انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ہشام بن عاصؓ نام ونسب ہشام نام،ابومعیط کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے،ہشام بن عاص بن وائل ابن ہاشم بن سعید بن سہم قرشی، اموی، مشہور صحابی عمروبن عاص فاتح مصر کے چھوٹے بھائی تھے۔ (استیعاب:۲/۶۱۱ کنیت اصابہ میں ہے) اسلام وہجرت خوش بختی اوربدبختی عمر کے تفاوت پر منحصر نہیں،گو ہشامؓ عمروبن العاصؓ سے عمر میں چھوٹے تھے؛لیکن ان کی قسمت ان سے زیادہ اوران کا بخت ان سے زیادہ بیدار تھا؛چنانچہ عمروبن العاصؓ جب کفر کی ضلالت میں گھرے ہوئے تھے، اس وقت ہشام کی پیشانی پر اسلام کا نور چمک رہا تھا، اسلام کے بعد مہاجر قافلہ کے ساتھ حبشہ گئے،کچھ دنوں رہ کر آنحضرتﷺ کی ہجرت کی خبر سن کر مکہ واپس آئے، یہاں سے پھر مدینہ کا قصد کیا ؛لیکن باپ اوراہل خاندان نے قید کردیا، عرصہ تک محضور رہے،غزوۂ خندق کے بعد موقع ملا تو مدینہ آئے۔ (مستدرک حاکم:۳/۲۴۰) غزوات بدر، احد اورخندق وغیرہ کی لڑائیاں ان کے ایام اسیری میں ختم ہوچکی تھیں، البتہ خندق کے بعد جتنے معرکے پیش آئے سب میں داد شجاعت دی۔ (مستدرک حاکم:۳/۲۴۰) عہد خلفاء ہشام اس خاندان کے ممبر تھے،جو سپہ سالاری کے عہدہ جلیل کا حامل اوراپنی شجاعت وشہامت میں ممتاز تھا، اس لیے تلواروں کی چھاؤں میں ان کی نشوونما ہوئی تھی، آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں ان کی تلوار کے جوہر چمکے،پھر عہدِ فاروقی میں شام کی مہم میں شریک ہوئے،ایک ہی دو معرکوں کے بعد اجنادین کا معرکہ پیش آیا، اس میں قبقلاء اورتذارق رومی سپہ سالار ایک لشکر جرار کے ساتھ اجنادین میں مسلمانوں کے مقابلہ میں آئے، جمادی الاولیٰ ۱۳ھ میں دونوں کا سخت مقابلہ ہوا، (ابن اثیر :۲/۳۲۰) مسلمانوں میں کچھ کمزوری پیدا ہوچلی تھی، ہشام ؓ نے دیکھا تو جوش میں آکر سر سے خود اتار کر پھینک دی اورللکار کر بولے مسلمانو! یہ غیر مختون تلوار کے سامنے نہیں ٹھہرسکتے جو میں کرتا ہوں وہی تم کرو، یہ کہہ کر رومیوں کی صفیں چیرتے ہوئے قلب لشکر میں گھستے چلے گئے اورمسلمانوں کو غیرت دلاتے جاتے تھے کہ مسلمانو! میں عاص بن وائل کا بیٹا ہشام ہوں میرے ساتھ آؤ، تم لوگ جنت سے بھاگتے ہو، اسی طرح للکارتے،شجاعت اوربہادری سے لڑتے مارتے شہید ہوئے،(مستدرک حاکم:۳/۲۴۰،شہادت کا ذکر ابن اثیر ،جلد۲،وفتوح البلدان بلاذری:۱۲۰ میں بھی ہے) حضرت عمرؓ کو شہادت کا علم ہوا تو فرمایا خدا ان پر اپنی رحمت نازل کرے، اسلام کے بہترین مددگار تھے۔ (ابن سعد،جزو۴،ق۱،صفحہ:۱۴۳) ہشام کی شہادت کے بعد ایک مرتبہ چند قریشی خانہ کعبہ کے عقب میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عمروبن العاصؓ طواف کرتے ہوئے گذرے،ان کو دیکھ کر لوگوں نے آپس میں سوال کیا کہ ہشامؓ افضل تھے،یا عمروبن العاصؓ،عمروبن العاصؓ نے اس کو سن لیا، طواف ختم کرنے کے بعد آکرپوچھا،تم لوگ کیا باتیں کرتے تھے،انہوں نے کہا،تمہارا اور تمہارے بھائی کا مقابلہ کررہے تھے کہ دونوں میں کون افضل ہے ،کہا میں تم کو ایک واقعہ سناتا ہوں اس سے فضیلت کا انداز ہوجائے گا، ہم اور وہ دونوں یرموک کی جنگ میں شریک ہوئے اور رات بھر شہادت کے لیے دست بدعا رہے، صبح ہوئی تو ان کی دعا کا ثمرہ مل گیا اور میری دعا نا مقبول ہوئی،اس سے تم فضیلت کا اندازہ کرلو۔ (ابن سعد،جز۴،ق۱:۱۴۱،اس روایت میں اجنادین کے بجائے یرموک کا نام ہے،غالباً راوی سے سہو ہوگیا ہے، یا ان دونوں لڑائیوں کی قربت کی وجہ سے خود عمروبن العاصؓ کو اقتباس ہوگیا ورنہ اجنادین میں ان کی شہادت طے شدہ ہے) فضائل اسلام کی پختگی کا آخری درجہ ایمان ہے،ہشامؓ کا اسلام اسی درجہ میں تھا،خود زبان نبوتﷺ نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ابن العاص مومنان یعنی ہشامؓ وعمرؓ۔ (مسند احمد بن حنبل:۲/۳۵۳)