انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منکرینِ حدیث ہردور میں مثبت عنوان ہی سے آگے بڑھے ابتدائے آفرینش سے حق کے مقابلے میں باطل اور نُور کے بالمقابل ظلمت نبردآزمارہے ہیں آدم نےابھی خلعتِ خلافت نہ پہنی تھی کہ ابلیس ملائکہ کی صف سے علیحدہ ہوگیا اور ابراہیم علیہ السلام ابھی پیدا نہ ہوئے تھے کہ اقتدار نمرود کے ہاتھوں میں تھا، کون نہیں جانتا کہ حضرت موسیٰ کے بیدار ہونے سے پہلے تختِ مصر پرفرعون براجمان تھا، حدیث نبوی نے جس طرح قرآن کریم کے گرد حفاظت کا پہرہ دیا اور عملاً ایک امت کی تشکیل کی اور اُسے توارث عمل بخشا __________ ضروری تھا کہ اس کے بالمقابل پھرظلمت کی گھٹا اُٹھے، امت کواتحاد کی بجائے انتشار ملے، قرآن اپنے احکام کے تعین میں ممبرانِ اسمبلی کا دست نگر ہو اور عقل کی ہربدلتی لہرتعلیم نبوت کے کنارے توڑتی رہے، منکرینِ حدیث انہی تقاضوں سے اُٹھے اور مختلف عنوانوں سے سامنے آئے۔ انکارِ حدیث کی تحریک کسی دور میں منفی عنوانوں سے نہیں چلی، اُس نے اپنی منفی آواز کے لیئے ہمیشہ سے کسی نہ کسی مثبت عنوان کا سہارا لیا ہے، منکرین حدیث کبھی (۱)جامعیت قرآن کا نعرہ لے کراُٹھے کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں (یعنی حدیث کی ضرورت نہیں) کبھی اُن لوگوں نے کہا (۲)قرآن کریم کے ابدی قوانین ہرزمانے کے نئے تقاضوں کے تحت طے ہونے چاہیں، قرآنی احکام کی جوتشکیل حضورﷺ کے دور میں ہوئی وہ صرف اس دور کے لیئے تھی اس نئے دور میں قرآنی احکام کی تشکیل اسمبلیوں کے ذریعے ہونی چاہیے (۳)کبھی ان لوگوں نے بعض حدیثوں کے خلافِ عقل ہونےکا سہارا لیا اور ان کے ذریعہ کل ذخیرہ حدیث کوگدلا کرنا چاہا، ابتدائی عنوان ان کا یہ رہا کہ ہم ان حدیثوں کو کیسے مان لیں جن میں یہ مضامین ہیں __________ ان لوگوں نے چند متشابہات کے باعث کل احادیث ہی لائق انکار ٹھہرادیں اور (۴)کہیں انہوں نے باطنی تاویلات کی راہ سے احادیث کا انکار کیا کہ ہم اہلِ معرفت خود ہی حدیث کودیکھ لیتے ہیں، تمہارے ذخیرہ حدیث میں سے ہمیں کسی حدیث کی ضرورت نہیں، اہلِ قال اہلِ حال کوکیا سمجھیں __________ کوئی کچھ کہتا رہا کوئی کچھ __________ آوازیں مختلف اٹھتی رہیں؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت رہی اور اس میں شک نہیں کہ انکارِ حدیث کی تحریک پوری تاریخ میں کبھی منفی عنوان سے نہیں چلی، چودھویں صدی ہجری نے جہاں اور بہت سے گل کھلائے، انگریزی نبی کھڑے کیئے، فتنہ انکارِ حدیث کوبھی نیا عروج بخشا، اب یہ فتنہ اچھا خاصا معروف ہوچکا ہے اور کچھ لوگ اب منفی عنوان اختیارکرنے سے بھی نہیں چوکتے اور یہ تحریک اب زور پکڑتی جارہی ہے، ایک منکر حدیث کہتا ہے اور کتنا کھل کر کہتا ہے: "یہ سنت ہی تھی جس نے اسلام کے ابتدائی جمہوری مزاج میں بگاڑ پیدا کیا یہ سنت ہی تھی جس نے مسلمانوں کومتعدد فرقوں میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُن کی وحدت کوپارہ پارہ کردیا، یہ سنت ہی تھی جس نے بنوامیہ اور بنوعباس کے عہد میں مذہبی لوگوں کوغیرمعمولی اہمیت دلوائی اور یہ سنت ہی تھی جس نے دولتِ عثمانیہ کوناقابلِ علاج مریضوں کی آماجگاہ بنایا"۔ (بشکریہ روزنامہ تسنیم لاہور:۹/فروری سنہ۱۹۵۵ء، صفحہ:۱، کالم:۴) یادرکھیئے فتنہ انکارِ حدیث کی خود آنحضرتﷺ خبردے چکے تھے، حضرت مقدامؓ (۸۷ھ) کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: "أَلَايُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَاوَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَاوَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْمُقَدِّمَةِ،بَاب تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ،حدیث نمبر:۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:قریب ہے کہ ایک امیرآدمی اپنے صوفہ پر بیٹھے درس دے کہ تمھیں یہ قرآن کافی ہے تم اس میں جوحلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جس چیز کوحرام پاؤ اسے ہی حرام کہو۔ اس حدیث میں جہاں اس فتنے کی خبردی، ایک یہ اشارہ بھی کردیا کہ انکارِ حدیث کی آواز پہلے امراء کے اسی قسم کے حلقوں سے اُٹھے گی، لوگ صوفوں پر بیٹھے، کوٹھیوں میں محفلیں لگائے حدیث کا انکار کریں گے اور یہی لوگ ہیں جومنکرینِ حدیث کی صف باندھیں گے، پیشتر اس کے کہ ہم فتنہ انکارِ حدیث کی کچھ تفصیل کریں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ معتزلہ شیعہ اور قادیانیوں کے حدیثی موقف کوجوبعض پہلوؤں سے تحریک انکارِ حدیث سے مل جاتا ہے کچھ پہلے بیان کردیں؛ تاکہ ان میں اور اس زمانے کے دوسرے منکرین حدیث میں کچھ مطابقت واضح ہوجائے۔