انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۵)حضرت علی مرتضیٰ ؓ (۴۰ھ) آپؓ بلاشبہ شہرِ علم کا دروازہ تھے، کوفہ آپؓ کی مسندِ علمی تھا اور وہیں آپؓ کی مسندِ خلافت تھی، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) پہلے سے ہی کوفہ میں فقہ وحدیث کا درس دے رہے تھے، اُن کی وفات سے کوفہ میں جوعلمی خلا پیدا ہوگیا تھا، حضرت علیؓ کے وہاں جانے سے کسی حد تک پورا ہوگیا؛ لیکن حضرت علیؓ کے گرد کچھ ایسے لوگ بھی جمع تھے جوعبداللہ بن سبا یہودی کے ایجنٹ تھے اور سبائی سازش کے پروگرام کے تحت مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے؛ اُنھوں نے حضرت علیؓ کے نام سے اتنی روایات بنائیں کہ اُن کی ہرروایت مشتبہ ہونے لگی کہ حضرت علیؓ نے ایسا کہا ہوگا یا نہ کہا ہوگا؛ سواحتیاط اسی میں سمجھی جاتی رہی کہ حضرت علیؓ کی وہی روایات سبائی سازش سے محفوظ سمجھی جائیں، جوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد حضرت علیؓ سے نقل کریں، کوفہ کا یہی علمی حلقہ قابلِ اعتماد رہ گیا تھا، اس علمی حلقہ کوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے علاوہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت موسیٰ اشعریؓ نے بھی جِلابخشی تھی اور وہاں کے لوگوں کوان حضرات سے علمی استفادہ کا پورا موقع مل چکا تھا، حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: "کان اہل الکوفۃ قبل ان یأتیہم (علی) قداخذوا الدین عن سعد بن ابی وقاص وابن مسعود وحذیفۃ وعمار وابی موسیٰ وغیرہم ممن ارسلہ عمر الی الکوفہ"۔ (منہاج السنۃ:۴/۱۵۷) یہ وہ نابغۂ روزگار ہستیاں تھیں جوحضرت عمرؓ کے حکم سے اس سرزمین میں اُتری تھیں اور کوفہ کودارالفضل ومحل الفضلاء بنادیا تھا (شرح صحیح مسلم للنووی:۱/۱۸۵) افسوس کہ یہ سرزمین حضرت علیؓ کے علوم کواچھی طرح محفوظ نہ رکھ سکی اور حضرت علیؓ کے نام سے بہت سی روایات یونہی وضع کرلی گئیں، سبائیوں نے اپنی مذکورہ سازش سے مسلمانوں کو جوسب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ حضرت علیؓ کے نام سے روایات گھڑ کر اُن کی اصل روایات کوبھی بہت حد تک مشتبہ کردیا اور اس طرح امت علم کے ایک بہت بڑے ذخیرے سے محروم ہوگئی، محققین کے نزدیک فقہ جعفری حضرت علیؓ یاحضرت امام جعفرصادقؒ کی تعلیمات نہیں ہیں؛ بلکہ یہ وہ ذخیرہ ہے جوسوادِ اعظم سے اختلاف کرنے کے لیئے ان حضرات کے نام سے وضع کیا گیا ہے؛ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ حضرت علیؓ کی مرویات اور اُن کے اپنے فقہی فیصلے اہلسنت کی کتب فقہ وحدیث میں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں او راُن کے ہاں حضرت سیدنا علی مرتضیؓ فقہائے صحابہؓ میں ایک عظیم مرتبہ رکھتے تھے، حضرت علیؓ جب کسی سے حضورﷺ کی کوئی حدیث سنتے تواُسے قسم دیتے، بغیرقسم اسے قبول نہ کرتے تھے؛ لیکن قسم لینا محض مزید اطمینان کے لیئے ہوتا تھا نہ اس لیئے کہ اُن کے نزدیک اخبار احاد قابلِ قبول نہیں تھیں، ہاں حضرت ابوبکرؓ ایسی شخصیت ہیں کہ اُن کی روایت کوحضرت علیؓ ان کے شہرۂ آفاق صدق کے باعث فوراً قبول کرلیتے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰) حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی آپؓ نے ایک دفعہ بغیر قسم لیئے قبول کرلی تھی، آپؓ کی قوتِ فیصلہ خدا تعالیٰ کا ایک بڑا عطیہ تھا کہ کسی امت میں اس کی مثال نہیں ملتی؛ خود آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: "أقْضَا ھُمْ عَلِیٌ" (مشکوٰۃ:۳۶۵) کہ صحابہؓ میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علیؓ ہیں، آپﷺ نے انہیں ایک مرتبہ یمن کا قاضی بھی بنایا تھا (مشکوٰۃ:۳۶۶) علامۃ التابعین عامر بن شرحبیل شعبیؒ (۱۰۳ھ) کہتے ہیں کہ اس عہد میں علم ان چھ حضرات سے لیا جاتا تھا: (۱)حضرت عمرؓ (۲)حضرت علیؓ (۳)حضرت ابی بن کعبؓ (۴)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۵)حضرت زید بن ثابتؓ (۶)حضرت موسیٰ اشعریؓ، یادرکھیے کہ حضرت علیؓ کوحضورؐ نے انتظامیہ (خلافت) کی بجائے عدلیہ (قضاء) کے زیادہ مناسب ٹھہرایا ہے۔