انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** چنگیز خاں کے عہد حکومت پر تبصرہ چنگیز خاں مغلوں کی قوم میں بڑا عقلمند اوردور اندیش شخص پیدا ہوا تھا،اس کی وجہ سے مغلوں کی غیر معروف قوم تمام دُنیا میں مشہور ہوگئی،اُس نے ملک گیری کے نہایت اچھے اور پختہ اصول ایجاد اورقائم کئے،وہ اس بات سے واقف تھا کہ مغلوں کی وحشی اورجاہل قوم کو کسی وقت بیکار نہیں چھوڑنا چاہئیے، ورنہ پھر یہ آپس میں ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر تباہ ہوجائیں گے،چنانچہ اس نے ایک طرف مغلوں کو اتفاق واتحاد کی خوبیاں سمجھانے میں خاص توجہ اورکوشش سے کام لیا تو دوسری طرف ایسے آئین وقوانین قائم کئے کہ مغلوں کی فوج کسی وقت بیکار نہ رہے؛چنانچہ اس نے ایک مجموعۂ قوانین مرتب کیا اس مجموعۂ قوانین کا نام تورۂ چنگیزی تعیرات چنگیزی ہے مغلوں میں عرصۂ دراز تک تورۂ چنگیزی کا مرتبہ مذہبی اورآسمانی کتاب کی مانند سمجھا جاتا تھا، تورۂ چنگیزی میں شکار کے لئے بھی آئین قوانین درج ہیں،اورمغل بادشاہ کے لئے ضروری ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ جب فتوحات اورجنگ وپیکار سےفارغ ہوا تو آئین و دستور کے موافق مع فوج شکار میں مصروف ہو۔ چنگیز خاں کی خوں ریزی کے ساتھ جب اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ وہ متکبرانہ الفاظ کم استعمال کرتا تھا تو تعجب ہوتا ہے،چنگیز خاں جب کسی بادشاہ کے نام خط لکھتا تو اُس کو اوّل اپنی اطاعت پر آمادہ کرنا چاہتا اورآخر میں لکھتا کہ اگر تم نے اطاعت قبول نہ کی تو خدا جانے انجام کیا ہو،یہ نہ لکھتا کہ میں بہت بڑی جرّار فوج رکھتا ہوں اورتم کو ہلاک کرڈالوں گا وغیرہ،اسی طرح وہ ملکوں کی فتوحات کو بھی وہ اپنی یا اپنی فوج کی طرف منسوب نہ کرتا ؛بلکہ یہ کہتا کہ مجھ کو خدا ئے تعالیٰ نے فتح عنایت کی اورخدائے تعالیٰ نے مجھ کو بادشاہ بنایا ہے،اپنی نسبت لمبے چوڑے القاب اورمدح وستائش کے الفاظ نہ لکھنے دیتا،خود مثل دوسرے سپاہیوں کے تمام کام انجام دیتا خود بھی گھوڑے پر سوار ہوکر لمبی لمبی مسافتیں طے کرتا اوراپنے ہمراہی سواروں سے بھی بڑی بڑی منزلیں طے کراتا،اُس کا قول تھا کہ ہم کو ہمیشہ جفاکشی اورمحنت کا عادی رہنا چاہئے اسی میں ہماری سرداری اورفضیلت کا راز مضمر ہے۔ چنگیز خاں خود طویل القامت اورمضبوط جسم کا شخص تھا،وہ ہمیشہ لڑائی کے وقت صفِ اوّل میں نظر آتا اورجس طرف حملہ آور ہوتا،دشمن کی صفوں کو درہم برہم کردیتا تھا،اُس کی غیر معمولی فتوحات کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ اس کے بیٹے بھی اُسی کی طرح سپاہی منش اوربہادر جنگ جو تھے،نیز اُس نےمغلوں کی آپس کی رقابتیں دور کرکے اکثر قبائل میں جو اُس کے معاون ومدد گار تھے،اتفاق اورمحبتیں پیدا کردی تھیں۔ اُس نے پانچ شادیاں کی تھیں،اُس کی پانچوں بیویاں مختلف قبائل اورمختلف قوموں سے تعلق رکھتی تھیں، اس طرح اُس کے سُسرالی قبائل بھی اُس کو اپنا رشتہ دار سمجھ کر دل سے اُس کی خیر خواہی میں مصروف تھے،تورۂ چنگیزی کے قواعد وقوانین میں ایک یہ بھی اصول بیان ہوا ہے کہ بادشاہ جب کسی نئے شہر کو فتح کرے تو اوّل وہاں قتلِ عام کا حکم ضرور دے،جب فوج کو آزادانہ قتل عام کا موقعہ مل جائے اوراُس شہر کی بہت سی آبادی قتل ہوجائے تب امن وامان کا حکم دے کر باقاعدہ حاکم وہاں مقرر کرنا چاہئے، اس میں غالباً مصلحت یہ ہوگی کہ وہاں کی رعایا فاتحین سے مرعوب ہوجائے اورپھر کبھی بغاوت وسرکشی کا ارادہ نہ کرے اس قاعدے پر چنگیزخاں نے اپنی فتوحات میں ہمیشہ عمل کیا، اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو اُس زمانے کی متمدن دنیا میں سرکشی اورسازشی کوششوں کا اس قدر عام رواج ہوگیا تھا کہ کسی شہر کا کوئی حاکم اورکسی ملک کا کوئی بادشاہ باغیوں کے فتنوں سے محفوظ نظر نہ آتا تھا اور آئے دن بغاوتوں اورلڑائیوں کے ہنگاموں سے مخلوق خدا سخت پریشان تھی،علویوں ،ایرانیوں،شیعوں،فاطمیوں کے خروج کا سلسلہ کسی زمانے میں منقطع نہ ہوسکا تھا،عالمِ اسلام کے ان حالات اوردنیا کے ان واقعات سے چنگیز خاں کو جب واقفیت ہوئی تو اُس نے لوگوں کو خوف زدہ اور مرعوب کرنے کے لئے اُصول پر عمل کرنا ضروری سمجھا اوراس طرز عمل میں اُس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ مغلوں نے سوائے بغداد وعراق اورعرب وہند کے تمام برّاعظم ایشیا اورکسی قدر براعظم یورپ پر قبضہ کرلیا تھا،مغلوں کے ہاتھ سے اسلامی سلطنتیں زیادہ تباہ وبرباد ہوئیں اورمسلمان ہی اُن کی تلواروں سے زیادہ شہید ہوئے، بظاہر یہ معلوم ہوتا کہ مغلوں کے ہاتھ سے اسلام کا نام ونشان گم ہوجائے گا،مگر چونکہ اسلام کا محافظ خود خدائے تعالیٰ ہے اورشریعتِ اسلام ایسی چیز نہیں کہ کوئی مادی طاقت اس کو بربادیا مغلوب کرسکے،لہذا بد اعمال مسلمان تو مغلوں کے ہاتھ سے تباہ ہوگئے اور مغلوں کی تلوار مسلمانوں کے لئے تازیانہ بن گئی جس نے ان کو غفلت سے بیدار کیا،لیکن مغل خود چند ہی روز کے بعد اسلام کے غلام اورخادم نظر آئے، مغلوں کی اس بڑھی ہوئی طاقت اورسطوت کو دیکھ کر عیسائیوں نے بھی یہ کوشش کی کہ ہم مغلوں کو عیسائیت کی طرف متوجہ کردیں،لیکن عیسائیت کے اندر یہ جذب اورکشش کہاں سے آتی جو ایک فاتح اورجنگ جو قوم کو اپنا گرویدہ اورخادم بنالیتی،مغل درحقیقت دین ومذہب کے اعتبار سے لوحِ سادہ تھے،اُن کے آبائی مذہب میں جس کی تفصیلات آج ہم کو معلوم نہیں کسی مذہب سے کوئی عناد اورخواہ مخواہ کی دشمنی نہ تھی اس قوم کو خدائے تعالیٰ نے مغولستان کے پہاڑوں سے اسی لئے نکالاتھا کہ وہ فاتحانہ برا عظم ایشیا میں نکلے اور دینِ اسلام کی روشنی سے منور وبہرہیاب ہو،چنگیز خاں اوراُس کی قوم کا وجود بھی اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے جس طرح اسلام ایک مفتوح پر اپنا اثر ڈالتا ہے اسی طرح وہ فاتح کو بھی متاثر کرتا ہے عربوں نے تمام دنیا کو فتح کیا اورہر ملک میں فاتحانہ داخل ہوکر اسلام کے معلم بنے لیکن مغلوں نے غافل مسلمانوں کو مفتوح ومغلوب ومقتول بناکر اُس اثر کو اخذ کیا اوراُس مذہب کے آگے گردنیں جھکادیں جو اُن کے مسلمان مفتوحین کا مذہب تھا،اس اجمال کی تفصیل آ۷ندہ صفحات میں آنے والی ہے۔