انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** پڑوسی کے حقوق انسان کا اپنے رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ،ہوتاہے،اسلام نے اس تعلق کو بھی بہت اہمیت دی ہے اور اس کے لیے مستقل اور مفصل ہدایتیں دی ہیں،قرآن مجید میں جہاں ماں باپ ،میاں بیوی اوردوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے ،وہاں پڑوسیوں کے بارے میں بھی اس کی تاکید اورہدایت فرمائی گئ ہے،ارشاد ہے: "وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْبِ "۔ (النساء :۳۶) اس آیت میں تین قسم کے پڑوسیوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ہر قسم کے پڑوسی کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ "وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى"سےمراد وہ پڑوسی ہیں جن سے پڑوس کے علاوہ کوئی خاص قرابت بھی ہواور"وَالْجَارِ الْجُنُبِ"سے مرادوہ پڑوسی ہیں جن کے ساتھ کوئی اور تعلق رشتہ داری وغیرہ کانہ ہو صرف پڑوس ہی کا تعلق ہو جس میں غیر مسلم پڑوسی بھی داخل ہیں اور"وَالْجَارِ الْجُنُبِ"سے مرادوہ لوگ ہیں جن کا کہیں اتفاق سےساتھ ہوگیا ہو،جیسے سفر کے ساتھی یامدرسہ کے ساتھی یا ساتھ رہ کر کام کاج کرنے والے اس میں بھی مسلم غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے اور ان تینوں قسم کے پڑوسیوں اورساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کا اسلام نے ہم کو حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اس قدر سخت تاکید فرماتے تھے کہ ایک حدیث میں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جوشخص خدااوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو،وہ اپنے پڑوسی کو کوئی ایذااورتکلیف نہ دے"۔ (بخاری،من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر،حدیث نمبر:۵۵۶۰، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "وہ مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھرکھائے اورپہلو میں رہنے والا اس کا پڑوسی بھوکا رہے"۔ (مصنف بن ابی شیبہ:۷/۲۱۸، شاملہ،موقع يعسوب) ایک اورحدیث میں ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بڑے جلال کے ساتھ ارشاد فرمایا: "خداکی قسم وہ اصل مومن نہیں اللہ کی قسم وہ پورامومن نہیں واللہ وہ پورا مومن نہیں عرض کیا گیا:حضورکون پورامومن نہیں؟ارشادفرمایا:وہ مؤمن نہیں جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہیں"۔ (بخاری، باب إِثْمِ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَه،حدیث نمبر:۵۵۵۷، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اورحدیث میں ہے ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ "وہ آدمی جنت میں نہیں جائے گا جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی امن میں نہیں"۔ (مسلم،بیان تحریم ایذاءالجار،حدیث نمبر:۶۶،شاملہ، موقع الإسلام) ایک اور حدیث میں ہے کہ: "کسی صحابیؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا:حضورﷺ !فلاں عورت کے متعلق بیان کیاجاتا ہے کہ وہ بڑی نمازیں پڑھتی ہے،بہت روزے رکھتی ہے اورخوب خیرات کرتی ہے؛لیکن اپنی زبان کی تیزی سے پڑوس والوں کو تکلیف بھی پہونچاتی رہتی ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:"وہ دوزخ میں جائے گی"پھر ان ہی صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ اور فلانی عورت کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ نماز،روزہ اورخیرات تو بہت نہیں کرتی (یعنی نفل نمازیں نفل روزےاور نفل صدقے بمقابلہ پہلی عورت کے کم کرتی ہے)لیکن پڑوس والوں کو اپنی زبان سے کبھی تکلیف نہیں پہونچاتی؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:"وہ جنت میں جائے گی"۔ (مسند احمد،مسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر:۹۲۹۸،شاملہ، موقع الإسلام)