انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابوحنیفہ ؒ کا جرح وتعدیل میں مقام سراج الامۃ، امام الائمہ، سیدالفقہاء والمجتہدین، شیخ المحدثین، امام اعظم ابوحنیفہؒ نہ صرف ایک عادل وثقہ، ضابطہ وحافظ حدیث تھے؛ بلکہ محدثین عظام کی اس صف اوّل میں آپ کا شمار ہوتا تھا، جوعلومِ حدیث واسماء رجال میں امامت کا درجہ رکھتے تھے؛ نیزذکاوت وذہانت اور فراست وعدالت میں اس بلند معیار پر تھے، جن کے فیصلوں پر حدیث کے مقبول اور غیرمقبول ہونے کا مدار ہے۔ امام الجرح والتعدیل، الحافظ، الناقد، المحقق العلامہ ابوعبداللہ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الشافعی الذھبی الدمشقی (المتوفی:۷۴۸ھ) اپنی مایہ ناز کتاب "تذکرۃ الحفاظ" کے سرورق پر رقمطراز ہیں: "ھذہ تذکرۃ اسماء معدلی حملۃ العلم النبوی ومن یرجع الی اجتہادہم فی التوثیق والتضعیف والتصحیح والتزییف"۱؎۔ اس میں ان حضرات کا تذکرہ ہے جوحاملین علم نبویﷺ کی تعدیل وتوثیق کرنے والے ہیں اور جن کے اجتہاد کی روشنی میں کسی راوی کی توثیق وتضعیف اور حدیث کی صحت وسقم کا علم ہوتا ہے۔ اِس کتاب میں حافظ ذہبیؒ نے طبقۂ خامسہ کے حفاظ حدیث میں امام صاحبؒ کا ذکر کیا ہے۲؎، حافظ ذہبیؒ (جن کے متعلق حافظ ابنِ حجرؒ کی رائے گرامی یہ ہے کہ نقد رجال میں وہ استقراء تام کے مالک ہیں ان) کے اس طرزِ عمل اور اسلوب بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فن جرح وتعدیل میں عظمت شان کے حامل ہیں اور امام اعظمؒ کے اقوال اس باب میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں، فن جرح وتعدیل کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ ائمہ حدیث نے امام ابوحنیفہؒ کے اقوال سے استناد کیا ہے۔ (۱)تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۔ (۲)تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۶۔ (۱)جابر بن یزید جعفی چنانچہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ "ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل" میں اسماء رجال کے ماہرین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "فَأَوَّلَ من زكَّى وجرح عند انقضاء عصر الصحابة: الشعبي، وابن سيرين، ونحوهما..... فلماكان عند انقراض عامة التابعين في حدود الخمسين ومائة، تكلَّم طائفةٌ من الجهابذة في التوثيق والتضعيف فقال ابوحنیفۃ مارأیت اکذب من جابر الجعفی، الخ"۳؎۔ صحابہؓ کے دورِ بابرکت کے آخر میں جن لوگوں نے حدیث کی حفاظت کی خاطر جرح وتزکیہ کیا ان میں سب سے پہلے امام شعبیؒ اور ابن سیرینؒ، شعبہؒ وغیرہم ہیں؛ پھرجب دوسری صدی میں عام تابعین کا دور آیا توعلم وفن کے ماہر حضرات نے حفاظت حدیث کے واسطے تعدیل وجرح میں کلام کیا توابوحنیفہؒ نے جابرجعفیؒ پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جابر جعفیؒ سے زیادہ جھوٹا شخص نہیں دیکھا۔ چنانچہ امام ابوحنیفہؒ کے بعد جتنے حفاظِ حدیث اور علم رجال میں قابل اعتماد افراد آئے، سب نے امام ابوحنیفہؒ کے اس جرح کوقبول کیا اور کسی نے اس کے خلاف رائی قائم نہ کی، مثلاً: (الف)حافظ ابوبکر احمد بن الحسین بن علی البیہقی المتوفی سنہ۸۵۴ھ "کتاب القرأۃ خلف الامام" میں تحریر فرماتے ہیں: "ولولم یکن فی جرح الجعفی الاقول ابی حنیفۃ لکفی بہ شرا فانہ راٰہ وجربہ وسمع منہ مایوجب تکذیبہ فاخبربہ"۴؎۔ اگرجابرجعفی کے متعلق صرف امام ابوحنیفہؒ کا قول ہوتا تب بھی یہ جرح اس کی تکذیب کے لیے کافی ہے؛ اس لیے کہ امام صاحبؒ نے اس کودیکھا ہے اور اس کوآزمایا ہے اور اس سے ایسی باتیں سنیں جواس کی تکذیب کرنے والی تھیں؛ لہٰذا انہوں نے اس کوبتایا۔ (ب)امام ابومحمدعلی بن احمد المعروف بابن حزم جوفقہ ظاہری کے امام ہیں، اپنی مشہور کتاب "المحلی" میں ذکر کرتے ہیں: "جابرالجعفی کذاب، واول من شہد علیہ بالکذب ابوحنیفہ"۵؎۔ جابرجعفی جھوٹا ہے اور سب سے پہلے اس کے جھوٹے ہونے کی گواہی امام اعظمؒ نے دی ہے۔ (ج)امام ابوعیسیٰ ترمذیؒ (جن سے علم حدیث کاکونسا طالب علم ناواقف ہوگا) بھی امام ابوحنیفہؒ کامذکورہ قول "کتاب العلل" میں نقل فرمایا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں: "حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُويَحْيَى الْحِمَّانِيُّ قَال سَمِعْتُ أَبَاحَنِيفَةَ يَقُولُ مَارَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ"۶؎۔ ابویحییٰ حمانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے کسی شخص کوجابر جعفیؒ سے زیادہ جھوٹا نہیں دیکھا۔ حافظ ابن حجرؒ نے "تہذیب التہذیب" میں امام ترمذیؒ کے حوالہ سے امام ابوحنیفہؒ کاقول یوں ذکر کیا ہے: "رواه الترمذيؒ فى "كتاب العلل" من الجامع الكبير حدثنا محمود بن غيلان عن جرير عن يحيى الحماني سمعت أبا حنيفة يقول مارأيت أكذب من جابر الجعفي ولاأفضل من عطاء"۷؎۔ جرح وتعدیل کے باب میں امام ابوحنیفہؒ کے قول مذکور کوامام ترمذیؒ، بیہقیؒ، ابنِ حزم اور (د)ابن حجر کے علاوہ (ھ)ابنِ حبان نے اپنی "صحیح" میں (و)حافظ ابنِ عدیؒ نے "الکامل فی الضعفاء" میں (ز)اور حافظ ابن عبدالبر المالکی القرطبی نے "جامع بیان العلم وفضلہ" میں نقل فرمایا ہے۸؎۔ (۳)ذکرمن یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل:۱۹۔ (۴)ذکرمن یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل:۱۰۹،۱۰۸۔ (۵)المحلی:۱/۷۸۱۔ (۶)جامع الترمذی:۲/۳۳۳، مطبوعہ:مصر۔ (۷)تہذیب التہذیب:۲/۴۸۔ مقدمہ اعلاء السنن:۳/۳۶۔ (۸)علم حدیث میں امام اعظمؒ کا مقام ومرتبہ:۸۔ (۲)زید بن عیاش جنھیں زیدابی عیاش بھی کہا جاتا ہے، بنوزھرہ کے موالی میں سے تھے؛ اسی نسبت سے انھیں مخزومی اور زرقی بھی کہا جاتا ہے، ان سے امام ابوداؤد، امام ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ، امام مالک اور حاکم وغیرہ نے روایت کی ہے، اس راوی کے متعلق امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ وہ مجہول ہیں۹؎، چنانچہ آپ کی اس تحقیق کو بعد میں آنے والے محدثین نے قبول کیا اور بطورِ استناد آپ کا حوالہ بھی دیا؛ چنانچہ : (الف)عبدالرحمن بن علی ابوالفرج ابن الجوزی البغدادی الحنبلی المتوفی ۵۹۷ھ "التحقیق فی احادیث الخلاف" میں لکھتے ہیں: "قَالَ ابُوْحَنِیْفَۃَ: زَیْد ابوعَیَّاش مَجْھُوْل"۱۰؎۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ زید ابوعیاش مجہول ہے۔ (ب)حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس قول کو "تہذیب التہذیب" میں نقل کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: "زَیْدبن عیاش ابوعیاش الزرقی ویقال المخزومی..... قال ابوحنیفۃ مجہول"۱۱؎۔ ابوحنیفہؒ نے فرمایا: زید بن عیاش ابوعیاش مجہول ہے۔ (ج)فقہ ظاہری کے امام ابن حزم نے بھی اس قول کواختیار کیا ہے، حافظ ابن حجر کی زبانی ہی سنئے: "وَکَذَا (زَیْدُبْنُ عَیاشٍ مَجْھُوْلٌ) انَّہٗ مَجْھُوْلٌ"۱۲؎۔ زید بن عیاش مجہول ہے۔ (د)امام حاکم ابوعبداللہ نیساپوری نے بھی تصریح کی ہے کہ زید بن عیاش چونکہ امام بخاریؒ ومسلمؒ کے یہاں مجہول راوی تھے، اس لیے ان دونوں حضرات نے ان کی روایت کواپنی صحیحین میں جگہ نہیں دی؛ چنانچہ ایک حدیث پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "قَالَ الْحَاکِم ھَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ لِاجْمَاعِ أئِمَّۃَ النقل عَلَی اِمَامَۃِ مَالِکْ بن أَنَسٍ.... وَالشَّیْخَانِ لَمْ یُخْرجَاہ لِمَاخَشِیَا مِنْ جِھَالَۃِ زَیْدُبْنُ عَیَاشٍ"۱۳؎۔ کہ اس حدیث کو ایک جماعت نے روایت کیا ہے؛ لیکن اس میں زید بن عیاش ہے، جس کے متعلق امام بخاری ومسلم کواس کے مجہول ہونے کا خوف ہوا، اس لیے انہوں نے اس حدیث کی تخریج نہیں کی ہے۔ اِن کے علاوہ (ہ)حافظ ابن عبدالبر المالکی القرطبی رحمۃ اللہ علیہ۔ (و)امام محمد بن جریر الطبری المتوفی ۳۱۰ھ۔ (ز)امام ابوجعفر احمد بن محمد الازدی المصری الطحاوی المتوفی ۳۲۱ھ۔ نے بھی زید بن عیاش کو مجہول ہی قرار دیا ہے۱۴؎، اور ہرایک نے امام صاحبؒ کے قول کواختیار کیا ہے؛ چنانچہ مولانا ظفر احمدعثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "قَالَ أَبُوْحَنِیْفَۃَ فِیْ زَیْدُبْنُ عَیاشٍ أَنَّہُ مَجْھُوْلٌ کَمَا فِیْ "تہذیب التھذیب" وَتَبْعَہٗ ابن عَبْدِ الْبَر وَاِبْن حَزم وَالطبری والطحاوی وَعَبْد الحق الدھلویؒ" ۱۵؎۔ (۹)نصب الرایہ:۴/۱۴۔ (۱۰)نصب الرایہ:۴/۱۴۔ (۱۱)حاشیۃ بغیۃ الالمعی فی تخریج الزیلعی علی نصب الرایہ:۴/۱۴۔ (۱۲)حاشیۃ بغیۃ الالمعی فی تخریج الزیلعی علی نصب الرایہ:۴/۱۴۔ (۱۳)نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ:۲/۴۱۔ (۱۴)التلخیص الحبیر:۲/۲۳۵۔ (۱۵)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۳۷۔ (۳)طلق بن حبیب طلق بن حبیب بڑے اونچے درجہ کے زاہد ہیں اور راویانِ حدیث میں ہیں، حضراتِ صحابہؓ سے علم حاصل کیا مثلاً ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن زبیرؓ سے علم حاصل کیا، آپ کے شاگردوں میں منصور، اعمش، عوفِ اعرابی وغیرہ ہیں؛ مگرفرقۂ قدریہ سے تعلق رکھتے تھے۱۶؎، امام ابوحنیفہؒ نے ہی سب سے پہلے ان پر جرح کی ہے۔ چنانچہ مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ "الجواہر المضیہ" کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں: "قَالَ ابوحنیفۃ طلق بن حبیب کان یری القدر"۱۷؎۔ طلق بن حبیب قدروارجاء کا قائل تھا۔ پھرامام ابوحنیفہؒ کے اس قول کودیگر محدثین نے اختیار کیا؛ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: "وتبعہ کثیرون فقال ابوحاتم کان یری الارجاء وکذا قال ابوزرعۃ وقال الازدی کان داعیۃ الی مذھبہ ترکوہ"۱۸؎۔ (الف)ابوحاتم رازی نے کہا کہ طلق مرجیہ ہے۔ (ب)ابوزرعہ رازی کا بھی یہی قول ہے۔ (ج)ازدی نے مزید کہا کہ طلق بن حبیب اپنے مذھب (قدریہ) کی دعوت بھی دیتا تھا، محدثین نے اسی وجہ سے اس کی روایت قبول نہیں کی۔ (۱۶)سیراعلام النبلاء:۶/۶۰۱۔ (۱۷)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۳۷۔ (۱۸)تہذیب التہذیب:۵/۳۱۔ (۴)مقاتل بن سلیمان مقاتل بن سلیمان ابوالحسن بلغ کے رہنے والے ہیں اور بہت بڑے مفسر ہیں، حضرت مجاہد، ضحاک اور عطاء، ابن سیرین، عمروبن شعیب، امام زھری اور متعدد تابعین عظام آپ کے شیوخ ہیں؛ نیز آپ کے تلامذہ میں سعد بن صلت بقیہ، عبدالرزاق اور علی بن الجعد وغیرہ ہیں؛ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں تشبیہ وتجسیم کا عقیدہ رکھتے تھے، یہ عقیدہ جمہور اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہے۔ (سیراعلام النبلاء:۷/۲۰۱) (۵)جہم بن صفوان جہم بن صفوان بن محرزان کوعلم کلام سے خصوصی لگاؤ تھا، یہ بھی رواۃ حدیث میں ہیں؛ مگران کا عقیدہ جمہور اہلِ سنت سے الگ تھا، وہ خدا تعالیٰ کے معطل ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۲۰؎، ان دونوں کے متعلق امام ابوحنیفہؒ نے جرح کرتے ہوئے فرمایا: "اتانا من المشرق رأیان خبیثان جھم معطل ومقاتل مشبہ"۲۰؎۔ ہمارے پاس کوفہ میں مشرق کی طرف سے دوخبیث عقیدے آئے، ایک جہم کی طرف سے جواللہ تعالیٰ شانہ کے متعلق تعطیل کاعقیدہ رکھتا ہے اور ایک مقاتل بن سلیمان کی طرف سے جواللہ تعالیٰ کے متعلق تشبیہ کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اِسی بنیاد پر امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرمایا: "کَانَ مَقَاتِلَ کَذَابًا"۲۱؎۔ مقاتل بن سلیمان جھوٹا تھا۔ اور حافظ ذھبیؒ ان دونوں راویوں کے متعلق دیگرمحدثین کی آراء نقل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ تحریر فرماتے ہیں: "اجمعوا علی ترکہ"۲۲؎۔ محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان سے روایت نہ لی جائے۔ (۲۰)سیراعلام النبلاء:۶/۲۶۔ تہذیب التہذیب:۱۰/۲۸۱۔ (۲۰)سیراعلام النبلاء:۶/۲۶۔ تہذیب التہذیب:۱۰/۲۸۱۔ (۲۱)سیراعلام النبلاء:۷/۲۰۲۔ (۲۲)سیراعلام النبلاء:۷/۲۰۲۔ (۷)عمروبن عبید عمروبن عبیدابوعثمان بصرہ کے رہنے والے تھے، ابوالعالیہ، ابوقلابہ، اور حسن بصریؒ وغیرھم ان کے اساتذہ ہیں اور ان کے شاگردوں میں حمادان، عبدالوارث، ابن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان ہیں؛ لیکن بعد میں یحییٰ بن سعید نے روایت ان سے ترک کردی تھی؛ انھوں نے علم کلام میں بہت غلو کیا اور بڑی موشگافیاں کیں اور اس کی وجہ سے بہت سی نظری وفکری بے راہ روی ہونے لگی۲۳؎، ان کی اس حرکت پر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "لَعَنَ اللہ عمروبن عبید فانہ فتح للناس بابا الی علم الکلام"۲۴؎۔ اللہ تعالیٰ عمربن عبید پر لعنت بھیجے کہ اس نے علم کلام کا دروازہ لوگوں کے لیے کھول دیا۔ چنانچہ بعد کے محدثین نے ان سے روایت لینا بند کردیا۔ امام ابوحنیفہؒ رجال حدیث کی ایسی شناخت رکھتے تھے کہ معاصرین آپ سے راویوں کی تعدیل کے متعلق دریافت کرتے تھے، جن کی آپ تعدیل کرتے ان کی طرف وہ رجوع ہواکرتے تھے۔ (۲۳)سیراعلام النبلاء:۶/۱۰۴۔ (۲۴)الجواہر المضیۂ۔ (۱)جعفر بن محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ حضرت حسینؓ کے پڑپوتے ہیں، ہاشمی وقریشی ہیں مدینہ منورہ آپ کا وطن مالوف ہے، سنہ۸۰ھ میں ولادت ہوئی، حضرت انسؓ اور سہل بن سعدؓ کی زیارت کا شرف آپ کوحاصل ہے، اکابر تابعین حضرت عروہ بن زبیرؒ، عطاء بن ابی رباحؒ اور قاسم بن محمدؒ وغیرھم آپ کے اساتدہ میں ہیں، آپ کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن میں یحییٰ بن سعید انصاری، ابن جریح وغیرھما ہیں۲۵؎، آپ کی جلالتِ علمی سے کون واقف نہیں لیکن ان کے متعلق بھی امام ابوحنیفہؒ سے دریافت کیا گیا؛ چنانچہ حسن بن زیاد کہتے ہیں: "سمعت ابا حنیفۃ وسئل من افقہ من رأیت؟ قال مارأیت احدا افقہ من جعفر بن محمد"۲۶؎۔ میں نے ابوحنیفہؒ کویہ کہتے سنا جب کہ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ جن لوگوں کوآپ نے دیکھا ہے ان میں بڑا فقیہ کون ہے؟۔ تو امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: جعفر بن محمد (جعفر صادق) یعنی جعفرصادق سب سے بڑے فقیہ ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کی اس تعدیل ہی کا نتیجہ تھا کہ ابوحاتم رازی نے جعفر صادقؒ کے بارے میں یوں فرمایا: "جعفر لایسئل عن مثلہ"۲۷؎۔ جعفر بن محمدؒ کے متعلق سوال ہی نہیں کرنا چاہئے؛ کیونکہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ یہ بات امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن سعیدؒ سے بھی منقول ہے۲۸؎۔ (۲۵)سیراعلام النبلا:۶/۲۵۶۔ (۲۶)تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۵۷۔ (۲۷)سیراعلام النبلا:۶/۲۵۷۔ (۲۸)سیراعلام النبلا:۶/۲۵۷۔ (۲)عمرو بن دینار رحمۃ اللہ علیہ تابعی امام وحافظ حدیث ہیں، مکی اثرم کے موالی میں ہیں، اپنے زمانہ میں حرم کے شیخ تھے، آپ کی ولادت باسعادت حضرت امیرمعاویہؓ کی عہد خلافت میں سنہ۵۴ھ یا سنہ۶۴ھ میں ہوئی، آپ نے حضرت انسؓ، ابن عمرؓ، جابر بن عبداللہؓ، انس بن مالکؓ ودیگر صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ سے علم حاصل کیا، آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے تابعین ہیں، مثلاً ابن ملیکہؒ، حضرت قتادہؒ، محمد بن شہابؒ زھریؒ، ایوب سختیانیؒ، جعفر صادقؒ، شعبہؒ اور سفیان ثوریؒ جیسے جبالِ علم نے آپ سے اکتساب فیض کیا ہے۲۹؎۔ امام ابوحنیفہؒ اسماء رجال کے ماہرین میں سے تھے، آپ کو راویوں کے احوال اور ان کے القاب وکنیت سے اس درجہ واقفیت تھی کہ معاصرین بھی ان سے تہی دامن تھے؛ چنانچہ حماد بن زید رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "مَاعَرَفْنَا کنیۃ عمروبن دینار الابابی حنیفۃ کنا فی المسجد الحرام وابوحنیفۃ مع عمروبن دینار فقلنا لہ یااباحنیفۃ! کلمہ یحدثنا فقال یاابا محمد حدثھم ولمیقل یااباعمرو"۳۰؎۔ ہم کوعمروبن دینار کی کنیت ابوحنیفہؒ ہی کے ذریعہ معلوم ہوئی، وہ اس طرح کہ ہم لوگ مسجد حرام میں تھے، وہاں امام ابوحنیفہ اور عمروبن دینار بھی تھے توہم نے امام ابوحنیفہؒ سے عرض کیا کہ آپ عمروبن دینار سے حدیث بیان کرنے کے لیے کہیں، توامام صاحبؒ نے طلبہ کی سفارش کرتے ہوئے عمرو بن دینار کو "یاابامحمد" کہہ کر مخاطب کیا۔ (۲۹)سیراعلام النبلا:۵/۳۰۰،۳۰۱۔ (۳۰)الجواہر المضیئہ:۱/۳۰۔ (۳)سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سفیان بن سعید، امام حفاظ الحدیث، سیدالعلماء ورئیس المحدثین ابوعبداللہ کوفی ہیں، سنہ۷۰ھ میں ولادت ہوئی، آپ کے شیوخ کی تعداد چھ سو سے زائد ہے، جن میں ابراہیم بن مہاجر، اسامہ بن زید، ایوب سختیانی وغیرھم ہیں، ابوالفرج ابن الجوزی نے آپ کے تلامذہ کی تعداد تیس ہزار بتائی ہے؛ لیکن حافظ ذھبیؒ نے چودہ سوکی تعداد لکھی ہے۳۱؎۔ سفیان ثوری جوفن حدیث میں امامت کا درجہ رکھتے تھے اور شاید ہی حدیث کی کوئی کتاب ایسی ہو جس میں ان کے واسطہ سے روایت نہ آئی ہو؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ سے ان کے بارے میں بھی پوچھا گیا، توآپ نے فرمایا: "اکتب عنہ فانہ ثقۃ ماخلا احادیث ابی اسحاق عن الحارث وحدیث جابر الجعفی"۳۲؎۔ آپ سفیان ثوریؒ کی احادیث لکھئے لیکن ان کی جوروایتیں ابواسحاق عن الحارث اور جابر جعفی کے طریق سے آئیں ان کو نہ لکھئے۔ ان چند مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ فن "جرح وتعدیل" میں امام احمد بن حنبلؒ، امام شعبہؒ، علی بن المدینیؒ، یحییٰ بن سعید القطانؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ، ابوزرعہ رازیؒ، ابوحاتم رازیؒ، امام بخاریؒ، امام نسائیؒ وغیرھم ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال رواۃ کے مقبول یانامقبول ہونے کے سلسلہ میں جس طرح معتبر ومستند ہیں؛ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کے اقوال بھی مستند ہیں، جیسا کہ باحوالہ ثابت کیا گیا کہ محدثین عظام آپ کے اقوال سے استدلال کرتے اور حجت پکڑتے ہیں، کتب اسماء رجال مثلاً: "تھذیب الکمال للمزی، تذھیب التھذیب للذھبی، تھذیب التھذیب لابن حجر" وغیرہ میں امام صاحبؒ کے دیگر اقوال اور تفصیلات دیکھے جاسکتے ہیں؛ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ دیگر ائمہ فن جرح وتعدیل کے اقوال کی طرح امام صاحبؒ سے کثیر راویوں کے متعلق یقیناً جرح وتعدیل منقول نہیں ہے، اس کی دووجہ ہیں: (الف)ابتدءًا رواۃ میں ضعفاء کی تعداد کم تھی؛ کیونکہ اکثر تابعی تھے اور ان کے اساتذہ صحابہؓ تھے اور یہ سب عادل وثقہ تھے، اس لیے اس وقت امام صاحبؒ نے جہاں ضروری سمجھا جرح کی؛ چونکہ ثقاہت وعدالت عام تھی، اس لیے زیادہ تعدیل مروی ہے۳۳؎، دوسری صدی کے نصف کے بعد ضعفاء کی تعداد میں اضافہ ہوا، اس لیے اس دور کے ائمہ فن رجال کے اقوال زیادہ راویوں کے متعلق ملتے ہیں، جیسا کہ علامہ ذھبیؒ اپنے رسالہ "ذکر من یعتمد فی الجرح والتعدیل" میں اس بات کواچھی طرح واضح کیا ہے۔ (ب)دوسری وجہ یہ کہ "تھذیب الکمال" کی تلخیض "تذھیب التھذیب" کے نام سے ہوئی؛ پھراس کی تلخیص "تھذیب التھذیب" کی گئی، ان تلخیصات میں امام صاحبؒ کے اقوال قصداً حذف کردیئے گئے، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ترمذیؒ نے "کتاب العلل" میں جہاں امام ابوحنیفہؒ کاقول جابر جعفی کے متعلق نقل فرمایا ہے، حافظ ابوبکر بیہقی، حافظ ابن حجر وغیرہ نے اسی کے حوالہ سے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، لیکن آج کے موجودہ نسخوں سے حذف کردیا گیا، ظاہر ہے کہ جس طرح اس کتاب پر سے ہاتھ صاف کیا گیا اسی طرح دیگر کتب میں بھی یہی معاملہ کیا گیا ہو تو بعید ازقیاس نہیں ہے۔ بہرحال سطورِ بالا سے یہ بات منقح ہوگئی کہ امام ابوحنیفہؒ کوراویوں کے جرح وتعدیل میں اہم مقام حاصل تھا اور آپ کے اقوال کوائمہ حدیث بطورِ سند نقل کیا کرتے تھے اور حدیث کی صحت وضعف میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے کوغیرمعمولی اہمیت ہوا کرتی تھی۔