انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نقد اسناد کے اصول واحکام نقد اسناد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سلسلۂ اسناد کے تمام رجال کا کتبِ رجال کی مدد سے تحقیق کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ آیا یہ راوی ضعیف ہے یاقوی؟ اس کے قوی یاضعیف ہونے کی کیا وجہ ہے؟ اس شخص کی ملاقات جس سے روایت کررہا ہے ثابت بھی ہے یانہیں؟ یااس کی ملاقات مروی عنہ سے بالکل ثابت نہیں ہے؛ لیکن وہ ڈھٹائی کے ساتھ صیغہ سماع کے ذریعہ روایت کررہا ہے، اس تحقیق کے ذریعہ سند کے انقطاع واتصال اور راوی کے عن سے روایت کرنے کی صورت میں جب کہ اس مروی عنہ کا زمانہ ہی نہ پایا ہو، تدلیس وغیرہ کا پتہ چلتا ہے اور سند کی یہ تحقیق کا کام کتبِ رجال کی مدد سے ہوپاتا ہے، جس میں اُن کی سنِ ولادت، وفات اور اس کے تعلق سے علماء جرح وتعدیل کے اقوال وتصریحات مل جاتے ہیں۔ نقدِ اسناد کی ضرورت کن احادیث میں؟ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے حدیث کی صحت وضعف کے تعلق سے ائمہ سابقین کی تصریحات پر ہی اعتماد کیا جائے، اپنے سے حدیث پرحکم لگانے میں پہل نہ کرے، مطلوبہ حدیث کے تعلق سے ایسے امام کی تصریح پراعتماد کرے جس پرجمہور علماء اعتماد کرتے ہوں، ہاں اگرکوئی ایسی حدیث ہو جس کے بارے میں ائمہ محدثین نے اس کے صحت وضعف کے تعلق سے بالکل کوئی فیصلہ نہ کیا ہویاائمہ حدیث میں سے کسی کی تصریح توموجود ہو؛ لیکن وہ جمہور علماء کے نزدیک ناقابل اعتبار یامتساہل مانے جاتے ہوں توایسی صورت میں مندرجہ ذیل اصول کوپیشِ نظر رکھ کرحدیث پرحکم لگایا جائے گا۔ نقدِ حدیث کے لیے کن علوم کی ضرورت ہوتی ہے؟ نقدِ حدیث کا علم نہایت حساس اور دشوار گزار ہوتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ باحث کوفنِ اصولِ حدیث کے تمام اصول پرکامل عبور ومہارت حاصل ہو؛ خصوصاً یہ دوعلم اس میں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں: (۱)علم اصولِ جرح وتعدیل (۲)علم اسماء الرجال۔ علم اصولِ جرح وتعدیل حدیث پر حکم لگانے کے لیے علم اصولِ جرح وتعدیل میں کامل ادراک اور مہارت حاصل ہونے کی ضرورت ہے، اس علم کے مقدمات واصول کی جانکاری اور اس کے تطبیق کا ملکہ حاصل ہو؛ تاکہ نقدِ اسناد کے دوران ہرراوی کواس کا مستحقہ مقام دیاجا سکے؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی کمی وکوتاہی کی وجہ سے ضعیف کوثقہ اور ثقہ کوضعیف قرار دےکر اس کومتہم کردے؛بلکہ اس صورت میں تواس کا اثر براہِ راست احادیثِ نبویہ تک جائے گا۔ مختصر یہ کہ اس علم کے ذریعہ اولاً یہ جانکاری حاصل کرنی ہوگی کہ راوی میں کیا اوصاف ہونے چاہئیں کہ جس سے اس کی روایت قابل قبول ہوسکے؛ پھر عدالت کی کیا حقیقت ہے، اس کی جانکاری کی راہیں کیا ہیں؟ ایک شخص کی تعدیل کافی ہے؟ اگرراوی مجہول ہے تواس حدیث کا کیا حکم ہوگا، راوی کی جہالت کودور کرنے کے کیا کیا ذرائع ہوسکتے ہیں؟ پھرجارح یامعدل کا کن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے، جرح مفصل ضروری ہے یامبہم بھی کافی ہوسکتی ہے؟ یہاں ایک شخص کے تعلق کبھی جرح وتعدیل کے حوالے سے ائمہ محدثین میں اختلاف ہوجاتا ہے تواس صورت میں کونسی راہ اپنانی چاہیے؛ پھرالفاظ جرح وتعدیل کے تعلق سے ان کی خفت اور شدت کی ترتیب کیا ہوسکتی ہے؛ پھران الفاظ کی شدت وخفت کا اندازہ کرکے حدیث کے صحت وضعف کا حکم لگانا، اس علم میں ان تمام چیزوں کی جانکاری اور اس کا علم جب تک نہ ہو جرح وتعدیل کا عمل ناتمام رہے گا۔ اس فن کی تفصیلی معلومات کے لیے یہ کتابیں نہایت معاون ہوں گی: (۱)مولانا عبدالحئی لکھنوی (۱۳۰۴ھ) کی الرفع والتکمیل مع تحقیق وتعلیق شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ (۱۴۱۷ھ)۔ (۲)علامہ تاج الدین سبکی کی جوانہوں نے طبقات الشافعیۃ میں احمد بن صالح مصری کے ترجمہ کے تحت تحریر فرمائی ہے اورالگ سے قاعدۃ فی الجرح والتعدیل کے نام شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ کی تعلیقات کے ساتھ اربع فی علوم الحدیث کے ضمن میں مطبوع ہے۔ (۳)شیخ عبدالوہاب عبداللطیف کی کتاب ضوابط الجرح والتعدیل۔ اسی طرح علم تخریج الحدیث ودراسۃ الاسانید کے موضوع پرتصنیف شدہ کتابیں بھی اصولِ جرح وتعدیل کوبیان کرتی ہیں؛ چنانچہ دکتور محمود طحان مولانا ابواللیث خیرآبادی اور دکتور سیدعانی کی کتب میں بھی اس فن سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔ علم اسماء الرجال یہ علم راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اورتاریخ ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب ونسب، قوم ووطن، علم وفضل، دیانت وتقویٰ، ذکاوت وحفظ، قوت وضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیراس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے، اس کے ذریعہ ائمہ حدیث نے مراتب روات اور احادیث کی قوت وضعف کا پتہ لگایاہے۔ انواعِ کتبِ رجال (۱)ایک وہ کتابیں جوایک یاچند مخصوص کتبِ حدیث کے رجال پرلکھی گئی ہیں، جیسے: ۱۔الھدایہ والارشاد فی معرفۃ اھل الثقۃ والسداد لابی النصر احمد بن محمدالکلابازی (۳۹۸ھ) یہ کتاب رجالِ صحیح بخاری سے معروف ہے۔ ۲۔رجال صحیح مسلم یہ ابوبکر احمد بن علی الاصفہانی (۴۳۸ھ) کی کتاب ہے۔ ۳۔ابوالحجاج مزی (۷۴۲ھ) تہذیب الکمال۔ ۴۔علامہ ذھبیؒ (۷۴۸ھ) کی تھذیب التھذیب اور الکاشف۔ ۵۔حافظ ابنِ حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) کی تذھیب التھذیب اور تقریب التھذیب۔ کتب ثقات: وہ کتابیں جوثقہ راویوں کے احوال کوبیان کرتی ہیں، جیسے: ۱۔کتاب الثقات یہ ابوالحسن احمد بن عبداللہ بن صالح العجلی (۲۶۱ھ) کی کتاب ہے۔ ۲۔اسی نام کی ایک کتاب محمد بن احمد بن حبان البستی (۳۵۴ھ) کی بھی ہے۔ ۳۔تاریخ اسماء الثقات یہ عمر بن احمد بن شاھین (۳۸۵ھ) کی کتاب ہے۔ ۴۔تذکرۃ الحفاظ یہ حافظ ذھبی (۷۴۹ھ) کی کتاب ہے۔ کتب صعفاء: یعنی وہ کتابیں جوضعیف اور مختلف فیہ راویوں کے احوال کوبیان کرتی ہیں، جیسے: ۱۔ابوعبداللہ البخاری (۲۵۶ھ) کی کتاب الضعفاء۔ ۲۔امام نسائی (۲۵۴ھ) کی الضعفاء والمتروکون۔ ۳۔امام ابوجعفر محمد بن عمروالعقیلی (۳۲۳ھ) کی کتاب الضعفاء۔ ۴۔ابوحاتم محمدبن احمد بن حباب البستی (۳۵۴ھ) کی معرفۃ المجروحین من المحدثین۔ ۵۔حافظ زین (۷۴۹ھ) کی میزان الاعتدال فی نقدالرجال۔ ۶۔ابن حجر عسقلانی کی لسان المیزان۔ کتب ثقات وضعفاء: یعنی وہ کتابیں جوثقہ یاضعیف راویوں کی قید سے ہٹ کرمطلق رجالِ حدیث کےاحوال پر لکھی گئی ہیں۔ کتب طبقات: جیسے (۱)ابن سعد (۲۳۰۴ھ)کی الطبقات الکبری (۲)حافظ ذہبی (۷۴۸ھ) کی سیراعلام النبلاء اور انھیں کی تذکرۃ الحفاظ۔ تواریخ بلاد: یعنی مخصوص شہر یاخطہ کے رجالِ علم کی تاریخ کوبیان کرنے والی مشہور کتابیں مثلاً: (۱)ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصبہانی (۴۳۰ھ) کی ذکراخبارالاصبہان۔ (۲)حاکم ابوعبداللہ (۴۰۵ھ) کی تاریخ نیساپور۔ (۳)احمد بن علی بن الخطیب البغدادی (۴۶۳ھ) کی تاریخِ بغداد۔ عام کتبِ تاریخ: یعنی وہ کتابیں جوہرقید سے آزاد ہوکر مطلقاً رجالِ علم کے حالات؛ ضمناً یاقصداً بیان کرتی ہیں، جیسے: (۱)امام بخاری:۲۵۶ھ کی التاریخ الکبیر۔ (۲)ابن ابی حاتم (۳۲۷ھ) کی کتاب الجرح والتعدیل۔ (۳)ابن جوزی رحمہ اللہ (۵۹۷ھ) کی المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم۔ کتب وفیات: وہ کتابیں جورجالِ علم کے سنینِ وفات کوبیان کرتی ہیں؛ اگرچہ بعض کے تفصیلی احوال بھی اس میں مذکور ہوتے ہیں، مثلاً: (۱)ابوسلیمان بن زبیر (۳۷۹ھ) کی تاریخ موالید العلماء ووفیاتھم۔ (۲)ابن خلکان (۶۸۱ھ) کی وفیات ا لأعیان وأنباء أبناء الزمان۔ (۳)خلیل بن ایبک صفدی (۷۶۴ھ) کی الوافی بالوفیات۔ (۴)حافظ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) کی العبر فی خبر من غبر۔ کتبِ انساب: وہ کتب جن میں رجالِ علم کو ان کی نسبتوں پر مرتب کرتے ہوئے نسبتوں کے تلفظ، وجہ نسبت اور اس نسب سے منسوب اہلِ علم کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جیسے: (۱)امام عبدالکریم محمدسمعانی (۵۶۲ھ) کی الانساب۔ (۲)ابن اثیر جزری (۶۳۰ھ) کی اللباب فی تہذیب الانساب۔ (۳)حافظ سیوطیؒ (۹۱۱ھ) کی لب اللباب فی تحریر الانساب۔ کتب موتلف ومختلف: وہ کتابیں جن میں رواتِ حدیث کے ان اسماء والقاب یانسبتوں کوذکر کیا جاتا ہے، جن میں کسی قسم کا اشتباہ پایا جاتا ہے، بایں طور کہ دواسم مثلاً ایسے ہوں جو لکھنے میں ملتے جلتے ہوں؛ مگرتلفظ میں الگ الگ ہوں، جیسے: (۱)امام دارِ قطنی (۳۸۵ھ) کی المؤتلف والمختلف۔ (۲)امیر علی بن ہبۃ اللہ بن ماکول (۴۷۵ھ) کی الاکمال فی رفع الارتیاب عن المؤتلف والمختلف من الاسماء والکنی والانساب۔ نقدِ اسناد کچھ حدیثیں تووہ ہیں جن کے سند کی تحقیق وتفتیش کی بالکل ضرورت ہی نہیں؛ چونکہ بڑے بڑے ائمہ ونقادِ حدیث نے ان کے بارے میں نہایت ہی باریک بینی اوردقت نظری کے ساتھ ان پراحکام نافذ کردیئے ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان احادیث کے بارے میں مغز ماری کی بالکل ضرورت نہیں۔ ائمہ حدیث نے جن احادیث کی حوالے سے اس کی صحت وضعف کے حوالے سے فیصلے کردیئے ہیں وہ اس طرح ہیں: مثلاًصحیحین کی حدیثیں، امام بخاریؒ اور مسلمؒ نے اپنی کتابوں میں صرف صحیح احادیث کا اخراج کیا ہے، اس کی اسانید میں کوئی ضعیف یامتروک راوی نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی علتِ خفیہ قادحہ ہے، جس سے حدیث کی صحت پراثرپڑے؛ اس لیے کسی حدیث کا صحیحین میں ہونا ہی یہ اس کی صحت کے لیے کافی ہے۔ یاوہ کتابیں جن کے مصنفین نے صحیح احادیث کی تخریج کا التزام کیا ہے۔ مؤطا امام مالکؒ: اس کتاب کے متعلق بھی امت کا اتفاق ہے کہ اس میں جوبھی مرفوع متصل روایات ہیں اور اس کے بلاغاات ومراسیل بھی سندِ متصل کے ساتھ تخریج شدہ ہیں۔ مستخرجات صحیحین: جوکتابیں صحیحین پربطورِ مستخرج کے ہیں وہ بھی صحت کے وصف سے متصف ہیں۔ صحیح ابنِ خزیمہ: اسی طرح محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیساپوری (۲۱۱ھ) یہ کتاب بھی صحت کے وصف کے ساتھ متصف ہے؛ اس لیے حدیث کا اس کتاب میں موجود ہونا یہ اس کی صحت کے لیے کافی ہے، یہ بات حافظ ابنِ صلاح نے علوم الحدیث:۱۷ اور علامہ سیوطیؒ نے تدریب الراوی:۱/۱۰۹ پر لکھی ہے۔ صحیح ابنِ حبان: شیخین کے بعد صحیح احادیث ابن حبان کے پاس بھی ہیں؛ البتہ ابنِ حبان اس حوالے سے متساہل شمار کئے جاتے ہیں؛ لیکن ان کا یہ تساہل حاکم کی طرح نہیں ہے، کم از کم ان کی روایات حسن درجہ کی ہوتی ہیں۔ صحیح ابن السکن: ابوعلی سعید بن عثمان بن سعید بن السکن البغدادی (۳۵۳ھ) کی تصنیف ہے، اس کا پورا نام صحیح المنتقی فی الحدیث ہے، یہ صحیح احادیث کا انتخاب ہے گرچہ یہ کتاب مفقود ہے۔ (و)المستدرک علی الصحیحین یہ امام حکم ابوعبداللہ نیساپوری کی کتاب ہے جس میں انہوں نے ان احادیث کی تخریج کی ہے جوشیخین یاان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر ہیں؛ گویا یہ بھی صحیح احادیث کا مجموعہ ہے؛ لیکن حاکم کا تساہل معروف ہے، اس لیے صرف حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح پراعتماد نہ کیا جائے، اس کے ساتھ دیگر ائمہ نقاد کا بھی اس حوالے سے نقطۂ نظر دیکھا جائے۔ نقدِ اسناد کے مراحل نقدِ اسناد کے لیے باحث کوپانچ مراحل سے گزرناپڑے گا: (۱)نقدِ اسناد کے لیے جوبات سب سے پہلے پیشِ نظر رکھنی ہوگی وہ یہ ہے کہ رجال اسناد کی تعیین وتشخیص کرلی جائے؛ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے ایک ہی طبقے کے راویوں کے نام، کنیت اور ان کی نسبت کبھی ایک ہوتی ہے، جس کی بناء پران کے درمیان امتیاز کرنا دشوار ہوجاتا ہے، اس کے لیے کتبِ رجال کی مدد لی جائے گی؛ پھراس راوی کے شیخ یاشاگرد وغیرہ کے احوال کے ذریعہ اس راوی کی تشخیص کی جائے گی، اس کے بعدیہ معلوم ہوکہ یہ کتب ستہ کا راوی یاضعیف راوی یااس کا تعلق کسی خاص شہر سے یاخاص طبقہ سے تومتعلقہ فنون کی کتاب سے؛ ورنہ عام کتب رجال کے ذریعہ جوحروف معجم پرترتیب دی گئی ہیں راوی کی تشخیص وتعیین کی جائے گی۔ (۲)دوسرے رجالِ اسناد کی عدالت اور ضبط کی تحقیق کا مرحلہ ہے؛ چونکہ کسی بھی حدیث کے اصطلاحی اعتبار سے صحیح ہونے کے لیے اس میں پانچ شرطوں کا متحقق ہونا ضروری ہوتا ہے: (۱)راوی کا عادل ہونا (۲)راوی کا ضابط یعنی حدیث کو محفوظ رکھنے والا ہونا (۳)اسی طرح راوی اور اس کے شیخ اور راوی اُس کے شاگرد کے درمیان سند کا متصل ہونا (۴)حدیث کا شذوذ سے محفوظ ہونا (۵)حدیث کا کسی باطنی علت سے محفوظ ہونا۔ راوی کے عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ راوی مسلمان، عاقل، بالغ ہو، فسق اور انسانی شرافت کے خلاف امور اور بدعات سے اجتناب وپرہیز کرتا ہو۔ ضابط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کوجیسے سنی تھی بغیر کسی کمی زیادتی کے ویسے ادا کرے؛ خواہ سینے میں محفوظ کرے یاسفینے (نوشتہ) میں، جس راوی میں یہ دونوں اوصاف جس کمال درجہ کے ہوں گے وہ اسی قدر ثقہ درجہ کا حامل ہوگا۔ (۳)تیسرے مرحلہ میں ہمیں یہ تحقیق کرنا ہوگا کہ راوی کا اس کے شیخ سے سماع ثابت ہے یانہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سند کے اتصال کا پتہ چل سکے، حدثنا، اخبرنا اور سمعت وغیرہ کے صیغے صراحتہ سماع پر دلالت کرتے ہیں، اس سے سند کے اتصال کا ثبوت ہوجائے گا، عَنْ وغیرہ سے روایت کرنے کی صورت میں اگرراوی معتمد ہے توکوئی بات نہیں؛ ورنہ کتبِ رجال کی مراجعت سے راوی اور شیخ کے درمیان سماع وعدمِ سماع کا ثبوت ہوجائے گا۔ (۴)اس کے بعد چوتھا مرحلہ حدیث پرحکم لگانے کا ہے کہ راوی کی عدالت وضبط اور سند کے اتصال وغیرہ کی جانچ کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا یہ روایت صحیح درجہ کی ہے یاحسن کی یایہ حدیث ضعیف یاموضوع وغیرہ ہے، اس کے لیے حافظ ابنِ حجرؒ نے تقریب التہذیب میں جوروات کی درجہ بندی کی ہے، اورثقہ وضعیف ہونے کے اعتبار سے جودرجات قائم کیے ہیں اور اِن الفاظِ جرح وتعدیل کوپیشِ نظر رکھ کرحدیث پراحکام کے نافذ کرنے کا جوطریقہ بیان کیا ہے اور کتب ستہ اور ان جیسی کتابوں کے روات کی جو درجہ بندی کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے: ۱۔پہلےدرجہ کو حافظ نے صحابہ کرامؓ کے لیے مختص کیا ہے کہ ان کی تحقیق یاتفتیش کی کوئی ضرورت نہیں یہ بالکل اس سے ماوراء ہیں۔ ۲۔دوسرادرجہ ان لوگوں کے لیے مختص کیا ہے جوعلماء جرح وتعدیل اور ائمہ نقد کی حیثیت رکھتے ہیں، ان لوگوں کوحافظ أوثق الناس، ثقۃ ثقۃ ثقۃ متقن جیسے مبالغہ کے صیغے یاتاکیدی تعبیر استعمال کرتے ہیں۔ حکم __________ اِن لوگوں کی حدیث نمبر ایک کی صحیح لذاتہ ہوتی ہے۔ ۳۔تیسرا درجہ ان لوگوں کا ہے جن کوثقہ کہنے پردوسرے لوگ یعنی ائمہ جرح وتعدیل متفق ہوں؛ چنانچہ ان لوگوں کوحافظ صاحبؒ ثقۃ، متقن، حجۃ، حافظ، ثبت وغیرہ بغیرتکرار کے صیغوں کا استعمال کرتے ہیں؛ انھیں لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں، جن کے صحابی ہونے میں اختلاف ہوا ہے۔ حکم __________ اس مرتبہ والوں کی حدیث نمبردو کی صحیح لذاتہ ہوتی ہے۔ ۴۔چوتھا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جن کے ثقہ کہنے پردوسرے درجہ کے ائمہ جرح وتعدیل تقریباً متفق ہوتے ہیں، کسی ایک دو نے اختلاف کیا ہوا ہوتا ہے، اس اختلاف کے پیشِ نظر حافظ صاحب انھیں کچھ ہلکی تعبیر سے موسوم کرتے ہیں صدوق، لاباس بہ، لیس بہ بأس۔ حکم __________ اس مرتبہ والوں کی حدیث نمبر تین کی صحیح لذاتہ ہوتی ہے۔ ۵۔پانچواں درجہ ان لوگوں کا ہے جن کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل نے اختلاف کیا ہوا ہے، بعض توثیق اور بعض تضعیف کرتے ہیں، تضعیف کی بھی کوئی بنیاد ہوتی ہے، ایسے لوگوں کوحافظ صاحب صدوق یھم، صدوق یخطئی، صدوق لہ أوھام، صدوق یخطیٔ کثیراً جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حکم __________ اس مرتبہ والوں کی حدیث نمبر ایک کی حسن لذاتہ ہوتی ہے۔ ۶۔چھٹا مرتبہ ان رجال کے لیے ہے جوقلیل الحدیث ہوتے ہیں (یعنی ان کی احادیث ایک سے دس کے درمیان ہوتی ہے) اور ان پرکوئی ایسی جرح بھی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے ان کی احادیث چھوڑی جائیں؛ اگرایسے لوگوں کوکوئی متابعت مل جاتی ہے توان کوحافظ صاحب مقبول اور جن کی متابعت نہیں کی گئی ہوتی ہے ان کو لین الحدیث کہتے ہیں۔ حکم __________ اس مرتبہ میں دوشقیں ہیں مقبول اور لین الحدیث مقبول کی حدیث نمبردوکی حسن لذاتہ ہوتی ہے اورلین الحدیث کی نمبر تین کی حسن لذاتہ ہوتی ہے۔ ۷ ۔ساتواں مرتبہ ان لوگوں کے لیے جن سے روایت کرنے والے ایک سے زائد ہوتے ہیں؛ مگران کی توثیق کسی نے نہیں کی ہوتی، ایسے لوگوں کو حافظ صاحب مستور، مجھول الحال، لایعرف حالہ سے تعبیر کرتے ہیں، اس مرتبہ میں حافظ صاحب نے عموماً ان لوگوں کوشامل کیا ہے جن کوامام بخاریؒ نے اپنی تاریخ اور ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں ذکر کیا ہوتا ہے اور وہ تابعین سے نیچے کے طبقے کے ہوتے ہیں، یااُن کے تعلق ابن ابی حاتم، ابن مدینی اورابن القطان نے مجہول کہا ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ لوگ مجہول العین اور مجہول الحال دونوں پر مجہول کا اطلاق کرتے ہیں۔ حکم __________ اس مرتبہ کے لوگوں کی احادیث کے بارے میں توقف کیا جائے؛ تاآنکہ ان کا حل واضح ہوجائے؛ بایں طور کہ اس کا کوئی متابع یاشاہد مل جائے؛ لہٰذا یہ حدیث حسن لغیرہ کی نمبر ایک شمار ہوگی۔ ۸۔اٹھواں مرتبہ ان لوگوں کا ہے جن کے متعلق کسی امام معتبر کی توثیق نہیں ہوئی ہے؛ بلکہ ائمہ جرح وتعدیل کی جانب اس کے ضعیف ہونے کا اطلاق موجود ہوتا ہے، یہ تضعیف مبہم ہی کیوں نہ ہو؛ اُن کوحافظ ضعیف، لیس بالقوی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حکم __________ اس مرتبہ کی حدیث ضعیف کہلاتی ہے اور تعدد طرق کی صورت میں بلند ہوکر حسن لغیرہ تک پہونچ جاتی ہے اس وقت یہ نمبردو کی حسن لغیرہ ہوگی۔ ۹۔نواں درجہ ان رجال کا ہے جن سے روایت کرنے والا صرف ایک راوی ہوتا ہے اوران کی کسی نے توثیق نہیں کی ہوتی ہے، دراصل یہ لوگ اصحابِ حدیث ہوتے ہی نہیں۔ حکم __________ اس مرتبہ کے لوگوں کی حدیث بھی ضعیف ہوتی ہے اور تعدد طرق کی صورت میں بلند ہوکر حسن لغیرہ تک پہونچ جاتی ہے؛ مگریہ نمبرتین کی حسن لغیرہ ہوتی ہے ۱۰۔یہ درجہ ان لوگوں کا ہے جن کے متعلق ائمہ جرح وتعدیل نے سخت جرحیں کی ہوئی ہیں؛ یہاں تک کہ ان کے حدیث کے لکھنے یاان سے روایت کرنے سے بھی منع کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو حافظ متروک کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حکم __________ اس مرتبہ کے لوگوں کی حدیث ضعیف جدا (بہت ضعیف) کہلاتی ہے۔ ۱۱۔گیارہواں مرتبہ ان لوگوں کا ہے جوکذب کے ساتھ متہم ہوتے ہیں، یعنی حدیثِ رسول میں توان کا کذب ثابت نہیں ہوتا؛ البتہ عام بول چال میں وہ دروغ گوئی کے مرتکب ہوتے ہیں، ان لوگوں کوحافظ متھم بالکذب سے تعبیر کرتے ہیں۔ حکم __________ اس مرتبہ کے لوگوں کی حدیث متروک کہی جاتی ہے۔ ۱۲۔یہ ان بدبختوں کا درجہ ہے جوحدیثِ رسولﷺ میں جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں؛ چنانچہ حافظ صاحب ان کووضاع یا کذاب کہتے ہیں۔ حکم __________ ان کی روایات موضوعات واباطیل کہلاتی ہیں؛ اگرایسا شخص توبہ بھی کرے توتوبہ کےبعد بھی اس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی۔ حافظ صاحب کی مذکورہ بالا ترتیب کوپیشِ نظر رکھ کر اسی کے مطابق حکم لگایا جاسکتا ہے، مثلاً اگرسند کے تمام روات دوسرے، یاتیسرے، یاچوتھے مرتبہ سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں اسنادہ صحیح اس کی سند صحیح ہے اور اگرسند میں کوئی راوی پانچویں یاچھٹے مرتبہ کا ہے توآپ کہہ سکتے ہیں اسنادہ حسن اس کی سند حسن ہےاور اگرسند میں کوئی راوی ساتویں یاآٹھویں مرتبہ کا ہے تو آپ کہیں گے اسنادہ ضعیف اس کی سند ضعیف ہے؛ اگر سند میں کوئی راوی دسویں مرتبہ کا ہے توآپ کہیں گے اسنادہ ضعیف جداً اس کی سند بہت ضعیف ہے؛ اگرسند میں کوئی راوی گیارہویں مرتبہ کا ہے توکہیں گے اسنادہ متروک اس کی سند متروک ہے؛ اگرسند میں کوئی راوی بارہویں مرتبہ کا ہے توکہیں گے اسنادہ موضوع۔ اس سے پتہ چلا کہ نتیجہ ہمیشہ کمزور کے تابع ہوتا ہے؛ پھراگر پانچویں اور چھٹے مرتبہ والے راویوں کوان ہی جیسا یااُن سے اچھے روات کی متابعت مل جائے توان پربھی صحیح کا حکم لگایا جائے گا، یہ صحیح لغیرہ ہوگی؛ اگرساتویں آٹھویں اور نویں مرتبہ والوں کومتابعت مل جائے تواُن کی سند ضعیف سے اٹھکر حسن لغیرہ کوپہونچ جائے گی؛ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے اسنادہ حسن۔ دسویں سے لےکر بارہویں مرتبہ تک کے لوگوں کوتعدد طرق سے کوئی فائدہ نہیں پہونچتا، ان کی سند میں کوئی قوت نہیں ہوتی؛ اگر راوی کےذکرتقریب التہذیب میں (جو کہ کتب ستہ اور اس کے بعض ملحقات کے راویوں کی درجہ بندی پرمشتمل ہے ) نہ ہوتو پھرکتبِ رجال سے اس راوی کے احوال کونکال کروہ راوی حافظ کےقائم کردہ مراتب میں سے جس مرتبہ سے میل کھاتا ہواس کے مطابق اس راوی کے حدیث کا درجہ متعین کیا جائے گا۔ چوتھا اور پانچواں مرحلہ حدیث کا شذوذ اور علت سے محفوظ ہونے کا ہے۔ شدوذ کہتے ہیں کہ کوئی ثقہ راوی اپنی روایت میں اپنے سے زیادہ ثقہ یااپنے جیسے یااپنے سے فروتر متعدد ثقات کی حدیث کی مخالفت کرے اور علت سے مراد یہ ہے کہ سند کے بظاہر صحیح ہونے کے باوجود اس میں باطنی طور سے کوئی ایسی علت ہو جوحدیث کوناقابل قبول بناتی ہو، یہ علت کبھی سند میں ہوتی ہے اور کبھی متن میں اور کبھی دونوں میں، شذوذبھی درحقیقت علت ہی کی ایک صورت ہے، علت کی شناخت ہونے کے بعد اس کی مختلف صورتیں ملتی ہیں، جن کوالگ الگ نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے، مثلاً شاذ، منکر، مرسل خفی، مزید فی متصل الاسانید، مقلوب، مصحف، مدرج، مضطرب وغیرہ اور کچھ ایسی صورتیں بنتی ہیں جن کوکوئی نام نہیں دیاجاسکتا، علماءِ علل کا ضمیر اس کے معلول ہونے کی گواہی دیتا ہے؛ مگروہ اس کی نوعیت بیان نہیں کرسکتے، علت کی شناخت دشوار گزار کام ہوتا ہے علمِ علل کا موضوع ثقہ محدثین کی روایات ہوتی ہیں، ثقہ کی حدیث عموماً صحیح ہوتی ہے، اس میں وہم کا پکڑنا ماہرینِ علل کا ہی کام ہوسکتا ہے، ہرکس وناکس کے بس کی یہ چیز نہیں، بس احادیث کی علت وغیرہ کوجاننے کے لیے ان کتابوں سے رجوع کیا جائے گا جنہیں اس فن کے ماہر علماء نے لکھا ہے، اس طرح کی احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ امام دارِقطنی (۳۸۵ھ) کی کتاب العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ ہے اس کی ترتیب مسانید صحابہ پر ہے۔ اس کے علاوہ اس فن کی اہم ترین کتاب ابن ابی حاتم کی علل الحدیث ہے جس میں فقہی ترتیب پراحادیث کوجمع کیا گیا ہے، اس میں ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابوحاتم رازی اور ماموں ابوزرعہ راوی سے پوچھ کراحادیث کی علتوں کوجمع کیا ہے۔ تیسری بہت اہم کتاب امام ترمذی کی کتاب العلل الکبیر ہے جس کوقاضی ابوطالب نے جامع ترمذی کے ابواب پرمرتب کردیا ہے، اس میں امام ترمذی خود بھی علتیں بیان کرتے ہیں اور عموماً امام بخاریؒ اور امام دارمی کے حوالہ سے علتیں بیان کرتے ہیں؛ اس کے علاوہ امام احمد کی کتاب العلل امام بخاری کی التاریخ الکبیر ابوبکر بزار کی المسند المعلل اور طبرانی کی المعجم الأوسط وغیرہ کی بھی مراجعت کرلینی چاہئے، اس بارے میں نصب الرایہ للزیلعی اور التلخیص الحبیر لابن حجر وغیرہ کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔