انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عبداللہ کےعہد میں سلطنت بنو امیہ کی حالت سلطنت عبداللہ کی تخت نشینی کے وقت یعنی ۲۷۵ھ میں حکومت اندلس یعنی سلطنت بنو امیہ کی حالت اس قدر مقیم ہوچکی تھی کہ خزانہ تمام خالی ہوگیا تھاآمدنی جو کسی زمانے میں دس لاکھ دینار سالانہ تک پہنچ گئی تھی اب ایک لاکھ دینار سالانہ تک پہنچ گئی تھی،عیسائی ریاستوں سے قطع نظر کی جائے تو دارالسلطنت قرطبہ کے دونوں پہلوؤں پر ایسے زبردست رقیب پیدا ہوچکے تھے جن کی طاقت سلطنت قرطبہ سے کم نہ تھی،ایک طرف ابن حفصون تھا اور دوسری طرف ابن مروان،ابن حفصون زیادہ عقلمند اور مدبر شخص تھا اس کاطرز حکومت ایسا تھا کہ لوگ اس ککی طرف متوجہ ہونے اوراس کے زیر حکومت رہنے کو پسند کرتے تھے مگر چونکہ اس کے ارتداد کا اعلان ہوچکا تھا اس لیے بہت سے مسلمان اس کی مدد کرنے کو گناہ سنجھ کر بجائے اس کی سلطنت کے دوسر رقیب ابن مروان کی طرف متوجہ وہگئے ابن حفصون باوجو داعلان ارتداد عیسائی ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھامگر ابن مروان باوجود مسلمان ہونے کے الفانسو سوم بادشاہ ایسٹریاس اور دوسرے عیسائیوں کے ہم عہد اور رفیق تھا ،نواح اشبیلیہ میں بعض عرب سرداروں کی جاگیریں تھیں اور وہ وہیں اقامت گزیں تھے ان لوگوں میں سے بعض نے یہ رنگ دیکھ کر علم بغاوت بلند کیا اور اشبیلیہ پر قابض ومتصرف ہوگئے ادھر اسی قسم کے جاگیر دار عربوں نے غرناطہ کے نواح میں علم بغاوت بلند کرکے غرناطہ پر قبضہ کرلیا یوں سمجھنا چاہیے کہ بن حفصون اور ابن مروان کے مدمقابل دو اور طاقتیں پیدا ہوگئیں اور ان چاروں طاقتوں میں جنگ وپیکار کا سلسلہ جاری ہوا ،دربار قرطبہ میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ ان سب کو زیر کرتا بلکہ اب سلطان عبداللہ کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ نواح قرطبہ پر حکومت رکھتا اور ان لڑنے والی چار طاقتوں کے درمیان کبھی کبھی دخل دے کر ان کی لڑائی کو صلح سے تبدیل کرادیتا تھا چونکہ چاروں رقیب ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اس لیے ان میں سے ہر ایک دربار قرطبہ کی سیادت کو تسلیم کرتا اور سلطان کو اپنا بادشاہ کہتا لیکن علمی طور پر وہ بالکل خود مختار تھے اور کسی قسم کا باج وخراج سلطان عبداللہ کے پاس نہیں بھیجتے تھے مذکورہ عرب سرداروں کاطرز عمل مولدین اور نومسلموں کے ساتھ اچھا نہ تھا اس لیے مولدین اور نومسلموں کا ایک بڑاگروہ ابن مروان کے پاس چلاگیاتھا۔ انھیں ایام میں شمالی شہروں کے دومسلمان عاملوں کو سرقسطہ وشتت بریہ کے نواح میں عیسائیوں کے اس منصوبے نےکہ اندلس کو مسلمانوں سے خالی کرالیا جائے سخت صدمہ پہنچایا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب بادشاہ ایسٹریاس اپنی فوجیں لےکر جنوب کی طرف چڑھاہے تومقام طرسونہ کے عامل لب من محمد نے اپنی نہایت قلیل جمعیت سے عیسائی فوجوں کو شکست دےکر بھگادیا ادھر عبدالرحمن بن مروان نے اپنے دوست شاہ ایسٹریاس کو اطلاع دی کہ اگر اپنی حدود وسلطنت سےآگے قدم بڑھایا تو میں سب سے پہلے مقابلہ کے لیے تیار ہوں اس تنبیہ وتہدید کا یہ اثر ہوا کہ عیسائیوں نے چند روز کے لیے اور خاموش رہنا مناسب سمجھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حملہ آوری سے مسلمانوں کی خانہ جنگی موقوف ہوکر ان میں اتفاق پیدا ہوجائےگا اور آپس میں چپری کٹاری رہ کر ان کے کمزور ہونے کا سلسلہ رک جائےگا۔ ادھر ابن حفصون نے یہ ہوشیاری کی کہ افریقہ کے خاندان اغالبہ س خط وکتابت کرکے اس بات کی استدعا کی کہ عباسی خلافہ سے میرے نام کی نسد حکومت اندلس منگادی جائے اس کوشش میمں اگرچہ عمر بن حفصون کو کامیابی نہ ہوئی مگر اس خبر کے سننے سے دربار قرطبہ میں ہلچل پیدا ہوگئی اور سلطان عبداللہ اس قدر فوج وہ فراہم کرسکتا تھا فراہم کرکے ابن حفصون پر فوراً چڑھائی کردی ،سلطان عبداللہ اس بات سے واقف تھا کہ اگر عمر بن حفصون کے پاس خلیفہ ٔ عباسی کی سند آگئی تو عام طور پر لوگ اس کی طرف متوجہ ہوجائیں گے اور پھر اندلس میں بنو امیہ کا وجود باقی نہیں رکھا جائےگا،سلطان عبداللہ چودہ ہزار سے زیادہ فوج جمع نہ کرسکا،ابن حفصون کے پاس تیس ہزار فوج تھی ،آخر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا اس معرکہ میں سلطان عبداللہ اور اس کے ہمراہیوں نے غیر معمولی بہادری کا اظہار کیا اور ابن حفصون کو شکست فاش دے کر پہاڑوں میں بھگادیا ،باغی فوج کے بہت سے آدمی مارے گئے اورسلطان عبداللہ کی حدود ملکیت کسی قدر وسیع ہوگئی اس فتح کااثر حکومت قرطبہ کے لیے بہت مفید ہوا سلطنت کا اعتماد جو بالکل ضائع ہوچکا تھا اب کسی قدر قائم ہونےلگا۔