انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم کسی نے قرآن کریم کی جامعیت کا یہ مفہوم نہیں لیا کہ اس کی کسی آیت میں کوئی اجمال (Brevity) یا کسی بیان میں کوئی تقیید (Particularisation) نہیں اس نے ہر باب کی غیر متنا ہی جزئیات کا احاطہ کرلیا ہے اور ہر حکم کی تمام حدود اور تفصیلات (Details) اس نے بیان کردی ہیں نہ یہ کسی کا دعویٰ ہے نہ اس کا کوئی قائل ہے،اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم سوائے اس چیز کے جو قرآن میں ملے اور کسی چیز کو قبول نہ کریں گے تو اس کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں، حافظ ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں: "لوأن امرأ قال: لانأخذ إلا ما وجدنا في القرآن لكان كافرا بإجماع الامة"۔ (الاحکام فی اصول الاحکام:۲/۲۰۰) ترجمہ: اگر کسی شخص نے کہا کہ صرف وہی چیز لیں گے جسے ہم قرآن میں پالیں تو وہ شخص بالاتفاق کافر ٹھہرے گا۔ قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا حل ملتا ہے اور لا تعداد جزئیات کے احکام کے اصول وکلیات اورضوابط کی شکل میں اس میں موجود ہیں، علامہ شاطبیؒ (۷۹۰ ھ) لکھتے ہیں: "فالقرآن على اختصاره جامع ولايكون جامعا إلاوالمجموع فيه أمور كليات"۔ (الموافقات:۳/۱۳۲) ترجمہ: قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود ایک جامع کتاب ہے اور یہ جامعیت تبھی درست ہوسکتی ہے کہ اس میں کلیات کا بیان ہو۔ محدث جلیل حضرت مولانا بدر عالم مدنیؒ لکھتے ہیں: "اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ خدا شناسی اورآداب عبدیت کے تمام اصولوں پر حاوی ہے، جیسا کہ جہاں بانی کے ایک ایک نکتہ ایک ایک شوشہ کے لیے مکمل آئین ہے، ایک چوب خشک اس پر عمل کرکے عارف کامل ہوسکتا ہے اورایک فقیر بے نوا اس کے اتباع کی بدولت تاج شاہانہ پہن سکتا ہے؛پھر شاہی اور گدائی کے یہ عمیق اور دقیق اصول اس نے ایسے جامع اور سادے الفاظ میں قائم کئے ہیں کہ دین کے مختلف زمانوں کی مختلف ضروریات میں سے کبھی کوئی ایسی ضرورت پیش نہیں آسکتی جس کے متعلق قرآن کریم کے ان الفاظ میں پوری روشنی نہ ملے"۔ (ترجمان السنہ:۱/۱۱۱) پس جب قرآن پاک میں ایسے اصول و کلیات ہیں جن کے تحت لا تعداد جزئیات کا فیصلہ قرآن کریم کی جامعیت کی تصدیق کرے تو یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ان مواقع پر قرآن کریم کی اصولی دعوت کیا ہے؟ اس ضرورت میں وہ ہمیں کدھر لے جاتا ہے؟