انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ضبط و تحمل آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ "حسنؓ کو میرا علم اورمیری صورت ملی ہے،حضرت حسنؓ کی ذات اس ارشاد گرامی کی مجسم تصدیق تھی جو دستبرداری کے حالات میں اوپر گزرچکا ہے کہ ناآشنائے حقیقت آپ کو کن کن نازیبا کلمات سے خطاب کرتے تھے کوئی مذلل المومنین" کوئی "مسود وجوہ المومنین "کوئی "عارالمومنین" کہتا لیکن اس پیکر علم کی جبین پر شکن نہ پڑتی اورنہایت نرمی سے جواب دیتا کہ میں ایسا نہیں ہوں، البتہ ملک کی طمع میں مسلمانوں کی خونریزی نہیں پسند کی۔ مروان جمعہ کے دن منبر پر چڑھ کر برسر عام حضرت علیؓ پر شب وشتم کرتا تھا، حضرت حسنؓ اس کی گستاخیوں کو اپنے کانوں سےسنتے اورخاموشی کے سوا کوئی جواب نہ دیتے، ایک مرتبہ اس نے ایک شخص کو زبانی نہایت فحش باتیں کہلا بھیجیں،آپ نے سن کر صرف اس قدر جواب دیا کہ اس سے کہہ دینا کہ خدا کی قسم میں تم کو گالی دے کر تم پر سے دشنام دہی کا داغ نہ مٹاؤں گا،ایک دن ہم تم دونوں خدا کے حضور میں حاضر ہوں گے،اگر تم سچے ہو تو خدا تمہیں تمہاری سچائی کا بدلہ دیگا، اوراگر جھوٹے ہو تو وہ بڑا منتقم ہے، ایک مرتبہ حضرت حسنؓ اورمروان میں کچھ گفتگو ہورہی تھی،مروان نے رُودر رُو نہایت درشت کلمات استعمال کئے ؛لیکن آپ سُن کر خاموشی سے پی گئے۔ اس غیر معمولی ضبط وتحمل سے مروان جیسے شقی اورسنگدل پر بھی اثر تھا؛چنانچہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جنازہ پر روتا تھا،حضرت حسینؓ نے کہا اب کیوں روتے ہو، تم نے ان کے ساتھ کیا کیا نہ کیا اس نے پہاڑ کی طرف اشارہ کرکے کہا میں نے جو کچھ کیا وہ اس سے زیادہ حلیم وبرد بار کے ساتھ کیا۔ (ابن عساکر:۴/۲۱۶) آپ کی زبان کبھی کسی تلخ اورفحش کلمہ سے آلودہ نہیں ہوئی ،انتہائی غصہ کی حالت میں بھی وہ "رغف انفہ" یعنی تیری ناک خاک آلود ہو ،اس سے زیادہ نہ کہتے تھے جو عربی زبان میں بہت معمولی بات ہے،امیر معاویہؓ کا بیان ہے کہ حسنؓ کی سب سے زیادہ سخت کلامی کا نمونہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ان میں اورعمرو بن عثمانؓ میں ایک زمین کے بارہ میں جھگڑا ہوگیا،انہوں نے ایک مفاہمت کی صورت پیش کی،مگر عمرو اس پر رضا مند نہ ہوئے، ان کے انکار پر حسنؓ کو غصہ آگیا اورانہوں نے جھلا کر کہا"لیس لہ عندنا الامار غف انفہ"۔