انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بنواُمیہ کا قتلِ عام عباسیوں کے ہاتھ سے خلافتِ اسلامیہ کوجوقوم یاخاندان وراثاً اپنا حق سمجھے وہ سخت غلطی اور ظلم میں مبتلا ہے، بنواُمیہ نے اگرحکومتِ اسلامی کواپنی ہی قوم اور خاندان میں باقی رکھا چاہا تویہ ان کی غلطی تھی، بنوعباس یابنوہاشم اگراس کواپنا خاندانی حق سمجھتے تھے تویہ بھی ان کی غلطی وناانصافی تھی مگر چونکہ دنیا میں عام طور پرلوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں؛ لہٰذا سلطنت اور حکومت میں بھی حقِ وراثت کوجاری سمجھا جاتا ہے، اس بناپر جوشخص کسی غاصب سلطنت سے اپنا حق یعنی سلطنت واپس چھینتا ہے وہ اکثر قتل وتشدد سے کام لیا کرتا ہے؛ لیکن اس قتل وتشدد کوبنوعباس نے بنواُمیہ کے حق میں جس طرح روارکھا ہے اس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی، ہاں تاریخی زمانہ سے گذرکر اگرنیم تاریخی حکایات کوقابلِ اعتنا سمجھا جائے توبختِ نصر نے بنی اسرائیل کے قتل کرنے میں بڑی سفاکی وبے باکی سے کام لیا تھا اور بنی اسرائیل کوصفحہ ہستی سے مٹادینا چاہا تھا؛ مگرہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی قوم آج تک دُنیا میں موجود ہے، اس سے بھی بڑھ کرہندوستان میں آریوں نے غیرآریوں پرظلم وستم کی انتہا کردی تھی؛ مگرکوہ ہمالہ اور بندھیا چل کے جنگلوں اور راجپوتانہ کے ریگستانوں نے غیرااریوں کی نسلوں کواپنی آغوش میں چھپائے رکھا اور ہندوؤں کی شودرقوموں کی صورت میں وہ آج بھی ہندوستان کی آبادی کا ایک قابل قدر حصہ سمجھے جاتے ہیں، ہندوستان کے آریہ بھی ایرانی وخراسانی لوگ تھے، عباسیوں کے خراسانی سپہ سالار بھی بنواُمیہ کے قتل وغارت میں عباسیوں کوایسے مظالم اور ایسے تشدد پرآمادہ کرسکے کہ ہندوستان کے غیرآریوں کی مظلومی کے افسانے درست نظر آنے لگے۔ دُنیا کی خفیہ ایجنسیوں کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حفیہ سازشوں کوکامیاب بنانے والے حد سے زیادہ قتل وخوں ریزی اور مظالم وبے رحمی کا ارتکاب کرسکتے ہیں، اس تاریخِ اسلام میں بھی ہم برابر اس بات کا ثبوت پاتے چلے آئے ہیں، خاندان بنواُمیہ سے خلافت اسلامی کا نکالنا کوئی جرم نہ تھا؛ لیکن خاندانِ بنواُمیہ سے خلافت اسلامیہ کونکال کرایک دوسرے خاندان کواسی طرح خلافتِ اسلامیہ کا سپرد کردینا ہرگز کوئی خوبی کی بات نہ تھی، اسلام اور عالمِ اسلام کواس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا؛ لہٰذا بنوعباس کونہایت ہی قابل شرم خوں ریزی اور قتل وغارت کا ارتکاب کرنا پڑا۔ ابومسلم اور قحطبہ بن شبیب اور دوسرے نقبا اہلِ بیت نے خراسان کے شہروں میں جس قدر قتلِ عام کا بازار گرم کیا اس کا کچھ تھوڑا تھوڑا تذکرہ اوپر کے صفحات میں آچکا ہے، امام ابراہیم نے خود ابومسلم کواپنے آخری خط میں تاکیدی طور لکھا تھا کہ خراسان میں وہی عربی بولنے والے کوزندہ نہ رکھنا اس سے بھی ان کا مدعا یہی تھا کہ بنواُمیہ کے طرف دار لوگ خراسان میں وہی عربی قبائل تھے جوفاتحانہ خراسان میں سکونت پذیر تھے، باشندگانِ خراسان جونومسلم تھے وہ سب کے سب دعوت عباسیہ کے معمول بن سکتے تھے، ابومسلم نے قتل کرائے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملکِ خراسان میں جوکثیرالتعداد عربی قبائل پہنچ کراس ملک کی زبان، معاشرت، تمدن کوعربی بنانے میں کامیابی حاصل کررہے تھے، سب کے سب قتل ہوگئے اور عربی عنصر جوتمام ملک کواپنا ہم رنگ بنارہا تھا یک لخت مغلوب وبے اثر اور ناپید ہوگیا، جس کی وجہ سے ایرانی زبان وتمدن ایرانی معاشرت ایرانی اخلاق مرتے مرتے پھرزندہ ہوگئے اور ایران وخراسان جومصر کی طرح سے آج عربی ملک ہوتے؛ پھرفارسی ملک بن گئے، ابومسلم خود خراسانی اور ایرانی النسل تھا؛ اس لیے عربوں کے قتل سے زیادہ دوسرا دلچسپ کام نہیں ہوسکتا، قومی تعصب جس کواسلام نے بالکل مٹادیا تھا عہدِ بنواُمیہ ہی میں پھرعود کرآیا تھا او راسی قومی عصبیت اور قبائلی افتراق کے واپس آجانے کا نتیجہ تھا کہ بنواُمیہ نے کس طرح تمام عربی قبائل بالخصوص بنوہاشم کومجبور بنادیا تھا اس لیے وہ ہرایک اس شخص کوجس کی نسبت انھیں معلوم ہوجاتا تھا کہ یہ قبیلہ بنواُمیہ سے تعلق رکھتا ہے نہایت خوف اور دہشت کی نگاہ سے دیکھتے تھے؛ انھوں نے قابوپاتے ہی اپنی تمام قوت اس خوف وخطرہ سے محفوظ رہنے کے لیے صرف کردی اور مصمم ارادہ کرلیا کہ اس قبیلہ کوصفحہ ہستی سے نیست ونابود کردیا جائے۔ عبداللہ سفاح کا چچا عبداللہ بن علی جب ۵/رمضان سنہ۱۳۲ھ کودمشق میں داخل ہوا ہے تواس نے قتلِ عام کا حکم دیا، جب آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد بوصیر میں قتل ہوچکا توعباسیوں کے لیے سب سے ضروری کام بنواُمیہ کا استیصال تھا؛ لیکن خلافتِ بنواُمیہ کے قصر رفع کومنہدم کرنے کے کام میں بعض بنواُمیہ بھی عباسیوں کے شریک ہوگئے اور فاتح عباسیوں کے ساتھ ساتھ عزت وتکریم کے ساتھ رہتے تھے؛ اسی طرح بنواُمیہ کی نسل کا تخم سوحت ہونا ممکن نہ تھا؛ لیکن ابومسلم اس کام پرکمرہمت باندھ چکا تھا، اس نے عبداللہ سفاحاور عباسی سرداروں کوبار بار لکھا کہ بنواُمیہ کے کسی فرد کوچاہے وہ کیسا ہی ہوہمدرد وبہی خواہ کیوں نہ ہوہرگز زندہ نہ چھوڑا جائے اس مشورے پرعمل توہوا لیکن بعض ایسے افراد تھے جنھوں نے بڑی بڑی جمعیت کے ساتھ عین نازک وخطرناک موقعوں پرعباسیوں کی شرکت اور اُموی خلیفہ کی بغاوت اختیار کرکے نہایت ابسم امداد پہنچائی تھی، ان کوقتل کرنے سے انسانی شرافت مانع تھی، ابومسلم نے یہ اہتمام کیا کہ شاعروں اور مصاحبوں کوجوعباسی خلیفہ اور عباسی سپہ سالاروں کے دربار میں آمدورفت رکھتے تھے، رشوتیں بھیج بھیج کراور اپنی طرف سے لوگوں کویہ تعلیم دے دے کرروانہ کیا کہ دربار میں جاکر ایسے اشعار پڑھیں اور ایسی باتیں کریں کہ جس سے بنواُمیہ کی نسبت عباسیوں کا غصہ بھڑکے اور ان کی طبیعت میں انتقام اور قتل کے لیے اشتعال پیدا ہو؛ چنانچہ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ عباسیوں نے چن چن کرہرایک بنواُمیہ کوقتل کردیا، سفاح نے سلیمان بن ہشام بن عبدالملک کوسروربار ایک ایسے ہی شاعر کے اشتعال انگیز اشعار سن کربلاتوقف قتل کرادیا؛ حالانکہ سلیمان بن ہشام عبداللہ سفاح کی مصاحبت میں موجود اور اس کا بڑا ہمدرد تھا، عبداللہ بن علی جن دنوں فلسطین کی طرف تھا وہاں نہرابی فطرس کے کنارے دسترخوان پربیٹھا کھانا کھارہا تھا اور اسی نوے بنواُمیہ اس کے ساتھ کھانے میں شریک تھے اسی اثنا میں شبل بن عبداللہ آگیا اس نے فوراً اپنے اشعار پڑھنے شروع کیے جن میں بنواُمیہ کی مذمت اور امام ابراہیم کے قید ہونے کا ذکر کرکے بنواُمیہ کے قتل کی ترغیب دی گئی تھی، عبداللہ بن علی وعبداللہ سفاح کے چچا نے اسی وقت حکم دیا کہ ان سب کوقتل کردو اور اس کے خادموں نے فوراً قتل کرنا شروع کردیا ان میں بہت سے ایسے تھے جوبلکل مرگئے تھے، بعض ایسے بھی تھے کہ وہ زخمی ہوکر گرپڑے تھے؛ مگر ابھی ان میں دم باقی تھی، عبداللہ بن علی نے ان سب مقتولوں اور زخمیوں کی لاشوں کوبرابر لٹاکراُن کے اُوپر دسترخوان بچھوایا اس دسترخوان پرکھانا چنا گیا اور عبداللہ بن علی معہ ہمراہیوں کے پھراس دسترخوان پربیٹھ کرکھانا کھانے میں مصروف ہوا، یہ لوگ کھانا کھارہے تھے اور ان کے نیچے وہ زخمی جوابھی مرے نہیں تھے کراہ رہے تھے؛ حتی کہ یہ کھانا کھاچکے اور وہ سب کے سب مرگئے ان مقتولوں میں محمد بن عبدالملک بن مروان، معز بن یزید، عبدالواحد بن سلیمان، سعید بن عبدالملک، ابوعبیدہ بن ولید بن عبدالملک بھی تھے، بعض کا بیان ہے کہ ابراہیم معزول خلیفہ بھی انھیں میں شامل تھا، اس کے بعد عبداللہ بن علی بن عبداللہ بن عباس نے خلفائے بنواُزیہ کی قبروں کوآکرکھدوایا، عبدالملک کی قبر سے اس کی کھوپڑی برآمد ہوئی، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی قبر میں سے کچھ نہ نکلا، بعض قبروں سے بعض بعض اعضاء برآمد ہوئے، باقی سب مٹی بن چکے تھے، ہشام بن عبدالملک کی قبر کھودی گئی توصرف ناک کی اُونچائی جاتی رہی تھی، باقی تمام لاش صحیح سالم نکلی، عبداللہ بن علی نے اس لاش کوکوڑے لگوائے؛ پھراس کوصلیب پرچڑھایا؛ پھرجلاکراس کی راکھ ہوا میں اُڑادی۔ عبداللہ بن علی کے بھائی سلیمان بن علی بن عبداللہ بن عباس نے بصرہ میں بنواُمیہ کے ایک گروہ کوقتل کرکے لاشوں کوراستے میں بچھادیااور دفن کرنے کی ممانعت کردی، ان لاشوں کومدتوں کتے کھاتے رہے، عبداللہ بن علی کے دوسرے بھائی یعنی سفاح کے چچاداؤد بن علی نے مکہ ومدینہ اور حجازویمن میں چن چن کرایک ایک اموی کوقتل کرادیا اور بنواُمیہ میں سے کسی کا نام ونشان باقی نہ رکھا؛ غرض تمام ممالک محروسہ میں حکم عام جاری کردیا گیا کہ جہاں کوئی بنواُمیہ نظر آئے اس کوبلادریغ قتل کردیا جائے، ولایتوں کے والی اور شہروں کے حاکم جوعموماً عباسی تھے اپنی اپنی جگہ اس تجسس میں مصروف رہنے لگے کہ کہیں کسی بنواُمیہ کا پتہ چلے اور اس کوقتل کیا جائے؛ یہاں تک کہ جس طرح کسی درندے کا شکار کرنے کے لیے لوگ گھر سے نکلتے ہیں اس طرح بنواُمیہ کا شکار رنے کے لیے روزانہ لوگ گھروں سے نکلتے تھے، بنواُمیہ کے لیے کوئی مکان، کوئی گاؤں، کوئی قصبہ، کوئی شہر جائے امن نہ رہا اور برسوں ان کی تلاش کرکرکے عباسی لوگ قتل کرتے رہے، خراسان میں ابومسلم نے یہ کام اور بھی زیادہ اہتمام وہمت کے ساتھ انجام دیا تھا، اس نے نہ صرف بنواُمیہ بلکہ ان لوگوں کوبھی جنھوں نے کبھی نہ کبھی بنواُمیہ کی حمایت یاکوئی خدمت انجام دی تھی قتل کرادیا، اس قتلِ عام میں جولوگ بچ بچ کرایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ کرجاسکے، انھوں نے اپنا بھیس بدل بدل کرنام اور قوم دوسری بتا بتا کرایک جگہ سرحدوں کی طرف رُخ کیا، خراسان کے صوبوں اور ولایتوں میں یہ قتلِ عام چونکہ بہت زیادہ سخت وشدید تھا؛ لہٰذا یہاں جوبنواُمیہ اور ان کے ہمدرد قبائل تھے، وہ سندھ، کوہ سلیمان اور کشمیر کی طرف بھاگ کرپناہ گزین ہوئے، جن لوگوں نے اپنے قبیلوں کے نام بدل دیے تھے وہ بھی رفتہ رفتہ اسلامی حکومت کی حدود سے باہر نکل آئے؛ کیونکہ ان کوسلطنتِ عباسیہ کی حدود میں اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا تھا، یہ مغرور عربی قبائل جوسندھ وکشمیر وپنجاب وغیرہ کی طرف بھاگ کرآئے تھے اُن کی نسلیں کہا جاتا ہے کہ آج تک ہندوستان میں موجود ہیں اور اپنے بدلے ہوئے ناموں اور پیشوں کی وجہ سے اپنے عربی نژاد ہونے کوبھول گئی ہیں، بنواُمیہ کا ایک شخص عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام شکار ہوتے ہوتے بال بال بچ گیا اور فرار ہوکر مصروقیران ہوتا ہوا اندلس میں پہنچ گیا اور اندلس چونکہ دعوتِ عباسیہ کے اثر سے نسبتاً پاک تھا اور وہاں بنواُزیہ کے ہواخواہ بکثرت موجود تھے؛ لہٰذا اندلس پہنچتے ہی ا سملک پرقابض ہوگیا اور ایک ایسی سلطنت وخلافت قائم کرنے میں کامیاب ہوا جس کوعباسی خلفاء ہمیشہ رشک کی نگاہوں سے دیکھت رہے اور اس اُموی سلطنت کا کچھ نہ بگاڑسکے۔