انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
قیمت بڑھا کر بیچنے کے لئےچیزوں کی ذخیرہ اندوزی ذخیرہ اندوزی کوعربی میں احتکار کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ۔ (سنن ابن ماجہ، كِتَاب التِّجَارَاتِ،بَاب الْحُكْرَةِ وَالْجَلْبِ،حدیث نمبر:۲۱۴۴، شاملہ، موقع الإسلام۔) ترجمہ: ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔ چنانچہ خلفاءِراشدین رضی اللہ عنہ اس پرخاص نظر رکھتے تھے کہ لوگ ذخیرہ اندوزی کرکے بازار کوگراں نہ کریں، سیدنا عمررضی اللہ عنہ بسااوقات بازار میں اس کی نگرانی کیا کرتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک مقام سے گزرے اور ایک ذخیرہ اندوز تاجر کا مال دیکھا تواسے نذر آتش کرادیا، فقہاء نے بھی اسے مکروہ بلکہ حرام قرار دیا ہے؛ اس لیے اس کی وجہ سے بازار گراں ہوتا ہے اور عام لوگوں کے لیے ضروریاتِ زندگی کا حصول دشوار ہوجاتا ہے؛ اکثر فقہاء کے یہاں یہ ذخیرہ اندوزی صرف غذائی اشیاء اور حیوانات کے چارے میں ممنوع ہے، غیرمعمولی حالات میں امام مالک اور امام احمد کے نزدیک تمام ہی اشیاء ضروریہ میں احتکار حرام ہے اور یہی رائے امام ابویوسف کی ہے؛ غالباً یہ رائے زیادہ قرین صواب ہے؛ اس ذخیرہ اندوزی کی مدت چالیس دن متعین کی گئی ہے، یعنی چالیس دنوں تک مال کا روک رکھنا تاکہ گراں فروشی کا موقع فراہم ہوسکے، احتکار ہے اور ممنوع ہے؛ یہاں تک کہ فقہاء نے حکومت اور انتظامیہ کواس بات کا حق دار گردانا ہے کہ وہ ضروری سمجھتے توبالجبر ایسا مال نکال کرفروخت کرادے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۶۔ فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۲۳۴)