انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** موسی بن نصیر کی وفات موسی بن نصیر اس ناکامی ونامرادی کے عالم میں اگلے ہی سال یعنی ۹۷ھ میں اٹھتر سال کی عمر پاکر فوت ہوا موسی بن نصیر ۷۹ھ میں افیقہ کا گورنر ہوا تھا۔ مؤرخین نے اس موقعہ پر موسی وطارق کے اس مجہول انجام کو دیکھ کر سلیمان بن عبدالملک کو نشانۂ اعتراض بنایا ہے کہ اس نے ملک گیر وفتح مند سپہ سالاروں کی قدر دانی نہیں کی لیکن غور وتامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس معاملہ میں سلیمان بن عبدالملک اس قدر خطا وار ہر گز نہیں ہے جس قدر ظاہر کیا گیا ہے جس طرح ملک گیری ایک قابل قدر اور موجب عزت چیز ہے اس سے بڑھ کر ملک داری کا مرتبہ ہے ،ضروت ملک داری کا یہی تقاضہ تھا جو سلیمان بن عبدالملک سے ظہور میں آیا ،دنیا میں عام طور پر بہادر سپہ سالار اور ملک گیر فتح مند مالی معاملات میں بہت کمزور اور بے پرواہ ثابت ہوئے ہیں اس بے پروائی کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو سپہ سالاری سے معزول کردیا تھا فاروق اعظم کا یہ فعل ہر گز محل اعتراض نہیں بن سکتا بلکہ عین ثواب اور راستی پر مبنی تھا بالکل یہی صورت موسی بن نصیر کے معاملہ کی ہے موسی بن نصیر سولہ سترہ سال سے افیقہ کی گورنری پر مامور تھا موسی بن نصیر کے ذمہ جو ملک افریقہ کے خراج کی بقایا تھی اور وہ بیت المال کا جس قدر مقروض تھا اگر اس کو محض اس لیے چھوڑ دیا جاتا کہ موسی کے زیر اہتمام ملک اندلس فتح ہوا ہے تو یہ بات دوسرے گورنروں کے لیے مثال ہوتی اور موسی بن نصیر کی جرأت ایک غلطی یا غفلت یا خیانت میں اور بھی زیادہ ترقی کرجاتی ہے۔ پھر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ موسی بن نصیر اور طارق کے معاملہ م یں سلیمان بن عبدالملک کے وزیروں مشیروں اور درباریوں میں کسی سے سلیمان بن عبدالملک کے متعلق سلیمان کی وفات کے بعد کوئی نکتہ چینی نہیں کی مسلمان مورخین نے اس معاملہ میں کسی حیرت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا جو دلیل اس بات کی ہے کہ موسی بن نصیر کے ساتھ کوئی غیر معمولی برتاؤ نہیں ہوا جو کچھ ہوا وہ عدل وانصاف کے خلاف نہ تھا ،خلفائے بنو امیہ کے مصائب بیان کرنے والے اور ان کی ہر ایک بات کو ناروا ثابت کرنے کی مستعدی دکھانے والے سب سے زیادہ بنو عباس تھے لیکن بنو عباس نے بھی اس خاص معاملے میں سلیمان کو بدنام نہیں کیا اور سلیمان کی اس ناقدرشناسی کا تذکرہ نہیں زبان پر نہیں لایا۔ ہمارے زمانے میں جب کہ یورپین مؤرخین ککی تصانیف بھی مسلمانوں کے مطالعہ میں آئیں اور بھی زمیادہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے ،یورپین مؤرخین فتح اندلس کے حالات لکھتے ہوئے ایک تو اس بات کو ثابت کرنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں کہ لرزیق کی سلطنت غیر معمولی طور پر کمزور ہوگئی تھی پھر بلا دلیل یہ کہتے ہیں کہ لرزیق کی رعایا اس سے باغی ہوکر مسلمانوں سے مل گئی تھی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت کو دیکھ کر اندلس کی رعایا ضرور مسلم فاتحین کو قدر ومحبت کی نگاہ سے دیکھنے لگی تھی لیکن رعایا ئے اندلس نے لڑائی اور مسلمانوں کی چڑھائی میں بجز اس کے کہ کونٹ جولین نے ذاتی طور پر انتقام لینے کے لیے مسلمانوں کو حملہ آور ہونے کی ترغیب دی اور ایک پادری نے اس معاملہ میں جولین کی تائید کی اور کوئی امداد مسلمانوں کو نہیں پہنچالی نیز یہ کہ مسلمان اپنی ایمانی طاقت اور اپنے قلب کی قوت کے ہوتے ہوئے ایسی سازشوں اور باغیوں کی امداد کے محتاج بھی نہ تھے عیسائی مؤرخ مسلمانوں کی اس غیر معمولی بہادری کے مرتبے کو کم کرنے کے لیے عجیب عجیب باتیں اور عجیب درعجیب افسانے تراشتے ہیں لیکن آخرمیں مجبور ہوکر طارق وموسی اور سلیمان تینوں کی اخلاقی شفات پر حملہ آور ہوکر اپنے دل کا بخار نکال لیتے ہیں۔