انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تعارفِ حدیث حدیث کی لغوی تعریف حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں،علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں: ‘‘اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ ’’۔ حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ وہ مختصر ہو یا مفصل۔ حدیث کی اصطلاحی تعریف حضورﷺ کےاقوال ،افعال اور تقریرات کے مجموعہ کو حدیث کہتے ہیں،اقوال سے مراد آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلےہوئے کلمات ہیں،افعال سے مراد آپﷺ کے اعضاءسے ظاہر شدہ اعمال ہیں اور تقریر سے مراد: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پر سکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تو اسی تصدیق کو ‘‘تقریر’’ confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے۔ حدیث کی حیثیت قرآن کریم میں شریعتِ اسلامیہ کی اساس اور بنیاد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ہے ؛چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بحیثیتِ مطاع (یعنی جس کی اطاعت کی جائے) پیش کیا ہے، فرمانِ باری ہے: (۱)‘‘یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُو اللہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ’’۔ (محمد:۳۳) اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی طرح حضورﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کی بھی اتباع کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ نے مستقل طور سے اس کا حکم دیا ہے۔ (۲)نیز ارشاد خدا وندی ہے:‘‘وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ’’۔ (النحل:۴۴) اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی جو ذمہ داری لی ہے اس کی تکمیل رسول اللہﷺ کریں گے، آپ کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوگا اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ آپﷺ نے قرآن کی تبیین وتشریح وحی کے ذریعہ فرمائی ہو ورنہ اس کو اللہ کا بیان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ (۳)ایک اور جگہ ارشاد ہے‘‘وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوْحَی‘‘۔ (النجم:۳،۴) اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔ (۴)نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:‘‘وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’۔ (الحشر:۷) رسول تم کو جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دیں رک جاؤ۔ ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر حدیث کا مقام معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کو وحی الہٰی سے تعبیر فرمایا اور امت کو حکم دیا کہ حضور اکرم ﷺ جس بات کا حکم دیں اس کو اختیار کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔ احادیث میں حدیثِ رسولﷺ کی حیثیت (۱)آپﷺ کی ارشاد ہے:"أَلَاإِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔ (ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۸) خبردار رہو کہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (۲)حدیث کے حفظ اور یادداشت کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام) اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔ (۳)ایک اور حدیث میں ہے:فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ (مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام) جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔ خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں۔ علاوہ ازیں ایک حدیث میں ہے: (۴)‘‘كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كماينزل عليه بالقرآن، ويعلمه إياها كمايعلمه القرآن’’۔ (مراسیل ابوداؤد، باب فی البدع، حدیث نمبر:۵۰۷) حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنتوں کا علم لے کر ایسے ہی نازل ہوتے تھے جیسے قرآن آپﷺ پر لےکرنازل ہوتے تھےاور اس کو ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے قرآن کو سکھاتے تھے۔ ان میں واضح طور پر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کی طرح وحی ہیں، احکامِ اسلامیہ پر عمل کے لیےحدیث کی ضرورت اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اور قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کےلیےاحادیث کا علم ضروری ہے ، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اسی ۸۰/سے زیادہ جگہوں میں نماز کا حکم دیا گیا، کہیں ‘‘اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ’’(نماز قائم کرو) کہا گیا ہے تو کہیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوۃ’’ (نماز کو قائم کرتے ہیں)کہا گیا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ نماز کس چیز کا نام ہے؟قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ کس طرح کیا جاتا ہے،اس کی ترکیب کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کہیں یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے؛ البتہ قرآن میں نماز کے ارکان کا مختلف الفاظ سے مختلف جگہ تذکرہ آیا ہے، نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے تمام ارکان کو جمع کرکے اس کوادا کرنے کا طریقہ بتایا ؛ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، آداب، مکروہات اور ممنوعات ہرایک کو تفصیل سے بیان کیا؛ اسی طرح نماز مسجد میں قائم کرنے کا حکم دیا ؛تاکہ نماز کا اہتمام ہو اور اذان وجماعت کا نظام بنایا، امام ومؤذن کے احکام بیان کئے اور پانچوں نمازوں کے اوقات متعین کئے اور ان اوقات کے اوّل وآخر کو بیان کیا؛ غرض تقریباً دوہزار حدیثیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ’’ کی تفسیر کرتی ہیں ان دوہزار احادیث کو اگر ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصّلٰوۃ’’ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو اقامتِ صلوٰۃ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، اور صرف نماز ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے تمام تفصیلی احکامات کا علم احادیث ہی سے مکمل ہوتا ہے۔ حدیث پڑھنے کا فائدہ حدیث پڑھنے والا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک نورانی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بار بار درود شریف پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، جو سعادتِ دارین کا باعث ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں، اس طرح علم حدیث کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس سے زندگی میں نبوی طریقوں پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے جس کا اللہ نے قرآن میں ‘‘اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ’’ (رسول کی اطاعت کرو)کے ذریعہ حکم دیا ہے، جب کسی ذاتِ بابرکت کے حالات کا عرفان ہوتا ہے تو اس کی تعلیمات پر چلنا اور احکامات کو بجالاناآسان ہوجاتا ہے،حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا حضور ﷺ کی اس دعا میں شامل ہوجاتا ہے: اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔ تدوینِ حدیث حدیث کی عظمت وفضیلت اور زندگی کے ہرشعبہ میں اس کی ضرورت کے پیشِ نظر حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا اہتمام زمانۂ رسالت ہی سے کیا گیا؛ چنانچہ احادیث کی تحریر سے قطعِ نظرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے علم حدیث کے اصول اور حفظ وضبط کے لیے اللہ کی عطا کردہ غیرمعمولی حافظہ کی تیزی اور ذہن کی سلامتی کا سہارا لیا۔ حفاظتِ حدیث کے طریقے عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حفاظتِ حدیث کے لیے تین طریقے (حفظِ روایت، تعامل اور تحریر وکتابت) اپنائے گئے تھے جو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔ حفظِ روایت حفاظتِ حدیث کا پہلا طریقہ احادیث کو یاد کرنا ہے اور یہ طریقہ اس دور کے لحاظ سے انتہائی قابل اعتماد تھا، اہلِ عرب کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حافظے عطا فرمائے تھے، وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے ازبر یاد کرلیا کرتے تھے، ایک ایک شخص کو ہزاروں اشعار حفظ ہوتے تھے ،یہی نہیں بلکہ؛یہ حضرات بسااوقات کسی بات کو صرف ایک بار سن کر یادیکھ کر پوری طرح یاد کرلیتے تھے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے سامنے عمر بن ابی ربیعہ شاعر آیا اور ستر اشعار کا ایک طویل قصیدہ پڑھ گیا، شاعر کے جانے کے بعد ایک شعر کے متعلق گفتگو چلی، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مصرعہ اس نے یوں پڑھا تھا، جو مخاطب تھا اس نے پوچھا کہ تم کو پہلی دفعہ میں کیا پورا مصرعہ یاد رہ گیا؟ بولے کہو تو پورے ستر شعر سنادوں اور سنادیا۔ علماء اسلام کا خیال ہے کہ علاوہ اس کے کہ عرب کا حافظہ قدرتی طور پر غیرمعمولی تھا یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق جس نے ‘‘وَإِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ’’ کا اعلان کیا تھا اسی نے قرآن کی عملی شکل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی حفاظت جن کے سپرد کی تھی ان کے حافظوں کو غیبی تائیدوں کے ذریعہ سے بھی کچھ غیرمعمولی طور پر قوی تر کردیا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو محفوظ کرنااپنے لیے راہِ نجات سمجھتےتھے، خاص طور پر جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان کے سامنے آچکا تھا: ‘‘نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فحفظھا ووعاھا واداھا کماسمع’’۔ (ترمذی، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، حدیث نمبر:۲۵۲۸۔ ابن ماجہ، باب من بلغ علی، حدیث نمبر:۲۲۶۔ مسنداحمد، حدیث جبیر بن مطعم، حدیث نمبر:۱۶۷۸۴۔ مسند شافعی، فدب حامل فقہ غیرفقیہ، حدیث نمبر:۱۱۱۵) اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔ طریقۂ تعامل حفاظتِ حدیث کا ایک اور طریقہ جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا وہ تعامل تھا ؛یعنی صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر بجنسھا عمل کرکے اسے یاد کرتے تھے، ترمذی شریف اور دیگر حدیث کی کتابوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انھوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا: ‘‘ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیَ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’ بلاشبہ یہ طریقہ بھی نہایت قابلِ اعتماد ہے اس لیے کہ انسان جس بات پر خود عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ ذہن میں اچھی طرح راسخ ہوجاتی ہے۔ طریقۂ کتابت حدیث کی حفاظت کتابت وتحریر کے ذریعہ سے بھی کی گئی ہے، تاریخی طور پر کتابتِ حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاتا ہے: (۱)متفرق طور سے احادیث کو قلمبند کرنا۔ (۲)کسی ایک شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یاد داشت کی ہو۔ (۳)احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب(ابواب) کے جمع کرنا۔ (۴)احادیث کو کتابی شکل میں تبویب (ابواب)کے ساتھ جمع کرنا۔ عہدِرسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکی تھیں، منکرینِ حدیث عہدِرسالت میں کتابتِ حدیث کو تسلیم نہیں کرتے اور مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کتب عنی غَیْرَالْقُرْآن فَلْیَمْحُہٗ’’ منکرینِ حدیث کا یہ کہنا ہے کہ حضورﷺ کا کتابتِ حدیث سے منع فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں حدیثیں نہیں لکھی گئیں؛ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث حجت نہیں؛ ورنہ آپ انھیں اہتمام کے ساتھ قلمبند فرماتے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتابتِ حدیث کی یہ ممانعت ابتداء اسلام میں تھی۔ ذیل میں ہم کتابتِ حدیث سے ممانعت کی وجوہ اور اس کے متعلق اعتراضات کے جوابات پیش کررہے ہیں،کاتبین کی سہولت کے باوجود عمومی طور پر حدیث کی کتابت اور تدوین کی جانب توجہ نہ دینے کے درجِ ذیل اسباب ہیں: (۱)اپنے فطری قوتِ حافظہ کی حفاظت مقصود تھی؛ کیونکہ قیدِ تحریر میں آجانے کے بعد یادداشت کے بجائے نوشتہ پر اعتماد ہوجاتا۔ (۲)قرآن کریم کے لفظ اور معنی دونوں کی حفاظت مقدم اور ضروری تھی اس لیے لکھنے کا اہتمام کیا گیا ،جب کہ حدیث کی روایت بالمعنی بھی جائز تھی؛ اس لیے حدیث کے نہ لکھے جانے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔ (۳)عام مسلمانوں کے اعتبار سے یہ اندیشہ تھا کہ قرآن اور غیرقرآن یعنی حدیث ایک ہی چمڑے یاہڈی پر لکھنے کی وجہ سے خلط ملط ہوسکتے ہیں؛ اس لیے احتیاطی طور پر رسول اللہﷺ نے قرآن کریم کے علاوہ احادیث نبویہ کو لکھنے سے منع فرمایا؛ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث جس میں کتابتِ حدیث سے ممانعت فرمائی گئی اسی مصلحت پر مبنی ہے۔ (۴)ابتداءِ اسلام میں تحریرِ حدیث کی ممانعت تھی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عوارضات کے ختم ہونے کے بعد تحریرِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے متعلق درجِ ذیل احادیث سے تائید ہوتی ہے: (۱)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا ،قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہﷺ سے لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ،ان پر بھی خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ‘‘اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ’’۔ (ابوداؤد،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ حدیث نمبر:۳۱۶۱) تم لکھتے رہو؛ کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق بات ہی کا صدور ہوتا ہے۔ (۲)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے سوائے عبداللہ بن عمرو کے؛ کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ (بخاری شریف، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲) (۳)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ایک انصاری شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ’’ (یعنی اسے لکھ لو)۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ، حدیث نمبر:۲۵۹۰) اس قسم کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ کتابتِ حدیث کی ممانعت کسی امرِعارض کی بناپر تھی اور جب وہ عارض مرتفع ہوگیا تواس کی اجازت؛ بلکہ حکم دیا گیا؛ اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے دور میں حدیث کے کئی مجموعے (جو ذاتی نوعیت کے تھے) تیار ہوچکے تھے، جیسے صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علی، کتاب الصدقہ، صحفِ انس بن مالک، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سعد بن عبادہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہم، یہ صحیفے اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابتِ حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا؛ لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں قرآن کی طرح تدوین واشاعتِ حدیث کا اہتمام نہیں ہوا؛ لیکن حضورﷺ کی زندگی عہدِ صحابہ میں بجائے ایک نسخہ کے ہزاروں نسخوں کی صورت میں موجود ہوچکی تھی اس اعتبار سے تدوینِ حدیث کی ایک صورت خود صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تھی۔ مدوّنِ اوّل سب سے پہلے حدیث کی تدوین اور اس کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکومت کی جانب سےحکم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ(۱۰۱ھ) نے دیا ہے، آپ کے مبارک دور میں احادیث کی باضابطہ تدوین کی تحریک پیدا ہوئی ہے، اس لیے کہ اب قرآن کریم سے احادیث کے اختلاط والتباس کا اندیشہ نہ تھا، صحیح بخاری میں ہے۔ (۱)َكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ..الخ (بخاری،باب کیف یقبض العلم،۱۷۵/۱) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ آنحضرتﷺ کی احادیث پر نظر رکھیں اورانہیں لکھ لیں؛کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا ڈر ہے الغرض اس طرح تدوینِ حدیث کے اس اہم کام کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں پہلی ہجری کے آخر میں حدیث کی بہت سی کتابیں وجود میں آگئی تھیں، جیسے: کتب ابی بکر، رسالہ سالم بن عبداللہ فی الصدقات، دفاتر الزھری، کتاب السنن لمکحول، ابواب الشعبی۔ یہ حدیث کی کتابوں میں تبویب کی ابتداء تھی، دوسری صدی ہجری میں تدوینِ حدیث کا یہ کام نہایت تیزی اور قوت کے ساتھ شروع ہوا؛ چنانچہ اس دور میں حدیث کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد بیس سے بھی زیادہ ہے جن میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں: کتاب الاثار لابی حنیفہ، المؤطا للامام مالک، جامع معمربن راشد، جامع سفیان الثوری، السنن لابن جریج، السنن لوکیع بن الجراح اور کتاب الزہد لعبداللہ بن المبارک، وغیرہ۔ تدوینِ حدیث کا کام تیسری صدی ہجری میں اپنے شباب کو پہونچ گیا جس کے نتیجہ میں اسانید طویل ہوگئیں، ایک حدیث کو متعدد طرق سے روایت کیا گیا؛ نیزشیوعِ علم کی بنا پر فن حدیث پر لکھی گئی کتابوں کو نئی تبویب اور نئے انداز سے ترتیب دیا گیا اس طرح حدیث کی کتابوں کی بیس سے زیادہ قسمیں ہوگئیں پھر اسماء الرجال کے علم نے باقاعدہ صورت اختیار کرلی اور اس پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں؛ الغرض اسی دور میں صحاحِ ستہ کی بھی تالیف ہوئی جس سے آج تک امت مستفید ہورہی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا آغاز زمانۂ رسالت ہی سے ہوگیا تھا اور حدیث کی حفاظت کے لیے حفظِ روایت، طریقۂ تعامل اور تحریر سے کام لیا گیا،اور تیسری صدی ہجری تک حدیثوں کوپورے طور پرمدون کردیا گیا۔ سنت اور حدیث میں فرق سنت کا لفظ عمل متوارث پر آتا ہے اس میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہتا،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ ؛مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے. (اٰثار الحدیث:۶۲) حدیث میں درجہ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ فتوحات کی کثرت کی بنا پر جب مختلف قبیلوں اور دور دراز علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف جگہوں میں قیام پذیر ہوگئے، اس طرح مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کے حامل کبارِ صحابہ اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے جس کے نتیجہ میں علمِ حدیث کے حاملین کی کمی ہونے لگی، دھیرے دھیرے حق کے خلاف باطل سرابھارنے لگا ،لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں اپنی طرف سے بناکرحضور اکرم ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے لگے،مثلاً بددین لوگوں نے اپنے عقائد کے تائید میں،سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے پیشوا کی فضیلت اور مخالفین کی مذمت میں،بادشاہوں کو خوش کرنے کی لیےاورغیر محتاط مقررین اپنی تقریر میں رنگ جمانے کے لیے حدیثیں گڑھنےلگے،تو ان نازک حالات کے پیشِ نظر علماءِ وقت نے حدیث کی تدوین نیز اسے کتابی شکل میں لانے کی ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ علماء اور طالبینِ حدیث اس کام کے لیے کمربستہ ہوگئے، انہوں نے حدیث کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر دوردراز کے متعدد اسفار کئے، اس وقت محدثین کرام علمِ حدیث کی خدمت کو شب بیداری سے افضل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس اہم کام کے لیے صرف کردیا،اور من گھڑت روایتیں پیش کرنے والے راویوں کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا،صحیح اور موضوع روایتوں کو الگ الگ کردیا،صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول مقرر کیے،جس کو حدیث کا علم کہتے ہیں ،ان علوم کو جانے بغیر کوئی شخص احادیث میں کلام نہیں کرسکتا۔ موجودہ زمانے میں احادیث پرصحیح یا ضعیف کا حکم لگانا موجودہ زمانے میں کسی حدیث کو علم حدیث میں مہارت کے بغیرصحیح یا ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ،اس لیے کہ کتابوں میں نقل کرنے سے پہلے ائمہ جرح وتعدیل راویوں کی پوری چھان بین کرتےتھے، ان کی صفات باوثوق ذریعے سے معلوم کرتے،اور علم حدیث کے تمام شرائط پر اس راوی اورروایت کو پرکھا اورجانچا جاتا تھا،اس کے بعد حدیث کا درجہ متعین کیا جاتا تھا،الغرض!ماہرین علم حدیث نے مجموعی طور پر جس حدیث کو ضعیف یا صحیح لکھا ہے ،موجودہ زمانہ میں اسی حدیث کو ضعیف یا صحیح کہا جاسکتا ہے- البتہ جن احادیث کے بارے میں صحت وضعف کا پتہ نہ چل سکے اور باوجود تلاش وجستجو کے کسی کی کوئی تصریح اس حدیث کے متعلق نے مل سکے تو پھر کتب اسماء رجال سے ہر راوی کے متعلق جملہ آراء کو جمع کیا جائے اور معتدل وحقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس کی روشنی میں کسی حدیث کے بارے میں صحت وضعف کا فیصلہ کیا جائے ؛یہی محتاط طریقہ ہے،بلا تحقیق وجستجو کے کسی حدیث پر حکم لگانا نہایت غلط طریقہ ہے۔ علوم حدیث مجموعی طور پر علم حدیث کی درج ذیل قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ ۱۔ نقل حدیث کی کیفیت و صورت ۔ نیز یہ کہ وہ کس کا فعل وتقریر ہے ۔ ۲۔نقل حدیث کے شرائط۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ نقل کی کیا کیفیت رہی ۔ ۳۔ اقسام حدیث باعتبار سند و متن ۔ ۴۔احکام اقسام حدیث ۔ ۵۔احوال راویان حدیث ۔ ۶۔ شرائط راویان حدیث ۔ ۷۔ مصنفات حدیث ۔ ۸۔اصطلاحات فن ۔ راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی قسمیں حدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں،اس لحاظ سے حدیث کی چار قسمیں ہیں،متواتر،مشہور،غریب،عزیز۔ متواتر:وہ حدیث ہے جس کو رسول اللہ ﷺ سے آج تک اتنی بڑی جماعت نقل کرتی آئی ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناقابل تصور ہو۔ مشہور:وہ حد یث ہے جس کو ہر زمانے میں تین یا اس سے زیادہ راویوں نے نقل کیا ہو،اگر سلسلہ سند میں کہیں بھی راویوں کی تعداد کسی زمانے میں تین سے کم ہوگئی ہو تو خبر مشہور باقی نہیں رہے گی۔ عزیز:وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے والے کسی زمانے میں دو سے کم نہ ہوں۔ غریب:وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی زمانے میں بھی راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہو،حدیث غریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر معتبر ہوتی ہے؛ بلکہ حدیث غریب کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی ضعیف کے درجے کی ہوتی ہے۔ مقبول حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں مقبول یعنی وہ حدیث جس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کا درست ہونا راجح ہو،اس کی چار قسمیں ہیں،صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔ صحیح لذاتہ:وہ حدیث ہےجس کو عادل اور قوی الحفظ راویوں نے اس طرح نقل کیا ہو کہ سند میں کہیں انقطاع نہ ہو اور وہ علت اور شذوذ سے محفوظ ہو۔ (عادل سے مراد جو گناہوں اور دنائت کی باتوں سے بچتا ہو،قوی الحفظ وہ ہے جو سنی ہوئی بات کو بغیر کمی بیشی کے محفوظ رکھ سکتا ہواصطلاح میں اس کو ضبط کہتے ہیں،علت روایت میں پائی جانے والی ایسی پوشیدہ کمزوری کو کہتے ہیں جس پر اہل فن ہی واقف ہوسکیں،شذوذ کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے سند یا حدیث کے مضمون میں اپنے سے بہتر راوی کی مخالفت کی ہو)۔ صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہےجس کا راوی ضبط میں تھوڑا کمزور ہو؛لیکن دوسری کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے صحیح کے درجے میں آجائے۔ حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس کا راوی عادل ہو؛ لیکن ضبط میں کچھ کم ہواور اس میں شذوذ و علت پائی جائے۔ حسن لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ؛لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔ ضعیف حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں حدیث ضعیف:وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو،حدیث ضعیف کی بہت قسمیں ہیں،بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے(۱)سند میں کسی مقام پرراوی کا چھوٹ جانا(۲)حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایاجانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔ چند اصطلاحات ِحدیث حضورﷺ سے جو چیز منقول ہوا سے‘‘حدیث مرفوع’’اور جو صحابی سے منقول ہو اسے ‘‘حدیث موقوف’’ اور جو تابعی سے منقول ہواسے‘‘حدیث مقطوع’’ کہتے ہیں ، حدیث کے ناقل کو ‘‘راوی’’اور حدیث کو‘‘روایت’’ کہتے ہیں اور ناقلین کے نام کے مجموعہ کو‘‘سند’’ اور اصل مضمون کو ‘‘متن’’ کہتے ہیں۔ کتب احادیث کی چند قسمیں صحیح:وہ کتب حدیث ہیں جن میں مؤلف نے صحیح احادیث کے نقل کرنے کا اہتمام کیا ہو،جیسے مؤطا امام مالک ، بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان،ان کتابوں میں مؤلفین نے اپنی دانست میں صحیح وحسن روایات کو نقل کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اگر کہیں کسی مصلحت سے قصداً ضعیف روایت نقل کی ہیں تو ان کا ضعف بھی ظاہر کردیا ہے۔ جامع:وہ کتابیں جن میں آٹھ قسم کی مضامین ہوں ‘‘عقائد، احکام، رقاق، آداب، تفسیر، سیر،مناقب،فتن’’بخاری اور ترمذی بحیثیت جامع زیادہ ممتاز ہیں۔ سنن:وہ کتب جن میں فقہی ترتیب سے روایات جمع کی گئی ہوں،جیسے ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ۔ مصنف:ایسی کتابیں جو فقہی ترتیب پر مرتب کی جاتی ہیں؛ مگر ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ بھی مذکور ہوں ،جیسے مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ۔ مسند: وہ کتابیں ہیں جن میں ہر صحابی کی مرویات کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہو جیسے مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔ معجم:جس میں ایک استاذ کی مرویات کو راوی نے جمع کیا ہو جیسے طبرانی کی معجم وغیرہ۔ ( حدیث کا یہ ایک مختصر تعارف تھا اس عنوان کے تحت تمام تفصیلات آگےملاحظہ فرمائیں)