انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سلطنت ادریسیہ واغلبیہ مراقش وافریقیہ میں مراقش وافریقیہ کاپس منظر جزیرہ نمائے اندلس کے جنوب میں آبنائے جبل الطارق کے اس طرف براعظم افریقہ کے شمال ومغرب کے گوشہ میں جو ملک واقع ہے اس کو مراقش یا مراکو یا ماریٹینیا کہتے ہیں،اس ملک میں مراکو نام کا ایک شہر بھی آباد ہے،ملک مراقش کے خاص خاص صوبے سوس الاونیِٰ سوس الاقصیٰ، راف،سوطہ وغیرہ ہیں،مگر حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ صوبوں کی حدود اورنام بھی ہمیشہ تبدیل ہوتے رہے،عرب لوگ کل ملکِ مراقش کو مغرب الاقصیٰ کے نام سے پکارتے تھے، اسی طرح الجیریا کو مغرب الاوسط کہتے تھے،کبھی کبھی الجیریا تونس تک کے علاقوں پر بھی مراقش کے ملک کا اطلاق ہوا ہے،ملکِ عرب کی طرح ملکِ مراقش میں بھی بربر قوم کے قبائل الگ الگ صوبوں میں بود وباش رکھتے تھے اوراُن قبائل کے نام سے صوبوں کو نامزد کیا جاتا اوران کی آبادی کے اعتبار سے حدود کی تقسیم و تعین کی جاتی تھی،تونس والجیریا،مراقش ،تینوں ملکوں میں زیادہ تر بربر قوم آباد تھی، اس لئے سوائے ملکِ مصر کے تمام شمالی افریقہ کو ملک بربر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے،مسلمانوں کی آمد کے وقت اس ملک مراقش میں زناطہ،مسمودہ،سنہاجہ،قطامہ،ہوارہ وغیرہ بربری قبائل آباد تھے،علاقہ بربر یعنی شمالی افریقہ میں ایرانیوں کے بعض خاندان بھی اس طرف آکر آباد ہوئے اور آتش پرستی مراقش وغیرہ میں پہنچی۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد یعنی بنی اسرائیل بھی اس طرف آکر آباد ہوئے، کم از کم یہودی مذہب کا تو اس طرف ایک زمانے میں ضرور دَور دَورہ رہا، رومیوں اور یونانیوں کی حکومت بھی ان علاقوں میں قائم ہوئی،قرطاجنہ کی مشہور قوم اسی علاقہ بربریاتونس یاافریقہ کی رہنے والی تھی، جس کو اہل فینشیا یعنی کنعانیوں کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے، آخر میں گاتھ قوم مراقش میں چیرہ دستی دکھا چکی تھی،مشرقی روم یعنی قسطنطنیہ کی حکومت اُس زمانہ تک اس علاقے میں موجود تھی،جب تک کہ مسلمانوں نے اس ملک کو فتح کیا ہے بہرحال قوم بربر مراقش اوراس کے متصلہ مشرقی علاقوں میں آباد اور سینکڑوں قبائل میں منقسم تھی، اس قوم کو عربوں،شامیوں،مصریوں،یونانیوں،ایرانیوں،رومیوں وغیرہ کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے،ملک اورآب وہوا کے اثر سے اس مرکب قوم کا ایک خاص مزاج خاص اخلاق اورمخصوص تہذیب متعین ہوچکی تھی اوراسی لئے بربر ایک خاص قوم کی حیثیت سے اقوام عالم میں شمار ہوئی،باوجود اس کے کہ بعض مہذیب اورترقی یافتہ قوموں نے شمالی افریقہ میں حکمرانی کی بربر قوم کی بربریت ووحشت جو ملکی آب وہوا کا نتیجہ تھا دُور نہ ہوسکی،ہاں اس بربریت اوروھشت میں اگر فرق آیا اور وہ مبدل بہ تہذیب وشائستگی ہوئی تو اسلام کے اثر سے ہوئی، مسلمانوں کو اس ملک کے فتح کرنے اورحکومتِ اسلامیہ کے قائم کرنے میں بڑی بڑی دقتیں اُٹھانی پڑیں، بربری قبائل نے بار بار بغاوتیں کیں اوربار بار وہ مفتوح ومغلوب بنائے گئے، اوران کی ان غداریوں اوربے وفائیوں کا سلسلہ برابر اُس وقت تک جاری رہا جب تک کہ وہ سب کے سب مذہب اسلام کو قبول نہ کرچکے،مذہب اسلام کو قبول کرنے کے بعد وہ مثل عربوں کے بہادر، مہذب اورشریف ثابت ہوئے، جب کبھی ان میں اسلام کی پابندی کم ہوئی اُسی نسبت سے اُن کی قدیمی وحشت وغداری عود کرآئی۔ ملک مراقش کو عقبہ بن نافع نے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے تمام وکمال فتح کرلیا تھا اور مراقش کے بعض صوبوں کے فرماں رواؤں نے بخوشی عقبہ کی فرماں برداری قبول کرلی تھی، اس کے بعد کئی مرتبہ مراقش باغی ہوا اورہر مرتبہ مغلوب ومحکوم بنایا گیا،موسیٰ بن نصیر گورنر افریقہ ومراقش نے اپنی طرف سے طارق بن زیاد کو مراقش کی حکومت سپرد کی تھی، اسی طارق بن زیاد نے ملک اندلس کو فتح کیا اورپھر اس کے بعد موسیٰ بن نصیر بھی خود اندلس میں داخل ہوا، ملک اندلس کی فتح میں زیادہ تر بربری لوگوں کی فوج کام میں لائی گئی تھی اور اسی لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ مراقش نے اندلس کو فتح کرکے حکومتِ اسلامیہ میں داخل کیا تھا، اندلس پر قبضہ ہونے کے بعد ہی بربری لوگوں نے مراقش واندلس میں بغاوتوں کا سلسلہ جاری کردیا، اندلس میں تو اُن کی بغاوت جلد فرو ہوگئی مگر ملک بربر یعنی شمالی افریقہ میں ان کی بغاوتوں کا ایک سلسلہ تھا جو عرصہ دراز تک جاری رہا، خلافتِ بنو امیہ کی بربادی اورخلافتِ عباسیہ کے قیام واستحکام کے بعد تک بھی بربری قوم نے بغاوت وسرکشی کے سلسلہ کو جاری رکھا، مسلمانوں نے ہر مرتبہ اُن کو نیچا دکھایا اوران کی کج روی کو روکا، لیکن انہوں نے جب کبھی ذرا بھی گرفت کو ڈھیلا دیکھا تو بلا توقف سرکشی پر آمادہ نظر آئے،قوم بربر کی اس حالت اوراس مزاجی کیفیت سے مطلع ہوکر خلافتِ عباسیہ کے ہر ایک مخالف اورانقلابی سازش کرنے والے نے ملک مراقش وافریقہ ہی کو جو بربر قوم کا مسکن تھا،للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا،علوی لوگ جو باربار عباسیوں کے خلاف اٹھتے رہے ان سب کا سب سے بڑا امید گاہ یہی ملک بربررہا ہے اوراُن کو جب کبھی موقع ملا ہے عراق وشام وعرب سے بھاگ کر اسی ملک میں پہنچے ہیں،مسلمانوں نے اس کو فتح کرنے کے بعد ہی مذہب اسلام سے بربری لوگوں کو واقف کرادیا تھا اور وہ بڑی تیز رفتاری سے اسلام میں داخل ہوکر قریباً سب کے سب مسلمان ہوچکے تھے،لیکن جب ان کی جبلی عادت بہت جلد اُس تحریک کو جو مذہبی لباس میں پیش ہوکر بغاوت پر آمادہ کرتی تھی،قبول کرلیتی تھی۔