انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پرتگالیوں کی بغاوت اسی سال اندلس کے جنوب ومغرب میں اس علاقہ کے اندر جس کو آج کل ملک پرتگال کہاجاتا ہے اور جہاں عیسائیوں کی آبادی زیادہ تھی شہر مریدہ والوں کی سربراہی میں بغاوت کا فتنہ پیدا ہوا اس فتنےکو فرو کرنے کے لیے عبیداللہ بن عبداللہ کو بھیجاگیا سخت معرکوں کے بعد باغیوں کو سکشت ہوئی اور شہر پناہ کو منہدم کرکے عبیداللہ۲۱۰ھ میں واپس آگیا چند روزکے بعد باغیوں نے پھر سراٹھایا اور عبیداللہ کو پھر اس طرف جانا پڑا اس مرتبہ بھی بغاوت فرو ہوگئی۔ اس بغاوت کا سبب وہ پادری تھے جو جلیقیہ وقسطہ سے یہاں آکر بغاوت کی ترغیب دینے میں مصروف تھےڈکیونکہ شمالی عیسائیوں بالخصوص جلیقیہ والوں کو یہ محسوس ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کا اندرونی بغاوتوں اور آٖس کی لڑائیوں میں مصروف رہنا ہی ہماری ترقی اور کامیابی کا باعث ہے اور جب تک ہم جنوبی علاقوں میں ہنگامے برپا نہ کرادیں اس وقت تک ہم کو مسلمانوں کے خلاف کوئی کوشش اور بغاوت نہیں کرنی چاہیے اہل مریدہ کی سرکشیوں اور گستاخیوں کی اب کوئی انتہا نہیں رہی تھی ؛کیونکہ انہوں نے اپنے عامل کو بغاوت کرکے اپنے شہر سے نکال دیاتھا اور شاہی فوجوں کا دومرتبہ مقابلہ کرچکے تھے ،لہذا ۲۱۳ھ میں سلطان عبدالرحمن نے حکم دیا کہ شہر مریدہ کی منہدم شدہ فصیل کے پتھروں کو دریا میں ڈال دو جب اس حکم کی تعمیل مریدہ نے کرنی چاہی تو وہاں کے لوگوں پھر باغی ہوگئے تھے انہوں نے اس مرتبہ پھر شہر پر قبضہ کرلیا اور عامل کو وہاں سے خارج ہونا پڑا اہل شہر نے شہر کی منہدم شدہ فصیل کو پھر تعمیر کرلیا اور مقابلہ کے لیے مضبوط ہوبیٹھے ،یہ سن کر تعجب ہووتا ہے کہ یہ بغاوت صرف عیسائیوں تک محدود نہیں تھی بلکہ بڑا حصہ اس میں مسلمانوں کاشریک تھا،اور باغیوں کی سرداری محمود بن عبدالجبار کے ہاتھ میں تھی یہ سملمان عیسائیوں کے ترغیب دینے سے کیوں بغاوت پر آمادہ ہوجاتے تھے،اس کا سبب آگے بیان ہونے والا ہے،بہرحال ۲۱۷ھ تکمریدہ کے مقابل شاہی سپہ سالار مصروف جنگ رہے اور کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ آخر۲۱۸ھ کے ابتدا میں سلطان عبدالرحمن نے خود مریدہ پر فوج کشی کی مگر اس مرتبہ ابھی شہر فتح نہ ہونے پایا تھا کہ سلطان کو محاصرہ اٹھاکر فوراً کسی ضرورت سے قرطبہ کی جانب واپس آنا پڑا،۲۲۱ھ میں پھر خاص اہتمام سے حملہ کیاگیا اور یہ شہر سات سال تک ملک اندلس ک درمیانی علاقہ میں خود مختار رہنے کے بعد مفتوح ہوا اور سلطان کی طرف سے یہاں عامل مقرر ہوا ،اہل مریدہ کی اس خطرناک بغاوت سے بڑھ کر بغاوت ملک اندلس میں نہ ہوئی تھی ،چالیس ہزار جنگ جو پورے طور پر مسلح اہل شہر کے پاس موجود تھے ان باغیوں کو ہر قسم کی امداد ریاست ایسٹریاس وجلیقیہ سے خفیہ طور پر پہنچ رہی تھی آخر ۲۲۰ھ میں جب یہ شہر فتح ہوا اور اس بغاوت کا خاتمہ ہوگیا تو محمود بن عبدالجبار مریدہ سے فرار ہوکر سیدھا ریاست ایسٹریا س ہی می ںپہنچا اور وہاں اس کو ایک قلعہ کا قلعہ دار بنادیاگیا جہاں وہ پانچ سال تک زندہ رہا۔ عیسائیوں کو مسلمانوں کے باغی بنانے میں دو وجہ سے آسانی ہوئی اول تو یہ کہ اندلس میں عیسائی عورتیں عام طور پر مسلمانوں کے گھروں میں تھیں مسلمان مذہبی آزادی کو مد۔طر رکھتے ہوئے اپنی ان عیسائی بیویوں کو تبدیل مذہب کے لیے مجبور نہیں کرتے تھے شمالی عیسائی ریاستوں کو چھوڑکر کہ ان عیسائیوں کو مسلمانوں سے عداوت ونفرت تھی باقی تمام اندلس کے عیسائی مسلمانوں کے ساتھ نہایت گہرے اور ہمدردانہ تعلقات رکھتے تھے ان عیسائیوں کے ذریعے شمالی ریاستوں کے عیسائی مسلمانوں میں ہر ایک خیال کی بآسانی اشاعت کرسکتے تھے، اس مرتبہ یہ مشہور کیاگیا تھا کہ سلطان عبدالرحمن نے زکوۃ کے علاوہ جو اور کوئی ٹیکس لگایا ہے یہ ابتدا ہے اس ظلم وستم کی جو سلطان اپنی رعایا کے تمام اموال پر قبضہ کرنے والا ہے،یہ ایک ایسی بات تھی کہ سب سے پہلے اس پر مسلمانوں ہی کو غصہ آتا تھا ،بڑھتے بڑھتے اس معمولی سی بات نے وہ صورت اختیار کرلی جس کا ابھی اوپر ذکر ہوچکا۔