انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** لشکرِ اسلام کی روانگی غرض ماہ رجب ۹ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے،مدینہ سے ایک گھنٹہ کی مسافت کے فاصلہ ایک بستی ذی رواں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تھے کہ منافقین نے آکر عرض کیا کہ ہم نے ایک مسجد بنائی ہے ہماری خواہش ہے کہ آپ چل کر نماز ادا کریں تاکہ وہ مسجد بھی قابلِ تعظیم سمجھی جانے لگے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وقت سفر کی تیاری میں مصروف ہوں،واپسی کے وقت دیکھا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے نکل کر ثنیۃ الوداع نامی پہاڑی پر معسکر قائم کیا اورمحمد بن مسلمہؓ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر فرمایا، منافقوں کا سردار اعظم عبداللہ بن ابی بھی معہ اپنی جماعت کے شہر سے نکل کر ثنیۃ الوداع پہاڑی کے نشیبی دامن میں خیمہ زن ہوا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی ہمراہ چلنے پر آمادہ ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا منشاء لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانے سے روکنا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معہ لشکر آگے کو روانہ ہوئے تو منافقین عبداللہ بن ابی کے ہمراہ مدینہ کو واپس لوٹ آئے بعض منافق اس غرض سے کہ مخبری کرکے عیسائیوں کو مدد پہنچائیں، اسلامی لشکر میں شریک رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے اہل وعیال کی حفاظت کے لئے مدینہ میں چھوڑدیا تھا،مدینہ میں منافقوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت یہ کہنا شروع کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علیؓ کی کچھ پرواہ نہیں ہے، وہ ان کو بار خاطر سمجھتے تھے، اسی لئے ان کو چھوڑدیا ہے،حضرت علیؓ یہ سُن کر برداشت نہ کرسکے،مسلح ہوکر مدینہ سے چل دئے اورمقام الحرف میں مدینہ سے کوس بھر کے فاصلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ منافقین میری نسبت ایسی ایسی باتیں کرتے تھے اس لئے حاضر خدمت ہوگیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جھوٹے ہیں میں نے اپنے گھر بار کی حفاظت کے لئے تم کو مدینہ میں چھوڑا تھا تم واپس جاؤ اوران کی دل دہی کے لئے فرمایا کہ تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون ؑ کو موسیٰؑ سے تھی، مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، حضرت علیؓ وہاں سے پھر مدینہ کو واپس تشریف لے گئے، بعض صحابی جو کسی سستی یا غفلت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ نہ ہوسکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد مدینے سے روانہ ہوئے اور راستے کی منزلوں میں شریک لشکر ہوتے گئے ،بعض منافقین جو مسلمانوں کو بددل کرنے کے لئے شریک لشکر تھے، وہ راستہ کی مختلف منزلوں سے جُدا ہوکر واپس ہوتے رہے مگر ان کی اس حرکتِ نامعقول کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے حال سےکوئی تعرض نہ فرمایا اورجو راستہ میں رہ گیا اس کے متعلق پرواہ نہ کی،راستہ میں قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیاں آئیں،اس علاقہ کا نام حجر تھا،جب لشکر اسلام اس قطعہ اراضی میں داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے استغفا ر پڑھتے ہوئے جلدی گزرجاؤ اوریہاں کے کنوؤں کا پانی بھی نہ پیو اسی علاقہ حجر کے حدود میں ایک شب قیام کرنا پڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص تنہا لشکر گاہ سے باہر نہ نکلے، جب آپ تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈر کے قریب سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اپنا منھ چھپالیا اورسواری کو مہمیز لگا کر تیز کردیا،آپ صلی اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ظالموں اور گنہگاروں کی بستی میں جاؤ تو دوڑتے ہوئے استغفار پڑھتے ہوئے جاؤ کہ مباد ہ ہمیں بھی ایسی ہی مصیبت پیش نہ آجائے۔