انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جزیرہ صقلیہ کی فتح جزیرہ صقلیہ(سسلی) میں قیصر قسطنطنیہ کی حکومت تھی اور وہاں ایک گورنر قیصر کی طرف سے مقرر ومامور ہوکر آتا اورحکومت کرتا تھا ۲۱۱ھ میں قیصر نے قسنطیل نامی بطریق کو صقلیہ کا حاکم مقرر کرکے بھیجا،اس نے ایک رومی سردار کوامیر البحر بنایا جس کا نام فیمی تھا،فیمی نے ساحل افریقہ پر لوٹ مار مچائی اوراپنا رعب سمندر میں قام کیا،مگر اسی زمانے میں قیصر نے گورنر صقلیہ کو لکھا کہ تم اپنے امیر البحر کو گرفتار کرکے ہمارے پاس بھیج دو امیر البحر کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے جزیرہ صقلیہ میں داخل ہوکر شہر سرتوسہ پر قبضہ کرلیا،گورنر اورامیر البحر میں جنگ ہوئی، اس جنگ میں گورنر کام آیا اورامیر البحر فیمی نے تمام جزیرہ پر قابض کرلیا،گورنر اورامیر البحر میں جنگ ہوئی،اس جنگ میں گورنر کام آیا اورامیر البحر فیمی نے تمام جزیرہ پر قابض ہوکر اپنی خود مختار سلطنت کا اعلان کیا،اوراپنے آپ کو بادشاہ کہلوایا،جزیرہ صقلیہ کے اس بادشاہ نےجزیرہ کے ایک حصہ کی حکومت پر بلاظہ نامی ایک شخص کو مامور کیا،بلاطہ کا ایک چچازاد بھائی میخائیل بھی اس جزیرہ کے ایک حصہ میں برسرِ حکومت تھا،ان دونوں چچازاد بھائیوں نے مل کر فیمی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور متعدد معرکہ آرائیوں کے بعد سرقوسہ پر قابض ومتصرف ہوگئے،فیمی شکست کھا کر اورجزیرہ کو چھوڑ کر جہازوں میں آگیا اور امداد حاصل کرنے کے لئے زیادۃ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، زیادۃ اللہ نے قیروان کے قاضی اسد بن فرات کو ایک فوج دے کر صقلیہ کے بادشاہ فیمی کے ساتھ کردیا۔ جزیرہ صقلیہ پر سب سے پہلے مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہؓ کے عہد خلافت میں بسر داری عبداللہ بن قیس فزاری فوج کشی کی تھی،لیکن یہ فوج کشی ایک وقتی حملہ تھا جس سے رومیوں کو مرعوب کرنا مقصود تھا،یہ حملہ ۳۳ ھ میں ہوا تھا پھر ۸۵ میں موسیٰ بن نصیر وائسرائے افریقہ نے بھی اسی قسم کی فوج کشی اس جزیرہ پر کی تھی،پھر ۱۰۲ھ میں خلیفہ یزید بن عبدالملک کے ایک سردار محمد بن ابو ادریس انصاری نے جزیرہ صقلیہ سے بہت سے قیدی اورمالِ غنیمت لے لے کر واپس ہوئے ۱۱۰ھ میں عبیدہ بن عبدالرحمنٰ قیس وائسرائے افریقیہ کے ایک سردار مستنیر بن حرث نے صقلیہ پر فوج کشی کی،مگر سمندر میں طوفان کے برپا ہونے اورجہازوں کے ڈوب جانے سے یہ مہم ناکام رہی اور مستنیر راستے ہی سے بدقت تمام طرابلس واپس آیا، اس کے بعد ۱۲۲ھ میں عبید اللہ بن حجاب گورنر افریقہ نے حبیب بن عبید اللہ کو مع اس کے بیٹے عبدالرحمن بن حبیب صقلیہ کی طرف روانہ کیا،عبدالرحمن بن حبیب نے ساحل پر اتر کر فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور اندرون جزیرہ میں شہر سرقوسہ تک جو صقلیہ کا دارالسلطنت تھا پہنچ گیا،حاکم صقلیہ نے عبدالرحمن بن حبیب کو جزیرہ دینا منظور کیا اوراطاعت وفرماں برداری کا اقرار کرکے عبدالرحمنٰ سرقوسہ سے سالماً غانماً ساحل پر اپنے باپ حبیب بن عبید اللہ کے پاس واپس آیا، اس طرح جزیرہ صقلیہ کو مفتوح وباج گزار بناکر دونوں باپ بیٹے افریقہ واپس آئے مگر چند ہی روز بعد یہ جزیرہ اسلامی حکومت وسیادت کے دائرے سے خارج ہوگیا،یہ فتح بھی محض عارضی اورہنگامی ہی تھی ۱۳۵ھ میں ایک مرتبہ پھر حاکم افریقہ نے اس جزیرہ پر فوج کشی کی ،اس کے بعد ۲۱۲ ھ تک مسلمانوں کو اس جزیرہ کی طرف متوجہ ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اب زیادۃ اللہ کے پاس جب فیمی آیا اور اس جزیرہ کے فتح کرنے کی ترغیب دی تو زیادۃ اللہ نے اسد بن فرات قاضی قیروان کو سو جہاز دےکر جو فیمی کے جہازوں کے علاوہ تھے صقلیہ کی طرف بھیجا اوراس حکم کے ساتھ بھیجا کہ صقلیہ کو فتح کرکے وہاں مستقل طور پر اسلامی حکومت قائم کی جائے اور رومی حکومت کا نام ونشان مٹادیا جائے، نصف ربیع الاول ۲۱۲ ھ کو یہ جنگی بیڑہ صقلیہ کی جانب روانہ ہوا اور تیسرے روز جزیرہ صقلیہ کے ساحل پر اسلامی فوج جا اُتری ،بلاطہ نے جواب جزیرہ صقلیہ کا بادشاہ بن گیا تھا،مقابلہ کے لئے فوج بھیجی، بلاطہ نے قیصر کی خدمت میں اظہارِ فرماں برداری کی درخواست بھیج کر باقاعدہ سندِ حکومت اورامداد منگالی تھی،لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا،ہر مقام پر عیسائی لشکر کو شکست دیتے ہوئے مسلمان آگے بڑھے، فیمی مذکور اسلامی لشکر کے ہمراہ تھا،مگر اب وہ مسلمانوں کی پیہم فتوحات اورعیسائیوں کی ہزیمتوں سے دل ہی دل میں افسردہ ورنجیدہ ہوتا تھا،اس نے درپردہ عیسائیوں کو ضروری خبریں پہنچانی اورمشورے دینے شروع کئے جس سے اسلامی لشکر کے لئے مشکلات پیدا ہوئیں مگر ان لڑائیوں میں بلاطہ مقتول ہوا اورعیسائیوں نے خود ہی دھوکا دے کر اس کے بعد فیمی کو الگ بُلا کر قتل کردیا ،بلاطہ کی جگہ عیسائیوں نے فوراً اپنا دوسرا سردار انتخاب کیا اور سرقوسہ کو ہرقسم کی تیاری کے بعد خوب مضبوط کرکے مسلمانوں کا مقابلہ سختی سے جاری رکھا،قاضی اسد بن فرات نے سرقوسہ کا محاصرہ کیا،اسی محاصرہ کے دوران میں قاضی اسد بن فرات کا شعبان ۲۱۳ھ میں انتقال ہوا۔ لشکرِ اسلام نے قاضی اسد بن فرات کے انتقال پر محمد بن ابو الجواری کو اپنا سردار منتخب کیا اس کے بعد ہی عیسائیوں کی امداد اورمسلمانوں کے مقابلہ کی غرض سے قسطنطنیہ سے فوجیں جنگی جہازوں میں آگئیں،سخت لڑائی ہوئی لشکرِ اسلام نے اس نووارد فوج کو شکست دے کر بھگادیا اور محاصرہ کو سختی سے جاری رکھا،مگر اس کے بعد ہی اسلامی لشکر میں وبا پھیل گئی،اس وبا کا حملہ عیسائی لشکر کے حملے سے زیادہ خطرناک اورمہلک ثابت ہوا،بہت سے آدمی ہلاک ہوگئے مسلمانوں نے سرقوسہ سے محاصرہ اُٹھا لیا اوراپنے مقبوضہ شہروں میں واپس آکر ارادہ کیا کہ افریقیہ کو واپس چلیں اوروہاں سے حالت درست کرکے پھر واپس آکر تمام جزیرہ کو فتح کریں گے،لیکن ان کو معلوم ہوا کہ قسطنطنیہ کے جہازوں نے ناکہ بندی کرلی ہے،اب عیسائی فوجیں بحری وبری راستے سے بڑی تعداد آکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئیں اورمسلمانوں کو ان کی لشکر گاہ میں محصور کرلیا،کچھ مسلمان جو مقبوضہ شہروں کے انتظام پر مامور تھے انہوں نے یہ خبر سن کر چاہا کہ ہم اپنے محصور بھائیوں سے جاملیں،مگر عیسائیوں کے محاصرے کو نہ توڑسکے اورباہری ادھر ادھر بحالت پریشان پھرنے لگے،اسی حالتِ محاصرے میں محمد بن ابو الجواری نے وفات پائی۔ مسلمانوں نے فوراً زہیر بن عوف کو اپنا سردار منتخب کرلیا مقام مازر میں مسلمان عرصۂ دراز تک اسی حالتِ محاصرہِ میں رہے،اتفاقاً اندلس سے ایک بیڑہ جنگی جہازوں کا بقصدِجہاد نکلا ہوا تھا اوربحرِ روم میں گشت کررہا تھا،صقلیہ کے ان مسلمانوں کو جو محاصرہ سے باہر تھے،یہ حال معلوم ہوا اورانہوں نے اس اندلسی بیڑہ کے قریب پہنچنے پر کسی نہ کسی طرح اسلامی لشکر کی حالت سقیم سے مطلع کیا،اس بیڑہ سے فوراً تین سو کشتیاں ساحل صقلیہ پر بھیج دی گئیں اور اندلس کے اسلامی لشکر نے ساحل پر اُتر کع عیسائیوں کو مارنا اور قتل کرنا شروع کیا اور عیسائی محاصرہ اٹھا کر فرار ہوئے،یہ واقعہ جمادی الآخر ۲۱۵ھ کا ہے،مسلمانوں نے اس محاصرہ سے آزاد ہوتے ہی پھر فتوحات کا سلسلہ جاری کردیا، اندلسی بیڑہ تو اپنا کام کرکے واپس چلا گیا اورافریقی اسلامی لشکر نے شہر پلرمو کا محاصرہ کرلیا اورمفتوحہ شہروں پر بھی از سر نو حکومت قائم کی،اسی عرصہ میں افریقہ سے بھی کمکی فوج کی کشتیاں پہنچ گئیں، اس سے پہلے جو فوج اسد بن فرات کے ہمراہ آئی تھی اس کی کُل تعداد دس ہزار سات سوتھی، جس میں دس ہزار پیدل اورسات سو سوار تھے،شہر پلرمو ابھی فتح نہ ہوا تھا کہ ۲۱۸ھ میں افریقہ سے محمد بن عبداللہ بن اغلب یعنی زیادۃ اللہ کا چچا زاد بھائی صقلیہ کا گورنر مقرر ہوا تھا کہ ۲۱۸ ھ میں افریقہ سے سے محمد بن عبداللہ بن اغلب یعنی زیادۃ اللہ کا چچازاد بھائی صقلیہ کا گورنر مقرر ہوکر آیا اور ۲۲۰ھ میں پلرمو اورقصیر مانہ وغیرہ شہروں کو رومیوں سے فتح کرلیا، جزیرہ صقلیہ کا نصف جنوبی حصہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا اورنصف شمالی حصے میں عیسائیوں کی حکومت قائم تھی اور قیصر روم کی طرف سے برابر مدد پہنچتی رہتی تھی، مگر مسلمان برابر اپنی مفتوحات کو بڑھاتے اورجزیرہ میں اسلامی حکومت کو وسیع کرتے رہے، پلرموں کی فتح کے بعد سے جزیرہ صقلیہ سلطنت اغلبیہ کا ایک صوبہ بن گیا اوروہاں برابر یکے بعد دیگرے قیروان سے گورنر مقرر ہوکر آتے اور حکومت کرتے رہے،زیادۃ اللہ کے عہدِ حکومت کا سب سے بڑا اورشان دار کارنامہ جزیرہ صقلیہ کا حکومت اسلامیہ میں شامل کرنا ہے، اس جزیرہ میں قریبا پونے تین سو سال تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی، اس کے بعد آپس کی خانہ جنگیوں نے اس جزیرہ کو عیسائیوں کے قبضے میں پہنچادیا اورانہوں نے جس طرح اندلس سے مسلمانوں کا نام ونشان گم کیا،اس طرح جزیرہ صقلیہ سے بھی مسلمانوں اوران کے نشانوں کومٹایا۔ انا لِللّٰہِ وانا الیہ راجعون وفات:زیادۃ اللہ نے۲۲۳ھ میں وفات پائی،اس کی وفات کے بعد اس کا بھائی اغلب بن ابراہیم اغلب تخت نشین ہوا،اس کی کنیت ابو عقال تھی۔