تھا،یہاں تک کہ طبیب نے کہدیا تھا کہ دھوپ میں زیادہ رہنے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کومرضِ سل نہ لاحق ہوجائے (تاریخ بغداد:۲/۷۰) لیکن اسی ریاضت ومشقت کی وجہ سے ان کی صحت قابل رشک تھی۔ ذوق شعر وسخن ابتدا میں امام صاحب کو شعر وسخن سے بھی کافی شغف تھا؛چنانچہ قبیلہ ہذیل میں جو عرب کا سب سے فصیح البیان قبیلہ تھا رہ کر ان کی زبان وکلام میں ملکہ پیدا کیا،ہذلیین کے اشعار ودوادین ایسے ازہر تھے کہ اصمعی جیسے مستند ادیب ولغوی کا بیان ہے کہ میں نے محمد بن ادریس نامی ایک قریشی نوجوان سے ہذلیین کا دیوان پڑھا۔ (مناقب الامام الشافعی:۵۳،اورابن خلکان:۲/۲۱۴ وتاریخ ابو الفداء:۲/۲۶) علامہ سبکی نے امام شافعیؒ کی شاعری پر تفصیلی بحث کی ہے اوران کے حکیمانہ اشعار بھی نقل کیے ہیں (طبقات الشافعیہ:۱/۱۵۵ ومابعد) علامہ ابن حجر نے بھی ان کے اشعار کے متعدد نمونے دیئے ہیں (توالی سیس:۷۳) جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام شافعی کی شاعری دیگر شعراء سے یکسر مختلف اورصحیح معنی میں "ان من الشعر لحکمۃ" کا مصداق تھی،اس میں صرف شعر وادب کی چاشنی اورحلاوت ہی نہیں ؛بلکہ وہ عقل وحکمت اوربصیرت وموعظت کا سبق بھی ہے۔ امام شافعی کا دیوان بھی مع شرح ۶۶ھ میں مصر کی المجلس الاعلیٰ للشنون الاسلامیہ سے شائع ہوچکا ہے،جس کے جامع اورشارح الاستاذ عبدالعزیز سید الاہل ہیں، اورفی الواقع فاضل موصوف نے شرح کا حق ادا کردیا ہے،اس دیوان میں قوافی کی ترتیب سے ۸۰ صفحات میں مختلف مآخذوں سے امام شافعیؒ کے اشعار کو یکجا کیا گیا ہے۔ تحصیل وتکمیل عُلوم امام صاحبؒ کو علم کا شوق بچپن ہی سے تھا،آپ کا ابتدائی زمانہ نہایت مفلسی اورتنگ دستی کی حالت میں گزرا،باپ کے سایہ عاطفت سے بچپن ہی میں محروم ہوچکے تھے، غربت وافلاس کا یہ حال تھا،کہ بقول امام رازی جب وہ مکتب میں گئے تو معلم نے بے مائگی کی بنا پر پڑھانے سے انکار کردیا تھا (مناقب الامام الشافعی:۱۶) خود امام صاحب فرماتے ہیں کہ: کنت فقیراً بحیث مساکنت ملک مااشتری بہ القراطیس فکنت اخذ العظم واکتب فیھا (مفتاح العادہ:۲/۸۹) میں اتنا غریب تھا کہ کاغذ تک خریدنے کی مقدرت نہ تھی،اس لیے ہڈی لیکر اس پر لکھا کرتا تھا۔ لیکن یہ تمام مشکلات ومواقع ان کی راہِ ترقی میں مانع نہ ہوسکے،وہ معلم کی بے اعتنائی کے باوجود مکتب میں بیٹھے رہے اوراستاد بچوں کو جو اسباق پڑھاتے اسے زبانی یاد کرلیتے اورپھر ہڈیوں پر لکھ لیتے (لواقح الانوار:۱/۴۲)یہاں تک کہ اس نے جو کچھ بھی طلبہ کو پڑھایا،امام صاحب نے سب یاد کرلیا اوراپنی ذہانت سے صرف سات سال کی عمر میں پورا کلام پاک حفظ کرلیا۔ (حسن المحاضرہ للیسوطی:۲/۱۲۱ وتاریخ بغداد:۲/۶۳) ابن فرعون نے لکھا ہے: کان الشافعی حافظاً حفظ المؤطا فی تسع لیالٍ وقیل فی ثلاث لیالٍ (الدیباج المذہب:۲۲۸) امام شافعی حافظ تھے انہوں نے مؤطا کو ۹ شب میں حفظ کرلیا تھا،ایک قول تین شب کا بھی ہے۔ لیکن خود امام شافعی کا قول۹ ہی رات کا ہے۔ (طبقات شافعیہ:۲) پھر فقہ کی جانب متوجہ ہوئے اورفقیہ مکہ مسلم بن خالدز نجی (مسلم بن خالد زنجی مکہ معظمہ کے مفتی تھے ان کے بارے میں ناقدین فن اختلاف رائے رکھتے ہیں،بعض نے کہا کہ وہ ثقہ تھے اور بعض نے ضعیف قرار دیا ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ "لیس بشی" امام بخاریؒ نے فرمایا کہ وہ منکر الحدیث تھے)کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے چشمۂ علم سے سیرابی حاصل کی اورفقہ میں اتنا کمال پیدا کیا کہ ان کے شیخ نے پندرہ ہی سال کی عمر میں یہ کہہ کر فتویٰ نویسی کی اجازت دے دی کہ "افتِ یا ابا عبداللہ فقد آن لک ان تفتی" مکہ میں آپ نے مسلم بن خالد کے علاوہ مشہور محدث سفیان بن عیینہ سے بھی استفادہ کیا تھا کہ وہ امام شافعیؒ کے علم وفضل کے اتنے معترف تھے کہ فرماتے تھے "ھذا افضل من فتیان اھل زمانہ" اورجب کوئی تفسیری مسئلہ یافتویٰ آجاتا تو امام شافعیؒ کی طرف رُخ کرکے فرماتے کہ ان سے دریافت کرو۔ مکہ میں تین سال تک تحصیل علم میں مشغول رہنے کے بعد مدینہ طیبہ کا رخ کیا جہاں امام مالک بن انسؒ کا دریائے فیض رواں تھا،جب امام شافعی آستانہ مالکی پر حاضر ہوئے،تو ان کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ امام مالکؒ سے مکالمت کی تفصیل خود ہی بیان فرمائی ہے،کہتے ہیں کہ جب میں امام مالکؒ کی خدمت میں پہنچا تو میں مؤطا حفظ کرچکا تھا،میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے مؤطا پڑھنا چاہتا ہوں، امام مالکؒ نے فرمایا کہ اچھا کسی کو بلاؤ جو تمہارے لیے قرأت کرے میں نے جواب دیا کہ اس کی ضرورت نہیں میں خود ہی پڑھوں گا، اورجب میں نے اس کی قرأت کی تو امام مالکؒ نے بڑے تعجب کا اظہار کیا اور قرأت کو بہت پسند فرمایا(الانتقاء لابن عبدالبر:۶۹) اورجب میں اس خوف سے قرأت بند کرتا کہ مبادا آپ پر بار ہو تو فرماتے اے نوجوان! اورپڑھو یہاں تک میں نے بہت تھوڑی مدت میں مؤطا ختم کرلی (مفتاح السعادۃ:۲/۹۰) اسی بنا پر امام شافعی امام مالک سے روایت کرتے وقت "اخبرنا مالک" کہتے ہیں (حدثنا اوراخبرنا میں فرق یہ ہے کہ استاد پڑھے اورشاگرد سنے تو روایت کرتے وقت حدثنا فلان کہا جاتا ہے اوراس کے برعکس استاذ سماعت کرے اورشاگرد قرأت کرے تو اس وقت اخبرنا کے لفظ سے روایت کیا جاتا ہے)امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ قرأت کی پسندیدگی کی وجہ یہ تھی کہ امام شافعیؒ بہت فصیح البیان تھے۔ (توالی التاسیس:۵۱) آپ کو امام مالکؒ کی خدمت میں صرف آٹھ ماہ رہنے کا موقعہ ملا؛ لیکن اس مختصر مدت میں بھی استاذ شاگرد کے درمیان بہت گہرے روابط قائم ہوگئے،امام مالکؒ ان کے فہم وذکا کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے،جب امام شافعیؒ نے مؤطا کی زبانی قرأت کی تو امام مالکؒ نے برجستہ فرمایا: ان بک احد یفلح فھذا الغلام یہ لڑکا یقیناً کامیاب ہوگا۔ امام شافعیؒ بھی اپنے استاذ کا بے حد احترام کرتے تھے،فرماتے تھے: مالک معلمی واستاذی ومنہ نعلمنا العلم وما احد امن علی من مالک وجعلت مالکا حجۃ فیما بینی وبین اللہ (الدیباج المذہب:۲۲۸) مالک میرے معلم اورمیرے استاذ ہیں میں نے علم ان ہی سے سیکھا، ان سے زیادہ مجھ پر کسی کا احسان نہیں ہے میں نے ان کو اپنے اوراللہ کے درمیان حجت بنایا ہے۔ نیز جب امام مالکؒ کا کوئی قول بیان کرتے تو کہتے ھذا قول استاذ نا مالک (مفتاح السعادہ:۲/۹۰) علمی اسفار ۱۷۹ھ میں جب امام مالکؒ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے تو امام شافعی پھر مکہ واپس آگئے، اوروہاں کے شیوخ واساتذہ سے کسبِ فیض کیا، اس کے بعد امام صاحب کو فکر معاش دامنگیر ہوئی، حسنِ اتفاق سے والیٔ یمن مکہ آیا ہوا تھا،بعض عمائد قریش نے اس سے سفارش کرکے امام شافعیؒ کو نجران کا حاکم مقرر کرادیا،لیکن یہ ملازمت آپ کے ذوق کے مطابق نہ تھی،اس لیے علمی کاموں کی جانب سے آپ کو بے توجہی ہونے لگی۔ اسی اثنا میں والیٔ یمن نے آپ کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا،جس سے قدرت کی جانب سے خود بخود ملازمت سے علیحدگی کی شکل پیدا ہوگئی،امام شافعی قیامِ یمن کے دوران ایک ابتلاوآزمائش میں مبتلا ہوئے جس سے امام محمدؒ کی سفارش پر خلاصی پائی (الانتقاء لابن عبدالبر:۹۸،البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۵۲)لیکن امام شافعیؒ کو اس سے دو بڑے فوائد بھی حاصل ہوئے۔ (۱)یمن میں قیام کے دوران وہاں کے فضلاء سے استفادہ کا موقع ملا جن میں مطرف بن مازن صنعانی (المتوفی ۱۹۱ھ) اورعمروبن ابی سلمہ (المتوفی ۲۱۴ھ) مشہور ہیں: (۲)یہ ابتلاوآزمائش امام شافعی کے عراق جانے کا سبب بنی اوران کو امام محمدؒ سے جو فقہ عراق کے امام تھے،استفادہ کا موقع ملا،عراق میں قیام آپ کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ امام صاحبؒ کی بغدادمیں یہ پہلی آمد تھی جو ۱۸۴ھ میں ہوئی، پہلی کی تصریح صرف ابن کثیرؒ نے کی ہے (البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۵۲)ورنہ بغدادی اورابو الفداء نے اجمالاً "قدم الی بغداد مرتین" (تاریخ بغداد:۲/۵۶ وتاریخ ابو الفداء:۲/۲۶) لکھا ہے، امام صاحبؒ کے بغداد پہنچنے سے دو سال قبل امام ابو یوسف رحلت فرماچکے تھے اوربغداد کی مسندِ علم امام محمد سے پر رونق تھی،جو فقہ عراق کے صدرِ اعظم امام ابو حنیفہ کے تلمیذ رشید تھے۔ امام شافعیؒ نے امام محمد کی خدمت میں تین سال رہ کر فقہ عراق میں کمال پیدا کیا، امام محمدؒ کے علاوہ عراق میں امام شافعیؒ نے جن شیوخ سے استفادہ کیا ہے،ان کے نام یہ ہیں،وکیع بن الجراح (المتوفی ۱۹۰ھ) حماد بن اسامہ ہاشمی (المتوفی ۲۱۱ھ) عبدالوہاب عبدالمجید المصری (المتوفی ۱۹۴ھ) امام شافعیؒ نے امام محمد سے جو کسبِ فیض کیا تھا اس پر تاعمر ان کے ممنونِ کرم رہے، اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے امام محمد بن حسن سے جو کچھ پڑھا، سُنا اورنقل کیا وہ بارِ شتر کے برابر ہے۔ (الانتقاء:۶۹) امام محمدؒ بھی امام شافعیؒ کی ذہانت وصلاحیت کے معترف تھے (بعض محققین نے لکھا ہے کہ امام محمد وامام ابویوسف ؒ نے خلیفہ ہارون سے امام شافعی کی شکایت کی تھی کہ وہ خلیفہ کی خلافت کے اہل نہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں،یہ ایک عظیم بہتان ہے ) (البدایہ :۱/۲۵۳)زیادی کا بیان ہے کہ میں نے امام محمد کو جیسی تعظیم امام شافعی کی کرتے دیکھا ویسی کسی اور کی کرتے نہیں دیکھا۔ (ابن خلکان:۲/۲۱۵) بغداد سے وہ مکہ مکرمہ واپس گئے اوروہاں نو سال تک قیام کیا اس طویل مدت میں وہ حرم شریف میں درس وتدریس کی بساط بچھائے رہے،امام احمد بن حنبل یہیں پر آپ سے ملے اورایسے گروید ہ ہوئے کہ آپ کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوگئے،یہیں امام شافعیؒ نے فقہ جدید کی بنیاد ڈالی اور اجتہاد واستنباط کے اصول وضوابط مرتب کیے۔ ۱۹۵ھ میں امام صاحبؒ دوسری مرتبہ واردِ بغداد ہوئے اس مرتبہ آپ کی آمد طالب علم کی حیثیت سے نہ تھی؛بلکہ اس وقت آپ کا آفتابِ شہرت بغداد کے آسمان پر ضوفگن ہوچکا تھا اور آپ کے مخالف وموافق سب کی زبانیں آپ کے فضل وکمال کے ذکر سے تر تھیں، امام صاحب اس مرتبہ بغداد میں دو سال رہے اس عرصہ میں اکابر ائمہ اورجلیل القدرفقہاء ومحدثین سے لے کر عام طالبان علم تک،سب پروانوں کی طرح آپ کے گرد جمع رہتے اورآپ کے منبع علم سے سیراب ہوتے،اسی قیام کے دوران میں امام صاحب نے قدیم اقوال پر مشتمل اپنی مشہور کتاب الحجۃ تصنیف کی جس کے چاروں رواۃ یعنی احمد بن حنبل،ابوثور، زعفرانی اورکرابیسی امام شافعی کے جلیل المرتبت شاگرد ہیں۔ (طبقات الشافعیہ:۲) دو سال بغداد میں قیام کے بعد امام شافعی پھر مکہ واپس آگئے جہاں سے ۱۹۸ ھ میں تیسری بار پھر بغداد واپس آگئے ؛لیکن اس بار چند ماہ سے زیادہ قیام نہیں کیا(ابو بکر مصنف نے دو ماہ کی تعیین کی ہے) (طبقات للمصنف :۳)اوراسی سال موسیٰ کاظم کی شہادت کے بعد مصر چلے گئے۔ (ایضاً) یاقوت حموی نے امام صاحبؒ کے مصر جانے کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ عباس بن عبداللہ والیِ مصر نے ان سے ساتھ رہنے کی درخواست کی تھی (معجم الادباء:۶/۳۹۴) لیکن صرف یہی ایک سبب نہیں تھا؛بلکہ ان کو مصر جانے کا شوق اس سے بہت پہلے سے تھا،جس سے ان کے اشعار بھرے ہوئے ہیں۔ درحقیقت سفر مصر کا اصلی مقصد اپنے مذہب کی ترویج واشاعت تھا حجاز و عراق میں ان کو اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوچکی تھی،اب انہوں نے ایک نئے میدان کی تلاش میں مصر کا رُخ کیا تھا؛چنانچہ ربیع کا بیان ہے کہ مجھ سے امام شافعیؒ نے اہلِ مصر کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ وہاں دو مذہب کے پیرو ومتبع ہیں،امام شافعیؒ نے جواب دیا: ارجوان اقدام مصر انشاء اللہ فاتیتھم بشی یثغلھم عن القولین جمیعاً میں انشاء اللہ مصر جاؤں گا اوران کے سامنے ایسی چیز پیش کروں گا کہ وہ دونوں مذاہب کو چھوڑدیں گے۔ ربیع کا کہنا ہے کہ واللہ جب امام شافعیؒ مصر آئے تو انہوں نے اپنی یہ بات سچ کردکھائی (توالی التاسیس:۷۷) اوربقول شعرانی بہت سے علماء نے اپنے قدیم مذہب سے رجوع کرکے مذہب شافعیؒ قبول کرلیا۔ (لواقح الانوار:۱/۴۳) قولِ قدیم اورقولِ جدید قول قدیم سے مراد،امام صاحبؒ کے وہ اقوال ہیں جو انہوں نے قیامِ مصر سے پیشتر مکہ،مدینہ،یمن اوربغداد میں قائم کیے تھے،بغداد میں انہوں نے "کتاب الحجۃ" تصنیف کی تھی جو قدیم اقوال پر مشتمل ہے اورامام صاحبؒ کے مذہبِ قدیم سے مراد یہی کتاب ہوتی ہے۔ (کشف الظنون:۱/۴۲۰) جب امام صاحبؒ مصر آگئے تو انہوں نے اپنے سابقہ خیالات ونظریات پر از سر نو غور و تفخص کیا اوربہت سے قدیم اقوال سے رجوع کرکے نئے نئے آراء قائم کیے۔ ان نئے خیالات کو قول جدیدسے تعبیر کیا جاتا ہے،یہیں امام صاحب نے اپنی جدید کتابیں الامام،امالی الکبیر،املاء الصغیر البویطی،مختصر المزنی،مختصر الربیع، الرسالہ،السنن تصنیف کیں (حسن المحاضرۃ :۱/۱۲۱)اوردرحقیقت مذہب جدید ہی امام شافعی کی دائمی شہرت کا باعث ہوا۔ چنانچہ امام شافعی نے اپنی بغدادی تصانیف سے جو قدیم اقوال پر مشتمل ہیں،روایت کی اجازت نہیں دی،علامہ نوویؒ فرماتے ہیں، امام شافعی نے اپنے قول قدیم سے رجوع کرلیا تھا اور جب کوئی مجتہد اپنے کسی قول سے رجوع کرلے تو پھر وہ اس کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا۔ (شرح مسلم النووی:۲/۱۸۷) وفات امام شافعی نے مصر میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی،یہیں رجب کی آخری تاریخ ۲۰۴ ھ کو علم ومعرفت کی یہ شمع فروزاں گل ہوگئی (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۴۳)اس وقت ۵۴ سال کی عمر تھی،ابو عثمان محمد کا قول مات الی وھو ابن ثمان وخمسین سنۃ محل نظر ہے (طبقات الفقہاء للشیرازی:۴۸)کیونکہ آپ کے سنِ ولادت ۱۵۰ھ اورسنہ وفات ۲۰۴ھ پر محققین کا اتفاق ہے،اس کی رو سے عمر ۵۴ ہی سال قرار پاتی ہے،مزار پاک آج بھی مرجع خلائق ہے۔ موت کا حقیقی سبب امام شافعی کی موت کا سبب عام طور پر یہ مشہور ہے کہ: فتیان ابی السمع مالکی اورامام شافعی کے درمیان مناظرہ ہوا، جس میں فتیان نے کوئی نازیبا حرکت کی تھی اور معاملہ والیِ مِصر کے پاس پیش ہوا، اس نے فتیان کو بلا کر سخت تنبیہ وتوبیخ کی،اس سے فتیان کے دل میں عناد پیدا ہوگیا اور ایک شب اس نے امام صاحب کو لوہے کی زنجیر سے مارا، اس کے صدمہ سے امام صاحب ایسے سخت بیمار ہوئے کہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس سبب کے متعلق حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ "لم أرذالک من وجہ یعتمد" (توالی التاسیس :۱۸۶) یعنی بالکل ناقابلِ اعتبار ہے۔ ان کی موت کا اصلی سبب درحقیقت ان کی جانکاہ محنت تھی،مصر کے چہارسالہ قیام کے دوران میں تعلیم و تدریس ،تالیف وتصنیف ،مناظرہ اوراپنے مذہب کی اشاعت میں بڑی محنت کی تھی،ان کے شاگرد ربیع کا بیان ہے کہ امام صاحبؒ نے مصر کے دوران قیام میں ایک ہزار پانچ سو صفحات املاء کرائے،دو ہزار صفحے کی کتاب "الام"تصنیف کی، اس کے علاوہ کتاب السنن وغیر ہ لکھیں اوریہ سارا کام صرف ۴ سال میں اوربیماری کی حالت میں کیا۔ (توالی التاسیس:۸۳) ازواج واولاد امام شافعیؒ نے حمیدہ بنتِ نافع بن عنبسہ بن عمرو بن عثمان بن عفان سے نکاح کیا تھا، پس ماندگان میں ایک صاحبزادے ابو عثمان محمد اوردو صاحبزادیاں فاطمہ وزینب یادگار چھوڑیں۔ ابو عثمان محمد سب سے بڑے تھے اپنے والد کی وفات کے وقت مکہ میں رہتے تھے خطیب نے انہیں شہر بغداد کا قاضی بتایا ہے،جو صحیح نہیں ہے،درحقیقت وہ جزیرہ میں قاضی تھے،پھر کچھ عرصہ تک شہر حلب کے منصبِ قضا پر فائز رہے (طبقات الشافعیہ:۱/۲۲۶) اپنے والد ہی کی طرح علم وفضل میں یکتائے روز گار تھے۔ (امام شافعی کے ایک دوسرے لڑکے محمد نامی اور بھی تھے (الوافی بالوفیات:۱۱۴)جن کی کنیت ابوالحسن تھی،وہ ونانیر نامی ایک لونڈی کے بطن سے تھے،اپنے والد کے ہمراہ بچپن ہی میں مصر آئے اور وہیں ۲۲۱ ھ میں فوت ہوگئے۔ ( طبقات الشافعیہ:۱/۲۲۶) شیوخ وتلامذہ امام شافعیؒ نے علم وفن کے تمام سرچشموں سے سیرابی حاصل کی تھی، اس لیے ان کے شیوخ کی صحیح تعداد کا انداز ہ لگانا بہت دشوار ہے،علامہ ابن حجر نے ان کی تعداد ۸۰ بتلائی ہے (توالی التاسیس :۵۳) جن سے امام صاحبؒ نے،مکہ مدینہ،یمن،عراق اورمصر میں کسب فیض کیا تھا، حافظ ابن کثیر صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے کہ سمع الحدیث الکثیر علی جماعۃ من المشائخ والائمۃ (البدایہ والنہایہ:۱/۲۵۲) خطیب نے ان کے ۲۶ مشہور اساتذہ کے نام شمار کرائے ہیں۔ (تاریخ بغداد:۲/۵۶) کچھ ممتاز اورلائقِ ذکر شیوخ کے اسمائے گرامی یہ ہیں: امام مالکؒ،امام محمد،سفیان بن عیینہ،مسلم بن خالد،ابراہیم بن سعید، فضیل بن عیاض،محمد بن شافع،داؤد بن عبدالرحمن ،عبدالعزیز بن محمد الدر اوردی،ابراہیم بن ابی یحییٰ،عبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن المؤمل ابراہیم بن عبدالعزیز،عبداللہ بن الحارث،محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک،عبدالمجید بن عبدالعزیز،محمد بن عثمان الجہمی،عبدالعزیز الماجشون، ہشام بن یوسف،اسماعیل بن علیہ، مطرف بن مازن صفائی،عمر بن ابی سلمی،وکیع بن الجراح،حماد بن اسامہ، عبدالوہاب بن عبدالمجید المصری۔ (مفتاح السعادۃ:۲/۹۲،الدیباج المذہب:۲۲۷،وتاریخ بغداد:۲/۵۶) اسی طرح امام صاحبؒ کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے،دارقطنی نے ان کی تعداد سو سے زاید بتائی ہے (معجم الادباء:۲/۳۹۱)اورحافظ ابن حجرؒ نے ۱۶۳ کے نام شمار کرائے ہیں(توالی التاسیس:۷۹ تا۸۲ معجم المصنفین:۲/۲۵۲تا ۲۶۱)اس تعداد کی اہمیت اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ تمام تلامذہ امام شافعی کی صرف ۵۴ سالہ عمر کی پیداوار ہیں جس کی نظیر دیگر ائمہ میں شاذ ہے۔ ان تلامذہ میں ایک جماعت تو وہ ہے جو امام صاحب کے قول قدیم (بغدادی مذہب) کی راوی ہے،جیسے امام احمد زعفرانی ،کرابیسی،اسحاق بن راہویہ اورموسیٰ بن جارود وغیرہ۔ دوسری جماعت وہ ہے جس نے جدید مذہب کی روایت کی،جیسے امام مزنی،ربیع ابن سلیمان مرادی،بولیطی،یونس بن عبدالاعلیٰ ،حرملہ،ابن عبدالحکیم،حیری وغیرہ۔ (مرأۃ الجنان:۶/۳۹۱) ان سب نے امام صاحبؒ کے علوم کو مرتب ومدون کیا۔ حافظ ابن حجر نے توالی التاسیس میں امام صاحبؒ کے دس مشہور تلامذہ کا اجمالی تعارف کرایا ہے،جن کے نام یہ ہیں،حمیدی،سلیمان بن داؤد،احمد بن حنبلؒ،ابوثور،حرملہ مصری،زعفرانی،مزنی،یونس بن عبدالاعلیٰ،محمد بن الحکم،ربیع بن سلیمان المرادی،ان میں سے ہر ایک آسمانِ علم وفضل کا ماہِ تابندہ تھا۔ تبحرِ علمی امام شافعی کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنی عنانِ توجہ جس طرف بھی پھیری،اس میں کمال حاصل کرکے چھوڑا؛چنانچہ ابتدائے عمر میں جب وہ شعر وادب کی طرف مائل ہوئے توافصح عرب قبیلہ ہذیل میں سالہاسال قیام کرکے شعر وادب کے رموز سیکھے اور اس میں اتنی مہارت پیدا کی کہ اصمعی جیسا جلیل المرتبت ادیب ولغوی ان سے ہذلیین کا دیوان پڑھنے کا ذکر نہایت فخر وابتہاج کے ساتھ کرتا ہے۔ (مناقب الامام الشافعی:۱۵۳) امام صاحب علم وفن کے ہر شعبہ سے بہرہ وافر رکھتے تھے،اللہ جل شانہ نے انہیں کتاب اللہ،سنتِ رسول اللہ، کلامِ صحابہ، آثار سلف اوراختلاف اقاویل علماء پھر معرفت کلام عرب،لغت عربیت اورشعر وغیرہ میں علم عمیق ارزانی فرمایا تھا۔ (ابن خلکان:۲/۲۱۴) مذکورہ بالا علوم وفنون میں کمال کے باوجود ان کے اصلی علوم حدیث وفقہ تھے، وہ حافظ حدیث تھے،امام مالکؒ سے مؤطا کی قرأت کی تھی،اوراپنی اخاذ طبیعت کی بنا پر عام روش سے ہٹ کر اس میں نئی نئی راہیں پیدا کیں، ان کے مذہب کی بنیاد صحیح حدیث پر قائم ہے،خود ہی فرماتے ہیں "اذا صح الحدیث فھو مذھبی" (مختصر صفوۃ الصفوہ لابن جوزی :۲۱۴)امام احمد بن حنبلؒ سے فرمایا کرتے تھے کہ تم حدیث ورجال کا علم مجھ سے زیادہ رکھتے ہو،پس جب کوئی حدیث صحیح تمہاری نظر سے گزرے تو مجھے بتاؤ،خواہ وہ کوفی ہو یا بصری یا شامی،اگر وہ صحیح ہوگی تو میں اسے اختیار کرلوں گا (الانتقاء لابن عبدالبر:۷۵)امام صاحب کا یہ اعلان عام تھا کہ اگر میرا کوئی قول سنتِ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہو تو اس کو ترک کردو، نیز امام احمد فرماتے ہیں کہ جب کوئی حدیث امام شافعیؒ کے نزدیک صحیح ثابت ہوجاتی تھی تو وہ اس کے قائل ہوجاتے تھے۔ (معجم المصنفین :۲/۲۷۴) امام صاحبؒ نے اپنے وقت کے محدثین کی غفلت کو رفع کرکے ان میں نئی روح پھونکی ،زعفرانی بیان کرتے ہیں کہ: کان اصحاب الحدیث رقوداً حتی جاءَ الشافعی فایقظھم فتیقظوا (تاریخ ابو الفداء:۲/۲۶،والد بیاج المذہب :۲۲۸،والتاج المکلل:۶۰) تمام محدثین خواب غفلت میں مبتلا تھے،امام شافعیؒ نے آکر ان میں بیداری پیدا کی۔ حدیث سے استدلال میں امام شافعی کے مسلک میں احتیاط کا پہلو نمایاں ہے اسی بنا پر بعض مسائل میں عام ائمہ ومجتہدین کے مسلمہ اصول وضوابط سے الگ ان کی منفرد رائے ہوتی ہے،مثلا ً مراسیل صحابہ سے استدلال،تمام ائمہ کے نزدیک جائز ہے اورتابعین سے لیکر دوسری صدی تک کے مجتدہین میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا،لیکن امام شافعیؒ مرسل حدیث سے استدلال کو جائز قرار نہیں دیتے اور یہ اختلاف صرف احتیاط پر مبنی ہے۔ حدیث علم حدیث اوراس کے متعلقات میں امام صاحب کے تبحر کا اعتراف خود ان کے اساتذہ کو بھی تھا،اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی کتابوں کی سماعت کے لیے ان کے پاس بیک وقت سات سات سو تشنگانِ علم کا ہجوم رہتا تھا (الطبقات الکبریٰ للشعرانی:۱/۴۳)امام احمد فرماتے ہیں کہ مجھے ناسخ ومنسوخ حدیث کا پتہ اسی وقت چلا جب میں امام شافعی کی خدمت میں حاضر ہوا اورتعلیم حاصل کی (ابو الفداء :۲/۲۶،والدیباج المذہب:۲۸۸،والتاج المکلل:۶۰) ابو حاتم رازیؒ کا قول ہے: لو لا الشافعی لکان اصحاب الحدیث فی عمی (مرأۃ الجنان:۲/۱۹) اگر امام شافعی نہ ہوتے تو اصحاب حدیث تاریکی میں رہتے۔ ایک اور بزرگ کا بیان ہے کہ: ما اعلم للشافعی حدیثا خطاء (العبر فی خبر من غبر:۴/۳۴۴) مجھے امام شافعی کی کسی غلط حدیث کا علم نہیں۔ صاحب روضات نے لکھا ہے کہ: ان الشافعی اول من تکلم فی مختلف الحدیث وصنف فیہ (روضات الجنات:۴/۱۵۴) بلاشبہ امام شافعی پہلے شخص ہیں جنہوں نے مختلف الحدیث کے بارے میں کلام کیا اوراس فن میں کتاب تصنیف کی۔ امام محمد بن حسن کا ارشاد ہے۔ ان تکلم اصحاب الحدیث یوماً فبلسان الشافعی (توالی التاسیس :۵۴) اصحاب حدیث ہمیشہ امام شافعیؒ ہی کی زبان میں کلام کریں گے۔ فقہ اسی طرح امام صاحب فقہ میں بھی مجتہدانہ مقام رکھتے تھے،ان کی کتابیں الرسالۃ اورکتاب الام اس کی شاہد عدل ہیں وہ فقہ کے تمام مراکز سے مستفید ہوئے تھے،مثلاً مکہ کے رئیس الفقہ ابن جریج کی کتابوں کو ان کے شاگردوں مسلم بن خالد اور سعید بن سالم سے پڑھا،مدینہ کے رئیس الفقہ،امام مالک کی فقہ کے علوم کو ان کے تلمیذ رشید امام محمد سے حاصل کیا،اسی طرح امام شافعی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ علوم اہل الرائے اوراہل الحدیث کے جامع ہیں (معجم الادباء:۶/۳۸۹) امام احمد فرماتے ہیں کہ: کان الفقہ قفلا علی اھلہ حتی فتحہ اللہ بالشافعی (ایضاً:۳/۳۸۰) فقہ فقیہوں کے لیے ایک قفل تھا،جس کو اللہ تعالی نے امام شافعیؒ کے ذریعہ کھولا۔ جامعیت غرض امام صاحب کے حدیث وفقہ اوردیگر علوم میں تبحر کا یہ عالم تھا کہ یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ وہ کس فن میں خصوصی ملکہ رکھتے تھے،یونس بن عبدالاعلیٰ کا بیان ہے کہ جب امام شافعی عربیت کے متعلق گفتگو فرماتے تو میں کہتا کہ آپ اس میں ماہر ہیں،جب شعر وادب میں گہرافشانی کرتے تو میں ان کو اسی کا سب سے بڑا عالم سمجھتا اورجب فقہی مباحث کو بیان کرتے تو اسی میں سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والا سمجھتا۔ ہارون سعید کا قول ہے کہ اگر امام شافعی پتھر کے ستون کو لکڑی کا ثابت کرنا چاہیں تو بخدا انہیں اس بات پر قدرت حاصل ہے۔ (تاریخ بغداد:۲/۶۷) فصاحت امام صاحب کو ہذلیین کے دس ہزار اشعار زبانی یاد تھے،قبیلہ ہذیل میں مدت دراز تک رہنے کی وجہ سے امام صاحب بھی نہایت فصیح اللسان ہوگئے تھے،عبداللہ بن احمد کا قول ہے کہ "کان الشافعی من افصح الناس" (الانتقاء لابن عبدالبر:۹۳) یونس کہتے ہیں کہ امام شافعی کے الفاظ میں نشہ کی سی مستی ہوتی تھی،جب ہم ان کے حلقہ میں بیٹھ کر گفتگو سنتے تو معلوم ہوتا جیسے وہ سحر کررہے ہوں (معجم المصنفین:۲/۲۶۹) بشر المریسی کا بیان ہے: کان لسانہ ینظم الدر (مرأۃ الجنان:۲/۱۹) ان کی زبان موتی پروتی تھی۔ ابن ہشام نحوی فرماتے ہیں کہ: طالت مجالستنا للشافعی فما سمعت منہ لحنہ قط ولا کلمۃ غیرھا احسن منھا (معجم الادباء:۶/۳۸۸) میں بہت دنوں تک امام شافعی کی صحبت میں رہا میں نے ان سے کبھی زبان کی غلطی نہیں سُنی اورنہ کوئی ایسا کلمہ سنا جس سے بہتر دوسرا کلمہ کہا جاسکتا ہو۔ زعفرانی کا قول ہے کہ میں نے امام شافعی سے زیادہ فصیح البیان کسی کو نہیں دیکھا۔ (الانتقار:۹۲) فصاحت وبلاغت کے ساتھ امام صاحب لسانیات اورلغت میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے اس میں ان کے کلام کو سند کے طور پر پیش کیا جاتا تھا،ابن ہشام صاحب المغازی جیسی شخصیت نے ‘کان الشافعی حجۃ فی اللغۃ’(الانتقاء:۹۲)کے الفاظ میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ ایک دوسرے بزرگ کا قول ہے "الشافعی کلامہ لغۃ ٰاحتج بھا" (معجم الادباء:۱/۳،۹) امام شافعیؒ اورعلم اصول فقہ امام شافعی کا سب سے عظیم کارنامہ اصول فقہ کی ایجاد ہے،فن کی شکل میں سب سے پہلے انہی نے اس کی بنیاد رکھی،اسنوی کا قول ہے کہ: ان الشافعی ھواول من صنف فی اصول الفقہ باجماع (شذرات الذہب:۲/۱۰،ابجد العلوم:۳۲۶ وکشف الظنون:۲/۳۳۶) امام شافعی نے بالاتفاق اصول فقہ میں سب سے پہلے تصنیف کی۔ علامہ فخر الدین رازی نے لکھا ہے کہ باتفاق امت امام صاحب اصول فقہ کے بانی ہیں اورانہی نے اس علم کے ابواب مرتب کیے اورقوت وضعف کے مراتب کی تشریح کی (البحر المحیط بحوالہ امام شافعی :۶۱) علماء کا بیان ہے کہ اصول فقہ کی نسبت امام شافعی کی طرف بالکل اسی طرح ہے جیسے منطق کی ارسطاطا لیس کی طرف۔ (مرأۃ الجنان :۲/۱۸) بدرالدین زرکشی کہتے ہیں کہ امام شافعیؒ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اصول فقہ میں تصنیف کی،اس فن میں انہوں نے کتاب الرسالۃ،کتاب احکام القرآن،اختلاف الحدیث، ابطال الاحسان ،کتاب اجماع العلم،اورکتاب القیاس لکھ کر اہل علم سے خراج تحسین حاصل کیا۔ (البحر المحیط بحوالہ امام شافعی:۶۱) علامہ ابن خلدون رقمطراز ہیں ،امام شافعیؒ کو اصول فقہ کے مدون کرنے میں اولیت حاصل ہے،اس فن میں انہوں نے اپنا مشہور رسالہ "الرسالہ" تصنیف کیا جس میں انہوں نے اوامرونواہی کا بیان اورخبر ونسخ اورقیاس سے علتِ منصوصہ کے حکم کے بارے میں کلام کیا ہے،پھر اس کے بعد حنفی فقہاء نے اس فن میں کتابیں لکھیں۔ (مقدمہ ابن خلدون:۱/۴۹۸) ان بیانات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ امام شافعیؒ ہی کو اصولِ فقہ کے بانی اورواضع ہونے کا شرف حاصل ہے،بعض علماء کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ اس فن میں پہلے امام محمدؒ نے کتاب لکھی۔ مستشرقین یورپ نے بھی امام صاحب کو اس فن کا پہلا مصنف قرار دیا ہے، گولڈ زیہر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں لفظِ "فقہ" کے تحت لکھتا ہے: "محمد بن ادریس اشافعی کی خصوصیات میں سے ہے کہ انہوں نے مسائلِ شرعیہ کو مستنبط کرنے کے ضوابط وضع کیے اورتمام اصولوں کی حد بندی کی اپنے رسالہ میں قیاس عقلی کے ایسے اصول ایجاد کیے جن کی طرف قانون سازی کے وقت رجوع کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان گونا گون خصوصیات کی بنا پر امام احمد نے بجا فرمایا تھا الشافعی للعلم کالشمس للدنیا وکالعافیۃ للبدن ھل لھذین من خلف اوعنھا عوض (الدیباج المذہب:۲۲۹،ومرأۃ الجنان:۲/۱۷) امام شافعی کی حیثیت علم کے لیے ایسی ہی تھی جیسے دنیا کے لیے سورج کی اورجسم کے لیے صحت کی کیا ان دونوں کا کوئی بدل ہوسکتا ہے۔ تصانیف امام صاحب نے مختلف علوم وفنون میں بکثرت کتابیں لکھیں جن کی تعداد کے متعلق متضاد بیانات ہیں،حافظ ابن حجرؒ نے ڈیڑھ سو کتابوں کے نام شمار کرائے ہیں (توالی التاسیس:۱۱۶) ابن ندیم نے ایک سو پانچ،اورابن زولاق نے دوسو تک کتابوں کی تعداد بتائی ہے (شذرات الذہب:۲/۱۰)ایسے کثیر التصانیف مصنف کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے،ان تمام تصانیف میں سے اکثر تو "کتاب الام" مطبوعہ مصر میں یکجا شائع ہوچکی ہیں(معجم الادباء:۶/۳۹۸)اور بعض مخطوطہ شکل میں مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ امام صاحبؒ کے قولِ قدیم کی کتابوں میں "کتاب الحجۃ"مشہور ہے جو انہوں نے بغداد کے آخری قیام کے زمانہ میں تصنیف کی تھی،اس کے سبب تالیف کے متعلق خود بیان فرماتے ہیں کہ میرے پاس محدثین کی ایک جماعت آئی اورمجھ سے درخواست کی کہ میں امام ابو حنیفہؒ کی کتاب کارد لکھوں میں نے ان سے کہا کہ جب تک میری نظر سے امام اعظمؒ کے مذہب سے متعلق تمام کتابیں نہ گزرجائیں میں ان کے اقوال سے پوری طرح واقف نہیں ہوسکتا؛چنانچہ میرے پاس امام محمد بن حسن شیبانی(صاحب ابی حنیفہؒ) کی کتابیں لائی گئیں جن کا میں نے ایک سال تک بغور مطالعہ کیا،حتیٰ کہ وہ مجھے زبانی یاد ہوگئیں،ان کے مطالعہ کے بعد میں نے اپنی بغدادی کتاب "الحجۃ" تصنیف کی۔ (توالی التاسیس :۷۶) حاجی خلیفہ نے "کتاب الحجۃ" کے متعلق لکھا ہے کہ: ھو مجدد ضخم الفہ بالعراق اذا طبق القدیم من مذھبہ یراد بہ ھذا لتصنیف (کشف الظنون:۱/۴۲) یہ ایک ضخیم کتاب ہے جو عراق میں لکھی گئی ،جب مطلق مذہب قدیم بولا جائے تو اس سے یہی کتاب مراد لی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ امام شافعیؒ کی تین کتابیں جو مذہب جدید سے متعلق ہیں بہت مشہور اورامتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ ۱۔کتاب الام: یہ کتاب امام شافعی کے مذہب جدید کی اہم تصنیف ہے،امام الحرمین وغیرہ کا خیال ہے کہ یہ امام صاحب کی قدیم کتابوں میں ہے،لیکن یہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس کی روایت ربیع بن سلیمان المرادی نے کی ہے،جو مصری (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۰۲۵۲) ہیں یہ کتاب پندرہ جلدوں میں ہے جس کے کتب (ابواب واجزاء) کی تعداد مجموعی طور پر ایک سو پچاس ہیں (کشف :۲/۲۵۲) کتاب الطہارۃ سے آغاز ہوا ہے۔ کتاب الام کو امام شافعی کے شاگرد رشید ربیع بن سلیمان مرادی نے روایت کیا ہے (معجم المطبوعات:۱/۴۶۹)لیکن خلیفہ چلپی نے اس کی تغلیط کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت اس کے راوی بولیطی ہیں، مگر انہوں نے اپنا نام ذکر نہیں کیا ،ربیع بن سلیمان نے صرف اس کی تبویب کی ہے اسی بناپر نفسِ کتاب کو بھی ان ہی کی طرف منسوب کردیا گیا۔ (کشف الظنون:۲/۲۶۶) صاحب کشف الظنون کی یہ تحقیق سوء تفاہم پر مبنی ہے،اصل میں پوری کتاب تو ربیع بن سلیمان ہی نے امام صاحب سے روایت کی ہے، لیکن ابتداء کی چند روایات بواسطہ بولیطی منقول ہیں،شاید اسی اشتباہ کی بناپر حاجی خلیفہ نے پوری روایت کو بولطی کی روایت قراردے دیا،علامہ ابن ندیم نے بھی لکھا ہے کہ رواہ عن الشافعی الربیع بن سلیمان (الفہرست لا بن ندیم :۲۹۵) کتاب الامام کے حاشیہ پر مزنی (المتوفی ۲۶۵ھ کی مختصر کبیر بھی مندرج ہے یہ کتاب سب سے پہلے مطبعۃ الکبری الامیر یہ بولاق مصر سے ۱۳۲۱ھ میں شائع ہوئی۔ (معجم المطبوعات:۱/۴۶۹) ۲۔الرسالۃ:یہ کتاب اصول فقہ میں ہے امام الجرح والتعدیل عبدالرحمن ابن مہدی نے امام شافعیؒ سے درخواست کی تھی کہ ایک ایسی کتاب تصنیف کیجئے ،جس میں کتاب وسنت اوراجماع وقیاس سے استدلال کے شرائط ،ناسخ و منسوخ اورعموم وخصوص کے مراتب کا بیان ہو،اس فرمائش پر امام شافعی نے "الرسالۃ" تصنیف فرمائی(تاریخ بغداد:۲/۵۶،وشذرات الذہب:۲/۱۱ ومعجم الادباء :۶/۸۸،وحسن المحاضرہ:۱/۱۲۲)اوراسے عبدالرحمن بن مہدی کے پاس بھیجا،انہوں نے پڑھ کر بے ساختہ فرمایا"ماظننت ان اللہ خلق مثل ھذالرجل" (مرأۃ الجنان:۲/۱۸) نیز وہ کہا کرتے تھے کہ میں ہر نماز کے بعد امام شافعیؒ کے لیے دعا کرتا ہوں۔ (کتاب الانساب للسمعانی :۳۲۵) صاحب المعجم کتاب الرسالۃ کے متعلق لکھتے ہیں:"ھو اول کتاب الف فی ھذا العلم" اس کا پہلا ایڈیشن مصر سے ۱۳۱۰ھ میں شائع ہوا،امام صاحب کے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد نے اس کتاب کی ہے،اس کے شارحین میں ابوبکر محمد بن عبداللہ الشیبانی (المتوفی۳۸۸ھ)امام شافعی (المتوفی ۳۳۰ھ)کے نام مشہو ر وممتاز ہیں۔ ۳۔مسندِ شافعی:یہ کتاب احادیث مرفوعہ پر مشتمل ہے جن کو خود امام شافعی اپنے تلامذہ کے روبرو سند کے ساتھ روایت کیا کرتے تھے، یہ امام صاحب کی اپنی تصنیف نہیں ہے؛بلکہ کتاب الام اورمبسوط میں جو احادیث ربیع بن سلیمان اورمزنی سے مروی ہیں، ابو جعفر محمد بن مطرنے ان کا انتخاب مسند امام شافعی کے نام سے کردیا ہے؛چونکہ کتاب الام کی احادیث ابوالعباس محمد بن یعقوب اصم نے ربیع بن سلیمان (جوا مام شافعی کےبلاواسطہ شاگرد ہیں) سے سُن کر جمع کی تھیں اسی لیے مسند کے جامع کی حیثیت سے بھی وہی مشہور ہیں،بعض علماء کا قول ہے کہ خود ابو العباس نے ان حدیثوں کا انتخاب کیا تھا اور محمد بن مطرف صرف اس کے کاتب تھے،یہ مسند نہ تو مسانید ہی کی ترتیب پر ہے نہ ابواب کی؛بلکہ کیف ما اتفق انتخاب کرکے حدیثوں کو جمع کردیا گیا ہے،اس لیے اس میں تکرار بہت زیادہ ہے۔ (بستان المحدثین:۳۰) حاجی خلیفہ لکھتے ہیں کہ ابن عبداللہ علم الدین جلولی نے اس کو مرتب کیا ہے اور ایک بڑی جماعت نے اس کی شروح لکھی ہیں، جن میں ابن اثیر الجرزی (المتوفی:۶۰۶ھ)کی شرح "کتاب شافی العینی فی شرح مسند الشافعی"پانچ جلدوں میں علامہ رافعی قزوینی (المتوفی ۶۲۳ھ) کی الشرح الکبیر دو جلدوں میں اور حافظ سیوطی کی "شرح الشافی العینی علی مسند الشافعی" مشہور ہیں،شیخ زین الدین جلبی نے المنتخب المرضی من مسند الشافعی کے نام سے اس کا انتخاب بھی کیا ہے۔ (کشف الظنون:۲/۴۳۳،ومقدمہ تحفۃ الاحوذی:۲۷) دو حدیثیں اورامام شافعی دوسرے مذاہب پر شافعی مذہب کی برتری پر ائمہ شوافع دوحدیثوں سے استدلال کرتے ہیں،جس سے اس کی فوقیت ثابت ہوتی ہو یا نہیں؛ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ امام شافعی کی عظمت اورجلالتِ شان کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔ پہلی حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم اھد قریشا العالم منھم فان علم العالم منھم یسمع طباق الارض اللھم اذقت اولھا نکالا فاذق آخرھا نوالا (توالی التاسیس:۴۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدایا قریش کو ہدایت عطا فرما،اس خاندان کا عالم روئے زمین کو مالا مال کردے،خدایا پہلے تونے ان پر عذاب نازل کیا اب ان پر انعام کی بخشش فرما۔ اس حدیث کی سند کے متعلق علامہ ابن حجرؒ لکھتے ہیں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول" فان علم العالم منھم یسع طباق الارض" سے مراد ملت کا ایسا قریشی عالم ہے جس کا علم پوری دنیا میں پھیل جائے اوراس کی تالیفات مصاحف کی طرح لکھی جائیں،اس کے اقوال زبان زدخلائق ہوں،ہم کو امام شافعی کے علاوہ کسی ایسے شخص کا پتہ نہیں چلتا جو مذکورہ صفات کا حامل ہو۔ (تاریخ بغداد:۲/۶۱) ابو نعیم جرجانی فرماتے ہیں کہ "قریشی صحابہ اورتابعین میں سے ہر اہلِ علم کا علم اگرچہ بہت پھیلا،لیکن اس کی کثرت،شہرت اوراشاعت پورے ربع مسکون میں اتنی نہ ہوسکی،جتنی امام شافعیؒ کے علوم کی، اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ اس حدیث کے مصداق امام صاحبؒ ہی ہیں۔ (توالی التاسیس:۴۷) اور اس میں شک نہیں کہ امام شافعیؒ کے علوم اورمذہب کو جو فروغ حاصل ہوا اس کی مثال حنفی مذہب کے سوا نہیں مل سکتی،عالمِ اسلام کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے،جہاں اس مذہب کا کوئی مدرس ،مفتی،یا مصنف موجود نہ ہو، امام احمدؒ فرماتے ہیں: اذاسألت عن مسألۃ لا اعرف فیھا خبراً قلت فیھا بقول الشافعی لانہ امام عالم من قریش (توالی التاسیس:۴۸) جب بھی مجھ سے کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا گیا جس میں مجھے کوئی حدیث نہ ملی تو میں نے امام شافعیؒ کے قول کے مطابق فتوی دیدیا کیونکہ وہ امام عالمِ قریش ہیں۔ دوسری حدیث تجدید دین سے متعلق ہے،حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ علیٰ رأس کل مائۃ سنۃ من یجد دلھا دینھا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر میں اس امت کے لیے ایک شخص کو مبعوث کرتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کرتاہے۔ اسی حدیث کو ابوداؤد نے اپنی سنن اورحاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے، شیخ علی متقی نے بھی بیہقی کی معرفۃ السنن والآثار کے حوالہ سے اس کو نقل کیا ہے۔ (کنزالعمال:۶/۲۳۸) ملا علی قاری نے اس کی سند کو صحیح اور اس کے کل رواۃ کو ثقہ قراردیا ہے۔ (مرقات المفاتیح:۱/۲۴۸) جس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ وہ پہلی صدی کے مجدد ہیں، اسی طرح باتفاق محققین دوسری صدی کے مجدد اورامام شافعیؒ ہیں،انہوں نے بدعات کا قلع قمع کرکے سنت کا بول بالا کیا اور تمام روئے زمین کو قال اللہ وقال الرسول کے ترانوں سے معمور کردیا۔ امام احمد بن حنبل اس حدیث کو مختلف طرق سے روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں،ہم نے غور کیا تو یہ دیکھا کہ پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ ہیں اور دوسری صدی کے امام شافعیؒ اوردونوں خاندانِ رسولﷺ(یعنی قریش) بھی ہیں۔ (مفتاح السعادۃ:۲/۹۵ وتوالی التاسیس:۴۸ ومعجم الادبا:۶/۳۸۹،وسیرت عمر بن عبدالعزیز جوزی:۶۰) اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ساتویں صدی تک کے تمام مجددین شافعی المذہب تھے۔ (مفتاح السعادۃ:۲/۹۰) تشیع کا الزام امام شافعیؒ پر تشیع کا الزام بھی لگایا گیاہے (الفہرست لابن ندیم :۲۷۹ دروضات الجنات:۴/۱۵۵)اس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ آپ آلِ رسولﷺ سے محبت رکھتے تھے۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ امام شافعیؒ سے ایک مرتبہ کہا گیا کہ آپ میں تشیع کا رجحان پایا جاتا ہے،فرمایا وہ کیسے؟ کہا گیا کہ آپ آلِ رسولﷺ کی محبت کا اظہار کرتے ہیں،آپ نے جواب دیا: لوگو! رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: لایؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اورولد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ نیزار شادِ گرامی ہے"ان اولیائی من عترتی المتقون"تو جب مجھ پر اپنے متقین اقرباء واعزہ سے محبت کرنا لازم ہے تو کیا یہ بات دین میں سے نہیں ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے متقی اقرباء سے محبت کروں؛کیونکہ آپ ﷺ بھی ان سے محبت فرمایا کرتے تھے۔ ان کان رفضا حب اٰلِ محمد فلیشھد الثقلان انی رافضی (الانتقاء لا بن عبدالبر:۹۱) اگر آل بیت کی محبت ہی کا نام رفض ہے تو اے جن وانس تم گواہ رہو کہ میں رافضی ہوں۔ ایک شخص نے امام احمد بن حنبل سے کہا:"اے ابو عبداللہ،یحییٰ بن معین اورابو عبیدہ امام شافعیؒ کی طرف تشیع کا انتساب کرتے ہیں"،امام احمدؒ نے جواب دیا:"وہ کیسی بات کرتے ہیں،بخدا مجھے امام شافعیؒ سے بھلائی ہی کی امید ہے،پھر ہم نشینوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ"جب کسی اہلِ علم کو حق تعالیٰ بلند مرتبہ عطا فرمادیتا ہے اوراس کے معاصرین وہم عمر اس سے محروم رہتے ہیں تو وہ اس پر رشک وحسد کرتے ہیں اوربے بنیاد الزامات لگاتے ہیں،اہلِ علم میں یہ کتنی بُری خصلت ہے۔ (مناقب الامام الشافعی للرازی:۳۷) خود امام شافعی کی تردید اورامام احمد کے مذکورہ بالا بیان سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ تشیع کا الزام محض معاصرانہ رشک وحسد کا نتیجہ ہے۔