انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حد سے زیادہ تجاوز نہ کرے عبداللہ بن مغفل ؓ نے اپنے صاحبزادے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ (ابی داؤد،باب الاسراف فی الماء،حدیث نمبر:۸۸) ترجمہ:اےاللہ میں تجھ سے جنت کی دائیں جانب میں ایک سفید محل کاسوال کرتا ہوں۔ تو انہوں نے (منع کرتے ہوئے) کہا اے بیٹے اللہ سے جنت کا سوال کرو اورجہنم سے پناہ مانگو میں نے نبی پاکﷺ سے سنا کہ عنقریب اس امت میں ایسی جماعت ہوگی جو دعاء کرنے اورپاکی میں حد سے زیادہ تجاوز کرے گی۔ (ابوداؤد:۲۰۸،ابن ماجہ:۲/۲۷۵) ابو سعد کہتےہیں کہ میرے والد نے مجھے یہ دعاء کرتے ہوئے سنا: اَللّٰهُمَّ إنِّيْ أَسْألُکَ الْجَنَّةَ وَنَعِيْمَهَا وَبَهْجَتِهَا وكذا وكذا وأعوذ بك من النار وسلاسلها وأغلالها وكذا وكذا (الذکر والدعاء،باب شروط الدعاء وآدابہ:۱/۳۳) تو انہوں نے کہا اے بیٹے میں نے نبی پاک ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرمارہے تھے ایک جماعت آئے گی جو دعاء کرنے میں حد سے متجاوز ہوجائے گی خبر دار تم ان میں سے نہ ہونا، اگر تم جنت میں داخل ہوگئے تو اس کے تمام خیر سے نوازے جاؤ گے،اگر جہنم سے بچ گئے تو اس کی تمام برائیوں سے محفوظ ہوگے۔ (الدعاء:۲/۵۶) فائدہ: دعاء میں حدود سے تجاوز کایہان یہ مفہوم ہے کہ شروخیر کے ہر جزئیات کو نہ لائے ؛بلکہ اصول کو مد نظر رکھے،مثلاً جہنم سے پناہ مانگے اوراس کے جزئیات ،مثلاً چنگاری،بیڑی،طوق،سانپ،بچھو،دریائے خون ،گرم پہاڑ،زقوم کو الگ الگ نہ کہے کہ جہنم میں تو سب آگئے، چنانچہ سعد بن مالک کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو یہ دعاء کرتے سنا اعوذبک من النار من زقومھا وسلا سلھا واغلالھا وسعیرھا تو انہوں نے (رد کرتے ہوئے) کہا کہ ہم لوگ عہد نبوت میں اس طرح دعاء نہیں مانگا کرتے تھے۔ (الدعاء:۲/۵۷) تجاوز کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ایسی دعاء مانگے جو ناممکن ہو مثلا نبوت کی دعاء ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حد سے زیادہ چیخے۔ (بذل المجہود:۲/۲۲۶،نزل الابرار:۳۹)