انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمر فاروقؓ ۱۔ جو شخص اپنا راز چھپاتا ہے وہ اپنا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ ۲۔ جس سے تم کو نفرت ہو اس سے ڈرتے رہو۔ ۳۔ آج کاکام کل پر اٹھا نہ رکھو۔ ۴۔ روپے،سراونچاکئے بغیر نہیں رہتے جو چیز پیچھے ہٹی پھر آگے نہیں بڑھی۔ ۵۔ جو شخص بُرائی سے بالکل واقف نہیں،وہ برائی میں مبتلا ہوگا۔ ۶۔ جب کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے تو مجھ کو اس کی عقل کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ۷۔ لوگوں کی فکر میں تم اپنے نفس سے غافل نہ ہو جاؤ۔ ۸۔دنیا تھوڑی سی لوتو آزادانہ بسر کرسکو گے۔ ۹۔توبہ کی تکلیف سے گناہ کا چھوڑدینا زیادہ آسان ہے۔ ۱۰۔ہر بددیانت پر میرے دوداروغے متعین ہیں،آب وگل۔ ۱۱۔اگرصبروشکر دو سواریاں ہوتیں تو میں اس کی نہ پرواہ کرتا کہ دونوں میں سے کس پر سوار ہوں۔ ۱۲۔خدا اس شخص کا بھلا کرے جو میرے عیب میرے پاس تحفے میں بھیجتا ہے۔(یعنی مجھ پر میرے عیب ظاہر کرتا ہے) ۱۳۔سب سے زیادہ عاقل وہ شخص ہے جو اپنے افعال کی اچھی تاویل کرسکتا ہو۔ (الفاروق از علامہ شبلی نعمانی:۴۵۱،۴۵۵) ۱۴۔سردار بننے سے پہلے دینی سمجھ حاصل کرلو۔ (سنن الدارمی،المقدمۃ،باب فی ذھاب العلم،رقم الحدیث:۲۵۲) ۱۵۔جس طرح تم قرآن سیکھتے ہو اسی طرح علم میراث، عربی زبان اورسنتوں کو بھی سیکھو۔ (سنن الدارمی،کتاب الفرائض،باب فی تعلیم الفرائض،رقم الحدیث:۲۷۲۶) ۱۶۔علم کو لکھ کر محفوظ کرلو۔ (سنن الدارمی،المقدمۃ،باب من رخص فی کتابۃ العلم،رقم الحدیث:۴۹۸) ۱۷۔کسی بندےنے غصے کے گھونٹ سے زیادہ شیریں گھونٹ دودھ یا شہد کا کبھی نہیں پیا۔ ۱۸۔معد بن عدنان کی ہیئت اختیار کرو یعنی عجم کا لباس اوران کی ہیئت اختیار نہ کرو اورشدائد پر صبر کرو اورموٹا پہنو یعنی خوش پروری میں نہ پڑو۔ (سیرۃ المصطفیٰ للکاندھلوی:۱/۷۰) ۱۹۔پیٹ بھر کر کھانے سے بچو ؛کیونکہ یہ زندگی میں بھاری پن کا سبب ہے اور مرنے کے وقت گندگی اور عفونت ہے۔ ۲۰۔جو چیز تمہیں تکلیف دیتی ہے اس سے تم کنارہ کشی اختیار کرلو۔ ۲۱۔نیک آدمی کو دوست بناؤ؛ لیکن ایسا آدمی مشکل سے ملے گا۔ ۲۲۔اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لوجو اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۴) ۲۳۔جوزیادہ ہنستا ہے اس کا رعب کم ہوجاتا ہے۔ ۲۴۔جو مذاق زیادہ کرتا ہے لوگوں کی نگاہ میں وہ بے حیثیت ہوجاتا ہے۔ ۲۵۔جو کسی کام کو زیادہ کرتا ہے وہ اسی کام کے ساتھ مشہور ہوجاتا ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۶) ۲۶۔بہت زیادہ کھانے سے بچو؛ کیونکہ زیادہ کھانے سےجسم خراب ہوجاتا ہے اور اس سے کئی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور نماز میں سستی آجاتی ہے ،لہذا کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو ؛کیونکہ میانہ روی سے جسم زیادہ ٹھیک رہتا ہے اور اسراف سے انسان زیادہ دور رہتا ہے۔ ۲۷۔عمل میں قوت اورپختگی اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ تم آج کا کام کل پر نہ چھوڑو ؛کیونکہ جب تم ایسا کرو گے تو تمہارے پاس بہت سارے کام جمع ہوجائیں گے پھر تمہیں پتہ نہیں چلے گا کہ کونسا کام کرو اورکونسا نہ کرو اوریوں بہت سارے کام رہ جائیں۔ ۲۸۔اگر تمہیں دوکاموں میں اختیار دیا جائے جن میں سے ایک کام دنیا کا ہو اوردوسرا آخرت کا تو آخرت والے کام کو دنیا والے کام پر ترجیح دو؛کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۲/۱۶۹،کنز العمال:۸/۲۰۹) ۲۹۔جو لوگوں کے ساتھ انصاف کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی جان پر جو مشقت جھیلنی پڑے اسے جھیلتا ہے،اسے اپنے تمام کاموں میں کامیابی ملےگی۔ ۳۰۔اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی وجہ سے ذلت اٹھانا نافرمانی کی عزت کی بہ نسبت نیکی کے زیادہ قریب ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۷،کنزالعمال:۸/۲۳۵) ۳۱۔حکمت ودانائی عمر بڑی ہونے سے حاصل نہیں ہوتی؛بلکہ یہ تو اللہ کی دین ہے جسے اللہ چاہتے ہیں عطا فرمادیتے ہیں۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۷،کنز العمال:۸/۲۳۵) ۳۲۔مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میری صبح کس حالت پر ہوتی ہے،میر ی پسندیدہ حالت پر یاناپسندیدہ حالت پر؛کیونکہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ جو میں پسند کررہا ہوں اس میں خیر ہے یا جو مجھے پسند نہیں اس میں خیر ہے۔ (کنز العمال:۲/۱۴۵) ۳۳۔یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ لالچ فقر کی نشانی ہے اورناامیدی سے انسان غنی ہوجاتا ہے،آدمی جب کسی چیز سے نا امید ہوجاتا ہے تو آدمی کو اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۹۱) ۳۴۔جب بندہ اللہ تعالی کی وجہ سے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی قدر ومنزلت بڑھادیتے ہیں اور فرماتےہیں ‘‘بلند ہوجا اللہ تجھے بلند کرے’’یہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے لیکن لوگوں کی نگاہ میں بڑا ہوتا ہے۔ ۳۵۔جب بندہ تکبر کرتا ہے اور اپنی حد سے آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالی اسے توڑکر نیچے زمین پر گرادیتے ہیں اور فرماتے ہیں دور ہوجا اللہ تجھے دور کرے اور یہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے ؛لیکن لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ان کے نزدیک سورسے بھی زیادہ حقیر ہوجاتا ہے۔ (کنزالعمال:۲/۱۴۳) ۳۶۔ہم تو سب سے زیادہ ذلیل قوم تھے،اللہ تعالی نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت عطافرمائی،اب جس اسلام کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہمیں عزت عطا فرمائی ہے ہم جب بھی اس کے علاوہ کسی اورچیز سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالی ہمیں ذلیل کردیں گے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۷۳۶) ۳۷۔تین باتوں سے اسلام منہدم ہوتا ہے: ۱۔عالم کی لغزش ۲۔منافق جو کتاب اللہ کے ذریعہ جھگڑا قائم کرے ۳۔گمراہ حکام کے فیصلے (السنن للدارمی،المقدمۃ،باب فی کراھیۃ اخذالرائ،رقم الحدیث:۲۱۶، ۱/۷۳۶) حضرت سعید بن مسیب ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے لوگوں کے لئے اٹھارہ باتیں مقرر کیں جو سب کی سب حکمت ودانائی کی باتیں تھیں۔ انہوں نے فرمایا: ۱۔جوتمہارے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے تم اسے اس جیسی اورکوئی سزا نہیں دے سکتے کہ تم اس کے بارے میں اللہ کی اطاعت کرو۔ ۲۔اپنے بھائی کی بات کو کسی اچھے رخ کی طرف لے جانے کی پوری کوشش کرو،ہاں اگر وہ بات ہی ایسی ہو کہ اسے اچھے رخ کی طرف لے جانے کی تم کوئی صورت نہ بناسکو تو اوربات ہے۔ ۳۔مسلمان کی زبان سے جو بول بھی نکلا ہے اور تم اس کا کوئی بھی خیر کا مطلب نکال سکتے ہو تو اس سے برے مطلب کا گمان مت کرو۔ ۴۔جو آدمی خود ایسے کام کرتا ہے جس سے دوسروں کو بد گمانی کا موقع ملے تو وہ اپنے سے بد گمانی کرنے والے کو ہرگز ملامت نہ کرے۔ ۵۔جواپنے راز کو چھپائے گا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔ ۶۔سچے بھائیوں کے ساتھ رہنے کو لازم پکڑو،ان کے سایہ خیر میں زندگی گزارو؛کیونکہ وسعت اوراچھے حالات میں وہ لوگ تمہارے لئے زینت کا ذریعہ اورمصیبت میں حفاظت کا سامان ہوں گے۔ ۷۔ہمیشہ سچ بولو،چاہے سچ بولنے سے جان ہی چلی جائے۔ ۸۔بے فائدہ اوربیکار کاموں میں نہ لگو۔ ۹۔جو بات ابھی پیش نہیں آئی اس کے بارے میں مت پوچھو؛ کیونکہ جو پیش آچکا ہے اس کے تقاضوں سے ہی کہاں فرصت مل سکتی ہے۔ ۱۰۔اپنی حاجت اس کے پاس نہ لے جاؤ جو یہ نہیں چاہتا کہ تم اس میں کامیاب ہو جاؤ۔ ۱۱۔جھوٹی قسم کو ہلکانہ سمجھو ورنہ اللہ تعالی تمہیں ہلاک کردیں گے۔ ۱۲۔بدکاروں کے ساتھ نہ رہو ورنہ تم ان سے بدکاری سیکھ لو گے۔ ۱۳۔اپنے دشمن سے الگ رہو۔ ۱۴۔اپنے دوست سے بھی چوکنے رہو؛لیکن اگر وہ امانتدار ہے تو پھر اس کی ضرورت نہیں اورامانتدار صرف وہی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہو۔ ۱۵۔قبرستان میں جاکر خشوع اختیار کرو۔ ۱۶۔جب اللہ کی فرمانبرداری کا کام کرو تو عاجزی اورتواضع اختیار کرو۔ ۱۷۔جب اللہ کی نافرمانی ہوجائے تو اللہ کی پناہ چاہو۔ ۱۸۔اپنے تمام امور میں ان لوگوں سے مشورہ کیا کرو جو اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں ؛کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: "إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ" (فاطر:۲۸) "خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت کا علم رکھتے ہیں" (کنز العمال:۸/۱۳۵،حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۵) حضرت عمرؓ فرماتے ہیں "اس امر خلافت کا ذمہ دار اس شخص کو ہی بننا چاہیے جس میں یہ چار خوبیاں پائی جاتی ہوں": ۱۔نرمی ہو لیکن کمزوری نہ ہو۔ ۲۔مضبوطی ہولیکن درشتی نہ ہو۔ ۳۔احتیاط سے خرچ کرتا ہو لیکن کنجوس نہ ہو۔ ۴۔سخی ہو ؛لیکن فضول خرچ نہ ہو۔ اگر اس میں سے ان میں ایک خوبی بھی نہ ہوئی تو باقی تینوں خوبیاں بیکار ہوجائیں گی۔ (حیاۃ الصحابۃ:۲/۵۷) (۱)دنیا کی عزت مال میں ہے اور آخرت کی عزت اعمال ِ صالحہ میں ہے۔ (۲)لوگوں سے اچھی طرح برتاؤ کرنا آدھی عقل ہے ، بات کو اچھی طرح پیش کرنا آدھا علم ہے ، اور حسنِ تدبیر نصفِ معیشت ہے ۔ (۳)سب سے عمدہ دولت زبان کی حفاظت ہے ، سب سے عمدہ لباس تقویٰ ہے ، سب سے عمدہ مال قناعت ہے ، سب سے عمدہ نیکی مسلمان کی خیر خواہی ہے اور سب سے مزہ دار کھانا صبر ہے ۔ (۴)جو شخص زیادہ ہنستا ہے اس کا دبدبہ کم ہوجاتا ہے ، جو لوگوں کی تذلیل کرتا ہے خود ذلیل ہوتاہے ، جس چیزکی کثرت کرتا ہے اسی کے ساتھ موسوم ہوجاتا ہے ، جو بہت بولنے کا عادی ہو اس سے غلطیاں بہت ہوتی ہیں ، جو بہت غلطیاں کرے اس کی شرم گھٹ جاتی ہے ، جس کی حیاء کم ہوجاتی ہے اس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اور جس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کا دل مر جاتا ہے ۔ (۵)جو لا یعنی کو ترک کیا وہ حکمت سے نوازا جاتا ہے ، جو شخص بےجا نظر کو ترک کیا وہ خشوعِ قلب کی دولت سےسرفراز کیا جاتا ہے ، جو زیادہ کھانے سے پرہیز کرتا ہے اسے عبادت کی لذّت حاصل ہوتی ہے ، جو بےجا مذاق کو چھوڑ دیتا ہے اسے نورِ باطن عطا کیا جاتا ہے ، جو حبِ ِ دنیا کو ترک کرتا ہے اسے حبِ ِآخرت ملتی ہے ، جو دوسروں کی عیب گیری سے بچتا ہے اسے اپنے عیبوں کے اصلاح کی توفیق ملتی ہے ، اور جو اللہ کی ذات میں غور و خوض کو چھوڑ دیتا ہے وہ نفاق سے بری ہوجاتا ہے ۔ (۶)عقل بغیر تقویٰ کے درست نہیں رہتی ، بزرگی بغیر علم کے قائم نہیں رہتی ، نجات بغیر خشیتِ الٰہی کے حاصل نہیں ہوتی ، سلطنت بغیر انصاف کے قائم نہیں رہتی ، شرافت بغیر ادب کے معتبر نہیں ہوتی ، خوشی بغیر امن کے حاصل نہیں ہوتی ، مالداری بغیر سخاوت کے اچھی نہیں ہوتی ، فقر و فاقہ بغیر قناعت کے بھلا نہیں ہوتا ، بلندئ شان بغیر تواضع کے اچھی نہیں لگتی ، اور جہاد بغیر تیاری کے صحیح نہیں ہوتا ۔ (۷)میں اس امت پر سب سے زیادہ اس عالم سے خائف ہوں جو زبان کا عالم ہو مگر دل کا جاہل ۔ (۸)کسب کو چھوڑ کر مسجد میں نہ بیٹھو ، اور بغیر سبب اختیار کئےیہ مت کہو کہ اے اللہ مجھے رزق دے کیونکہ یہ خلافِ سنت ہے؛ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ آسمان سونا چاندی نہیں برساتا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خشکی اور دریا میں تجارت کیا کرتے تھے ، لہٰذا ان کی اقتداء انسب ہے ۔ (۹) جو لوگ دنیا جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے پاس مت جاؤ کیونکہ یہ سب اللہ جلّ و علیٰ کو ناراض کرنے والے ہیں ؛ اور بسا اوقات تم ان کے اسباب کو دیکھ کر اپنے انعامات کو حقیر جاننے لگو تو ناشکری میں مبتلا ہوجاؤگے ۔ (۱۰) سب سے زیادہ اہتمام کے قابل میرے نزدیک نمازہے جس نے نماز کی حفاظت کی اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا ، اور جس نے نماز کو ضائع کردیا تو وہ بدرجہ اولیٰ ضائع کردےگا ۔ (۱۱) سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ فرائض کو ادا کرے اور منہیات سے بچے اور اپنی نیت خدا کے ساتھ درست رکھے ۔