انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
جمعہ کے دن اذان کہاں دی جائے؟ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اذان جمعہ ایک ہی تھی جوکہ باب مسجد پرہوتی تھی، جب کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبرپرتشریف لے آتے تھے اور اس اذان کے بعد خطبہ ہوتا تھا، لوگ عامۃ سنتیں اپنے مکان سے پڑھ کرآتے تھے، اس اذان کی آواز مسجد کے باہر والوں کوبھی پہونچتی تھی اور اندروالوں کوبھی پہونچتی تھی، اذانِ خطبہ سے قبل اذان نہیں ہوتی تھی؛ یہی کیفیت شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دَور میں رہیں؛ پھرخلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مجمع بہت زیادہ ہونے لگا توایک اذان بازار میں زوراء مقام پرمتعین کی گئی؛ تاکہ بیرونِ مسجد دور تک آواز پہونچ جائے اور لوگ نماز کے لیے آجائیں، اس کے بعد ایک اور اذان امام کے سامنے اندرونِ مسجد کے لیے رہی؛ تاکہ حاضرینِ مسجد اس کوسن کرنوافل، تلاوت، تسبیح سے فارغ ہوجائیں اور خطبہ سننے کے لیے بیٹھ جائیں، اس اذان کا حال اقامت کی طرح ہے کہ وہ بھی حاضرینِ مسجد کے لیے ہے، اس میں آواز زیادہ بلند نہیں کی جاتی اور کسی بلند جگہ پربھی اس کا ہونا مستحب نہیں۔ اس مسئلہ پرمستقل ایک رسالہ ہے، جس کا نام تنشیط الاذان ہے، اس میں پوری تفصیل اور دلائل مذکور ہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۹۹،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۴۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ فتاویٰ عثمانی:۱/۵۵۸، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، یوپی۔ احسن الفتاویٰ:۴/۱۲۶، زکریا بکڈپو، دیوبند)