انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** طرز معاشرت غربت وافلاس صحابہ کرام نہایت فقر و فاقہ اورغربت و افلاس کی زندگی بسر کرتے تھے، ایک صحابی نے ایک عورت سے شادی کرنی چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کچھ مہر کے لئے بھی ہے ،بولے صرف یہ تہبند ہے، آپ ﷺنے فرمایا اگر تم نے یہ تہبند اس کو دے دیا تو پھر تمہاری پردہ پوشی کیونکر ہوگی؟ کچھ اور تلاش کرو، واپس آئے تو کہا کچھ نہیں ملا، فرمایا کچھ نہیں تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کہیں سے لاؤ بولے وہ بھی نہیں ملتی ،یہ سب کچھ تو نہ تھا؛ لیکن روحانیت کا خزانہ ساتھ تھا، آپ نے قرآن مجید کی چند سورتوں پر نکاح پڑھادیا۔ (ابوداؤد کتاب النکاح باب فی الترویح علی العمل بعمل) حضرت عبدالمطلب بن ربیعہؓ اورحضرت فضل بن عباسؓ خاندان نبوت سے تھے ؛لیکن نکاح کا کوئی سامان نہ تھا، آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ صدقہ وصول کرنے کی خدمت تفویض ہوجائے، تو اس کے معاوضہ سے مہر وغیرہ کا سامان کریں، آپﷺ نے یہ خدمت تو تفویض نہیں کی، لیکن شادی کا دوسرا سامان کردیا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والا مارہ باب فی بیان مواضع قسم الخمس وسہم ذی القربیٰ) حضرت فاطمہؓ کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نکاح ہوا تو ایک زرہ کے سوا مہر کے لیے کچھ نہ تھا، اس لئے اسی کو مہر میں دے دیا۔ (ابوداؤد کتاب النکاح باب فی الرجل یدخل بامراۃ قبل ان ینفد) ان کی دعوت ولیمہ کی داستان نہایت درد انگیز ہے ان کے پاس صرف دو اونٹنیاں تھیں ایک بدر کے مال غنیمت کے حصہ میں ملی تھی، دوسری خمس میں سے رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی تھی، دعوت کا سامان کرنے کے لئے چاہا کہ ان اونٹنیوں پر اذخر(ایک قسم کی گھاس جس کو سنار جلاتے ہیں) ان پر لادکر سناروں کے ہاتھ فروخت کرکے کچھ روپیہ پیدا کریں،وہ اسی سامان میں مصروف تھے کہ حضرت حمزہؓ نے شراب کے نشہ میں ان اونٹنیوں کو ذبح کرڈالا(اُس وقت تک شراب حرام ہونے کا حکم نازل نہیں ہواتھا)حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دیکھا تو ان کی آنکھو میں آنسو امڈآئے۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والا ماءۃ باب فی بیان مواضع قسم الخمس) حضرت سلمہ بن صخر کو ایک بار کفارہ دینے کی ضرورت پیش آئی، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ایک غلام کے آزاد کرنے کا حکم دیا، بولے میں تو صرف اپنی ذات کا مالک ہوں، اب آپ نے ساٹھ مسکینوں کوصدقہ دینے کو کہا، بولے رات فاقہ میں گزاری ہے ،گھر میں ایک دانہ بھی نہیں۔ اسی طرح اورایک صحابی کو کفارے میں صدقہ دینا پڑا؛لیکن ان کے پاس کچھ نہ تھا، خود رسول اللہ ﷺ نے کھجوریں عطا فرمائیں کہ جاکر فقراء کو دے دو، بولے کیا مجھ سے اورمیرے اہل و عیال سے بھی زیادہ کوئی فقیر ہے؟ آپ نے فرمایا، تو اس کو تمہیں لوگ کھاجاؤ۔ (ایضا کتاب الطلاق فی الظہار) اصحابہ صفہ کے تمام فضائل و مناقب میں سب سے زیادہ نمایاں فضیلت ان کا فقر و فاقہ ہے، ان کی یہ حالت تھی کہ جب آپ ﷺکے ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ضعف سے گرپڑتے تھے،دیہاتی لوگ دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ پاگل ہیں۔ (ابوداؤد کتاب اللقطہ) حضرت مصعب بن عمیرؓ غزوۂ احد میں شہید ہوئے تو کفن تک میسر نہ تھا، بدن پر صرف ایک چادر تھی اسی کا کفن بنایا گیا؛لیکن وہ اس قدر مختصر تھی کہ سرڈھکتے تھے تو پاؤں کھل جاتا تھا، پاؤں چھپاتے تھے تو سرپر کچھ نہیں رہتا تھا، بالآخر آپ ﷺنے فرمایا کہ چادر سے سرکو اورگھاس سےپاؤں کو چھپادو،(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد) لیکن اور شہدائے احد کو یہ بھی نصیب نہ تھا ،اس لئے ایک چادر میں متعدد صحابہ دفن کئے گئے۔ (ابوداؤد کتاب الجنائز باب فی الشہید یغسل) لباس ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام کو کپڑوں کی نہایت تکلیف تھی، حضرت عتبہ بنؓ غزوان کا بیان ہے کہ میں ساتواں مسلمان ہوں، اس وقت یہ حالت تھی کہ میں نے ایک چادر پائی تو تقسیم کرکے آدھی خود لی اورآدھی سعد کو دی؛لیکن آج ہم ساتوں میں ہر شخص کسی نہ کسی شہر کا امیر ہے۔ (شمائل ترمذی باب ماجاء فی عیس النبیﷺ) اکثر صحابہ کے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا جس کو گلے سے باندھ لیتے تھے کہ تہبند اورکرتا دونوں کا کام دے ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ ایک کپڑے میں نماز جائز ہے یا نہیں؟ ارشاد ہوا: أَوَلِكُلِّكُمْ ثَوْبَان (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب جماع اثواب،مایصلی فیہ) کیا تم میں ہر شخص کے پاس دو کپڑے ہیں۔ حضرت عمروبنؓ سلمہ نہایت صغیر السن صحابی تھے، جن کو حفظ قرآن کی بناپر ان کے قبیلہ کے لوگوں نے اپنا امام بنایا تھا؛ لیکن ان کی چادر اس قدر چھوٹی تھی کہ جب سجدے میں جاتے تھے تو کشف عورت ہوجاتا تھا،ایک صحابیہ نے یہ حالت دیکھی تو کہا کہ وَارُوا عَنَّا عَوْرَةَ قَارِئِكُمْ اپنے قاری کی سترکو چھپاؤ اس پر لوگوں نے ان کو ایک قمیص خریدکر دی، قمیص کون سی بڑی چیز تھی؟ لیکن ان کو اس پر اس قدر مسرت ہوئی کہ اسلام لانے کےبعد پھر انہیں کبھی ایسی مسرت حاصل نہیں ہوئی۔ (ابوداؤد باب من احق بالا مامتہ ) مہاجرین کو کپڑے کی اس قدر تکلیف تھی کہ جب قرآن مجید کے حلقہ درس میں شامل ہوتے تھے تو باہم مل جل کے بیٹھتے تھے کہ ایک کا جسم دوسرے کے جسم کی پردہ پوشی کرسکے۔ (کتاب العلم باب فی القصص) ان بزرگوں کے پاؤں میں جوتے نہ تھے ،موزے نہ تھے ،سرپر ٹوپی نہ تھی، بدن پر کرتہ نہ تھا؛ چنانچہ ایک بار حضرت سعد بن عبادہؓ بیمار ہوئے تو تمام صحابہ اسی حالت میں ان کی عیادت کوگئے۔ (مسلم کتاب الجنائز باب فی عیادۃ المرضی) حضرت مصعب بن عمیرؓ جب تک اسلام نہیں لائے تھے، نہایت ناز ونعم کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اورنہایت عمدہ جوڑے پہنتے تھے،(اصابۃ تذکرہ حضرت مصعب بن عمیرؓ) لیکن ہجرت کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ ایک روز جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے بدن پر صرف ایک چادر دیکھی جس میں پوستیں کے پیوند لگے ہوئے تھے، تو آپ کو ان کی قدیم حالت یاد آگئی اورآپﷺکی مبارک آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ (ترمذی ابواب الزہد اصابہ میں ہے کہ یہ روایت کسی قدر ضعیف ہے لیکن بخاری کی روایتوں میں بھی ان کی غربت وافلاس کا پتہ چلتا ہے) عورتوں کو زیادہ سترپوشی کی ضرورت ہوتی ہے؛ لیکن حضرت فاطمہؓ جگر گوشۂ رسول ﷺ کی چادر اس قدر چھوٹی تھی کہ ایک بار انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ادب وحیاء سے جسم کے ہر حصے کو چھپانا چاہا ؛لیکن ناکامیابی ہوئی،سرڈکھتی تھیں تو پاؤں کھل جاتا تھا، پاؤں ڈھکتی تھیں تو سرکھل جاتا تھا، آپﷺ نے یہ حالت دیکھی تو فرمایا ،کوئی ہر ج نہیں یہاں تو صرف تمہارا باپ اور تمہارا غلام ہے۔ (ابوداؤد کتاب اللباس باب فی العبد نیظر الی شعر مولاتہ) بعض عورتوں کو چادر بھی میسر نہیں تھی، رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو عیدگاہ میں جانے کی اجازت دی،تو ایک صحابیہ نے کہا کہ اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہوتو وہ کیا کرے، ارشاد ہوا کہ اس کو دوسری عورت اپنی چادر اڑھالے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی خروج النساء فی العیدین) شادی بیاہ میں دلہن کے لئے غریب سے غریب آدمی بھی اچھا جوڑا بنواتا ہے؛ لیکن اس زمانہ میں دلہن کو معمولی جوڑا بھی میسر نہیں ہوتا تھا،حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میرے پاس گاڑھے کی ایک کرتی تھی، شادی بیاہ میں جب کوئی عورت سنواری جاتی تھی تو وہ مجھ سے اس کو مستعار منگوالیتی تھی،(بخاری کتاب الہبہ باب الااستعارۃ للعروس عند البناء) حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام نہایت تنگدست تھے، اس لئے معمولی چیزوں کو بھی بڑی چیز سمجھتے تھے۔ رومال نہایت معمولی چیز ہے؛ لیکن صحابہ کرام کو وہ بھی میسر نہ تھا، کھانا کھاتے تھے تو تلوؤں سے ہاتھ پوچھ لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب مسح الید بعد الطعام) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اگر چہ مال و دولت کی کثرت ہوئی اور متمدن قوموں سے اختلاط ہوا،تاہم انہوں نے اسلام کی اس پر عظمت سادگی کو قائم رکھا، فتوحات ایران کے زمانے میں عام حکم دیا کہ لوگ ایرانیوں کی وضع نہ اختیار کریں اور حریر نہ پہنیں؛لیکن بعد میں حالت اس قدر بدل گئی اوروضع و لباس میں ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا ہوگیا کہ ایک دن حضرت ابوہریرہؓ نے کتان کے دورنگین کپڑے زیب تن کئے تو ایک سے ناک صاف کر کے کہا کہ واہ واہ ابو ہریرہؓ آج کتان کے کپڑے سے ناک پوچھتے ہو حالانکہ ایک دن وہ تھا کہ بھوک کے مارے رسول اللہ ﷺ کے منبر اورحضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے سامنے بے ہوش ہوکر گرتے تھے لوگ آتے تھے تو گردن پر پاؤں رکھ کر کہتے تھے کہ ابوہریرہؓ کو جنون ہوگیا ہے حالانکہ یہ سب بھوک کی وجہ سے تھا۔ (ترمذی ابواب الزہد وبخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) یہاں تک کہ حضرت عائشہ کی جو کرتی دولہن کے لئے عاریۃ جایا کرتی تھی، اس کی نسبت انہوں نے ایک صحابی سے کہا کہ اب میری لونڈی بھی اس کو پہنتے ہوئے شرمائے گی۔ غذا غربت وافلاس کی وجہ سے صحابہ کرام نہایت سادہ اورمعمولی غذا پر زندگی بسر کرتے تھے،ابتدائے اسلام میں تو گویا صحابہ کرام کو بالکل فاقہ کشی کرنی پڑتی تھی،حضرت عتبہ بن غزوانؓ کابیان ہے کہ میں ساتواں مسلمان ہو اس وقت یہ حالت تھی کہ ہم لوگ درخت کے پتے کھا کھا کر گذراوقات کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہمارے جبڑے پھٹ پھٹ گئے تھے۔ (شمائل ترمذی باب ماجاء فی عیش النبی ﷺ ) اسلام نے قوت حاصل کی تو یہ تکلیفیں اگرچہ کم ہوگئیں تاہم پھر بھی عرب کی قدیم سادگی قائم رہی، تمام اہل مدینہ کی عام غذا کھجور اور جو تھی اورجو لوگ دولتمند ہوتے تھے وہ شام کے غلہ فروشوں سے خاص طورپر اپنے لیے میدہ خرید لیتے تھے، باقی تمام گھر جو اورکھجور پر زندگی بسر کرتے تھے،(ترمذی تفسیر سورہ نساء) جو کاآٹا بھی چھنا ہوا نہیں ہوتا تھا، بخاری کتاب الاطعمہ میں ہے کہ صحابہ کے گھروں میں چھلنی نہیں ہوتی تھی، جو کاآٹا پیس کر منہ سے پھونک دیتےتھے، بھوسی اُڑانے کے بعد جو کچھ بچ رہتا تھا، اس کو کھالیتےتھے۔ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت تک یہ سادگی قائم رہی؛ لیکن جب فتوحات کو وسعت ہوئی، دیگر قوموں سے اختلاط ہوااورصحابہ نے عیش و طرب کے سامان دیکھے تو حضرت عمرؓ کو یہ خوف ہوا کہ دنیا کی تروتازگی صحابہ پر اثر نہ ڈالے، اس لئے تمام عمال کو ہدایت کی کہ ایرانیوں کی وضع نہ اختیار کریں، حریری نہ پہنیں،چھنا ہوا آٹا نہ کھائیں، اس لئے ان کے عہد خلافت میں عموماً یہی سادگی قائم رہی، چنانچہ فتوحات ایران کے زمانے میں صحابہ کرام نے میدے کی چپاتیاں دیکھیں تو پہچان نہ سکے اورتعجب کے لہجے میں کہا،ماھذہ الرقاع البیض،یہ سفید ٹکڑے کیسے ہیں،(طبری :۲۰۳۵) لیکن بعد کو یہ سادگی فنا ہوگئی اورلطیف غذاؤں کا رواج ہوگیا ؛چنانچہ ایک بار حضرت حسنؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت جعفرؓ ایک صحابیہ کےپاس جو رسول اللہ ﷺ کا کھانا پکاتی تھیں آئے اور کہا کہ ہمارے لئے وہ کھانا پکاؤ جو رسول اللہ ﷺ کو پسند تھا بولیں اب وہ تمہیں پسند نہیں آسکتا ۔(شمائل ترمذی مع شرح باب ماجاء فی صفۃ ادام رسول اللہ ﷺ)اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے: ای سعۃ العیش وزھاب ضیفۃ الذی کان اولا وقد اعتادالناس الا طعمۃ اللذیذۃ یعنی اس لئے کہ اب عیش کے وافر سامان پیدا ہوئے ہیں اورپہلی تنگ دستی زائل ہوگئی ہے اور لوگ عمدہ غذاؤں کے خوگر ہوچکے ہیں۔ مکان غربت وافلاس کی وجہ سے صحابہ کرام کے مکانات نہایت مختصر، پست اورکم حیثیت ہوتے تھے، ان میں جائے ضرورتک کا وجود نہ تھا،(صحیح بخاری کتاب المغازی قصۃ الافک) دروازوں پر پردے نہ تھے،(ابوداؤد کتاب الادب باب الاستیذان فی النورات الثلاث ) راتوں کو گھروں میں چراغ تک نہیں جلائے جاتے تھے،(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب التطوع خلف المراۃ) بعد میں اگرچہ اس قدر ترقی ہوئی کہ دروازوں پر پردے لٹکائے گئے؛ لیکن حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ تک عام طور پر عرب کی قدیم سادگی قائم رہی، حضرت عمرؓ نے بھی اگرچہ عرب کی اس سادگی کو اس شدت کے ساتھ قائم رکھنا چاہا کہ جب بصرہ کو آباد کرایا تو عام حکم دیا: لایزید ن احد کم علی ثلثۃ ابیات ولا تطاولوافی النبیان والزمواالسنۃ تلذمکم الدرولہ (طبری،صفحہ۲۴۸۸) کوئی شخص تین کمرے سے زیادہ نہ بنائے اور مکان کو بلند نہ بناؤ اورسنت پر قائم رہو تو تمہاری سلطنت بھی قائم رہے گی۔ تاہم لوگوں نے ان کے زمانے میں بلند مکانات بنانے شروع کیے اوریہ پہلا دن تھا کہ عرب میں بلند عمارتوں کے کنگرے نظر آئے چنانچہ مسند دارمی میں ہے: تطاول الناس فی البناء فی زمن عمر (مسند دارمی باب فی ذہاب العلم ،صفحہ ۴۴) لوگوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں بلند عمارتیں بنائیں۔ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں تمدن نے اور ترقی کی اس لئے صحابہ کرام نے عظیم الشان مکانات بنوائے ،حضرت زبیرؓ نے بصرہ،مصر، کوفہ اوراسکندریہ میں عمدہ مکانات تعمیر کرائے حضرت طلحہؓ نے مدینہ میں اینٹ اورچونہ سے پختہ مکان بنوایا اوراس میں ساکھو کی لکڑیاں لگوائیں،حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے مقام عقیق میں ایک نہایت بلند وسیع اورپر فضا مکان تعمیر کروایا اوراس کے اوپر کنگرے بنوائے حضرت مقدادؓ نے مدینہ میں ایک مکان بنوایا جس کی دیواریں بالکل پختہ تھیں۔ (مقدمہ ابن خلدون ،صفحہ ۲۲۵) حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں اور بھی ترقی ہوئی،انہوں نے ایک عظیم الشان محل بنوایا جس کا نام قصر بنی حدیلہ تھا اورجو قلعہ کا بھی کام دے سکتا تھا۔ (بخاری کتاب الوصایاباب من تصدق الی وکیلہ مع فتح الباری) سامان آرائش صحابیات نہایت معمولی لباس اورسادہ زیورات استعمال کرتی تھیں،احادیث کی کتابوں کے تتبع واستقرارسے صرف بازو بندکڑے،بالی،ہار،انگوٹھی اورچھلے کا پتہ چلتا ہے، لونگ کا ہار بھی پہنتی تھیں، جس کو عربی میں سخاب کہتے ہیں، حضرت عائشہؓ کا جو ہار ایک سفر میں گم ہوگیا تھا وہ مہرہ یمانی کا تھا۔ (ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب التیمم) صحابیات سرمہ اورمہندی کا استعمال بھی کرتی تھیں،زچہ خانہ سے نکلتی تھیں تو منہ پرورس (ایک قسم کی سرخ گھاس کا نام ہے) کاغازہ ملتی تھیں کہ چہرے کے داغ مٹ جائیں،(ایضا باب ماجاء فی وقت النفسا) خوشبو میں سک پیشانی پر لگاتی تھیں۔ (سک ایک قسم کی خوشبو ہے جو ماتھے پر لگائی جاتی ہے) (ایضا کتاب المناسک باب تطبس المحرم) زہد و سادگی فتوحات کی وسعت اورمال و دولت کی کثرت نے اگرچہ جیسا کہ اوپر گذرچکا ہے صحابہ کرام کی قدیم طرز معاشرت میں بہت کچھ تغیر پیدا کردیا تھا، تاہم اکثر صحابہ نہایت زاہدانہ اورسادی سیدھی زندگی بسر کرتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ امارت پسندی سے اس قدر احتراز کرتے تھے کہ ایک بار انہوں نے کسی سے پانی مانگا اوروہ شیشے کے پیالے میں لایا تو پینے سے انکار کردیا پھر لکڑی کے پیالےمیں لایا تو پیا،اس کے بعد وضو کیلئے پانی طلب کیا وہ طشت میں لایا تو وضو کرنے سے انکار کردیا دوبارہ مشکیزے میں لایا تو وضو کیا وہ زہد وقناعت کی وجہ سے کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھاتے تھے، ایک بار ان کو کسی نے جوارش دی اور کہا کہ یہ کھانا ہضم کرتی ہے، بولے میں تو مہینوں پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتا مجھے اس کی کیا ضرورت ہے، حمام بھی اس لیے نہیں جاتے تھے کہ وہ عیش پسندی کی ایک صورت ہے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) ایک بار حضرت ابوجحیفہ عرب کی ایک لطیف غذا کھا کر آئے اوررسول اللہ ﷺ کے سامنے ڈکار لی آپ ﷺنے فرمایا: اکثرھم شبعا فی الدینا اکثرھم جوعایوم القیامۃ جن لوگوں کا پیٹ دنیا میں جس قدر زیادہ بھرےگا اسی قدر وہ قیامت کے دن بھوکے رہیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا،رات کو کھاتے تھے تو دن کو بھوکے رہتے تھے، اوردن کو کھاتے تھے تو رات کو فاقہ کرتے تھے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت ابو جحیفہؓ) زہدو سادگی کی وجہ سے بعض صحابہ گھر تک بنانا پسند نہیں کرتے تھے، حضرت سلمان فارسیؓ نے اپنے لیے گھر نہیں بنایا تھا، بلکہ دیواروں اوردرختوں کے سائے میں پڑے رہتے تھے، ایک بار ایک شخص نے گھر بنانے پر اصرار کیا تو پہلے راضی نہیں ہوئے ، راضی ہوئے بھی تو ایسے تنگ اورپست گھر پر کہ جب کھڑے ہوں تو چھت سے سرلگ جائے اور پاؤں پھیلائیں تو انگلیاں دیوار تک پہنچ جائیں،(استیعاب تذکرہ حضرت سلمان فارسیؓ) گھر میں سامان نہایت مختصر رکھتے تھے یعنی صرف ایک پیالہ اورایک لوٹا؛ لیکن اس کو بھی وہ زہد وسادگی کے خلاف سمجھتے تھے، چنانچہ ایک بار بیمار ہوئے تو ان چیزوں کو دیکھ کر رونے لگے اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سبھوں کو وصیت ،فرمائی تھی کہ دنیا سے صرف اس قدر لینا جتنا ایک مسافرزادراہ کے لئے لیتا ہے ؛حالانکہ ہمارے پاس یہ سامان ہیں،(طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت سلمان فارسیؓ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے گھر کے کل سامان کی قیمت سو درہم سے بھی کم تھی،(طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ابوذرغفاریؓ) ایک روز کچھ لوگ حضرت ابولبابہؓ کے ساتھان کے گھر میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ گھر نہایت بوسیدہ ہے اورخود ان کا اوڑھنابچھوناپھٹا پڑاہے۔ (ابوداؤد ابواب تفریع شہر رمضان ،باب الاستحباب الترتیل فی القرأۃ) صحابہ کرام باوجود استطاعت کے وضع و لباس نہایت زاہدانہ رکھتے تھے،ایک بار ایک شخص حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا،بولیں ذرا ٹھہرجاؤ میں اپنا کپڑا سی لوں، اس نے کہا اگر میں لوگوں کو اس کی خبر کردوں تو لوگ آپ کو بخیل سمجھیں گے، بولیں جو لوگ پرانا نہیں پہنتے ان کو نیا کپڑا نصیب نہ ہوگا، (ادب المفرد باب الرفق فی المعیشۃ) ایک بار حضرت سلمان فارسیؓ حضرت ام الدرداؓ کی ملاقات کو آئے ،بدن پر صرف ایک کمل اور اونچا پائجامہ تھا، لوگوں نے کہا آپ نے صورت کیوں بگاڑرکھی ہے،بولے نیکی صرف آخرت کی نیکی ہے،(ادب المفرد باب الزیارۃ) ان کے پاس صرف ایک عبا تھی جس کا ایک حصہ بچھاتے تھے اورایک حصہ پہنتے تھے،(استیعاب تذکرہ حضرت سلمان فارسیؓ) ایک بار کسی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ایک چادر اڑھادی سوکر اُٹھے، اوراس کے ریشمی بیل بوٹے دیکھے تو کہا کہ اگر یہ نہ ہوتے تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہ تھا، (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) حضرت فضالہ بن عبیدؓ اگرچہ مصر کے گورنر تھے ؛لیکن پریشان حال و برہناپارہتے تھے ،ایک دن کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ پریشان حال کیوں ہیں؟ بولے ہم کو رسول اللہ ﷺ نے زیادہ ناز و نعم کی زندگی بسر کرنے سے منع فرمایا ہے پاؤں پر نگاہ پڑے تو بولا، آپ برہنہ پاکیوں ہیں، بولے آپﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ کبھی کبھی برہنہ پارہیں۔ (ابوداؤد کتاب الترجل) مال و دولت دنیا کی سب سے زیادہ دل فریب چیز ہے ،اخیر میں صحابہ کرام کے آگے اگرچہ دنیا نے اپنا خزانہ اگل دیا ؛لیکن انہوں نے اس آب رواں سے اپنا دامن تر نہیں کیا، حضرت سعید بنؓ عامر حمص کے گورنرتھے؛لیکن جو کچھ وظیفہ ملتا تھا، سب صرف کردیتے تھے،اورخود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے ،ایک بار حضرت عمرؓ حمص میں آئے اور حکم دیا کہ یہاں کے محتاجوں کا نام لکھا جائے ،فہرست پیش ہوئی تو اس میں حضرت سعید بن ؓعامر کا نام بھی تھا، نام دیکھ کر تعجب سے پوچھا کون سعید بن عامر؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارے گورنر، بولے تمہارا گورنر کیوں کر محتاج ہوسکتا ہے ان کا وظیفہ کیا ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا سب صرف کردیتے ہیں ،حضرت عمرؓ نے ان کی یہ حالت سنی تو روپڑے اوران کے پاس ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھجوادی، انہوں نے اشرفیاں دیکھیں تو انا للہ پڑھنے لگے، بی بی نے سنا تو کہا کیا امیر المومنین کی شہادت ہوئی؟ کیا قیامت کی کوئی نشانی ظاہر ہوئی؟ بولے اس سے بھی بڑھ کر واقعہ پیش آیا، میرے پاس دنیا آئی میرے پاس فتنہ آیا، بی بی نے کہا تو اس کو صرف میں لایے، انہوں نے اشرفیوں کو اٹھا کر ایک تھیلی میں رکھ دیا اورصبح کو ایک فوج کو دے ڈالا، بی بی نے کہا کچھ تو اپنی ضروریات کے لئے رکھ لیتے، بولے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اگر جنت کی ایک حور بھی دنیا میں آجائے تو زمین مشک کی خوشبو سے معطر ہوجائے اور میں اس پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ (اسدالغابہ تذکرہ حضرت سعید بن عامرؓ،اسدالغابہ میں ان کے زہد کے اوربھی بعض واقعات لکھ کر لکھا ہے کہ اخبار عجیۃ فی زہدہ لانطول بذکرہا) جو صحابہ مال و دولت جمع کرلیتے تھے، ان کو بھی اس پر افسوس ہوتا تھا، حضرت ابوہاشم بنؓ عتبہ مبتلائے طاعون ہوئے تو حضرت امیر معاویہؓ عیادت کو آئے وہ ان کو دیکھ کر رونے لگے ،بولے کیا مرض کی تکلیف ہے یا دنیا کے چھوڑنے کا قلق ہے؟ فرمایا کچھ نہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک وصیت فرمائی تھی کاش میں اس پر عمل کرتا ،آپﷺ نے فرمایا تھا کہ شاید تم کو اس قدر مال ہاتھ آئے جو ایک قوم پر تقسیم کیا جائے ؛لیکن تم اس میں سے صرف ایک خادم اورایک سواری پر قناعت کرنا مجھے وہ مال ملا اورمیں نے اس کو جمع کیا۔ (نسائی کتاب الزینۃ باب اتحاذ الخاتم والمرکب) بعض صحابہ امراء وعمال کے تعلقات کو زہد وسادگی کے خلاف سمجھتے تھے اوران سے نہایت بے نیازی کے ساتھ ملتے تھے، ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ آئے اورحضرت ابوذر غفاریؓ سے بھائی بھائی کہہ کر لپٹ گئے وہ جس قدر لپٹتے تھے ،حضرت ابوذر ؓ ان کو اپنے پاس سے ہٹاتے تھے اورکہتے تھے کہ میں تمہارا بھائی نہیں ہوں، بھائی اس وقت تھا جب تم عامل نہیں ہوئے تھے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت ابوذرؓ) حضرت نبیط بن شریطؓ ایک صحابی تھے، ایک باران سے ان کے بیٹے نے کہا اگر آپ بادشاہ وقت کے پاس جاتے تو آپ کو بھی فائدہ پہنچتا، اورآپ کی بدولت آپ کی قوم بھی فائدہ اٹھاتی، بولے لیکن مجھے خوف ہے کہ کہیں ان کی صحبت مجھے دوزخ میں نہ ڈھکیل دے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت بنیط بن شریطؓ) اپنا کا م خود کرنا صحابہ کرام اپنا کام کاج خود کرتے تھے اور اس کو کوئی عیب نہیں سمجھتے تھے، حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُدَّامَ أَنْفُسِنَا نَتَنَاوَبُ الرِّعَايَةَ رِعَايَةَ إِبِلِنَا (ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب مایقول الرجل اذاتوضا) ہم سب رسول اللہ کے ساتھ خود اپنے خادم تھے اورباری باری اپنے اونٹ چراتے تھے۔ حضرت عمرؓ خود اپنے اونٹوں کی جوئیں نکالتے تھے۔ (موطا امام مالک کتاب الحج باب یجوز للمحرم ان یفصلہ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی اونٹنیوں کو چارہ کھلاتے تھے اورآٹا گھول کر پلاتے تھے۔ (ایضا کتاب الحج باب القرآن فی الحج) ایک بارحضرت عثمانؓ کے لئے کھانا تیار کیا گیا اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی مدعو کئے گئے، ان کے پاس آدمی آیا تو دیکھا کہ خود اپنے ہاتھ سے اونٹوں کے لئئے پتیاں جھاڑرہے ہیں۔ (ابوداؤد کتاب المناسک باب لحم الصید للمحرم) ایک بار ایک شخص حضرت ابوذر غفاریؓ کے مکان پر آئے اور ان کی بی بی سے پوچھا وہ کہاں ہیں ،بولیں کام دھندے پر گئے ہیں تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ اونٹ پر مشک لادے ہوئے آرہے ہیں،(ادب المفرد باب من قدم الی خلیفہ طعام ذقام یصلی) ایک بار وہ مشک لیے آرہے تھے، ایک شخص نے پوچھا آپ کے کوئی اولاد نہیں ہے؟بولے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کے تین لڑکے مرجاتے ہیں خدا اس کو جنت دیتا ہے۔ (ادب المفرد باب فضل من مات لہ الولد) ایک بار رسول اللہ ﷺ فقر و فاقہ میں مبتلاہوگئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا توایک یہودی کے باغ میں آئے اور سترہ ڈول پانی کے کھینچے اورہرڈول کا معاوضہ ایک کھجور قرار پایا تھا، یہودی نے سترہ کھجوریں دیں ان کو لے کر خدمت مبارک میں حاضر ہوئے اور ایک صحابی اسی طرح تقریبا دو صاع کھجور کماکر لائے اورآپﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ (سنن ابن ماجہ ابواب اربیوں باب الرجل یستقی کل دلو بتمر ۃ یشتط جلدۃ) شراب کی حرمت کے بعد بعض صحابہ نے جو سرد ملک کے رہنے والے تھے،آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم سرد ملک کے رہنے والے ہیں اورسخت مشقت طلب کام کرتے ہیں، اس لئے گیہوں کی شراب استعمال کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کیا وہ نشہ آور بھی ہے؟ بولے،ہاں ،فرمایا اس کو چھوڑ دو۔ (ابوداؤد کتاب الاشریہ باب النہی عن المنکر) غسل جمعہ کے وجوب کا سبب صرف یہ ہے کہ: كَانَ النَّاسُ مَجْهُودِينَ يَلْبَسُونَ الصُّوفَ وَيَعْمَلُونَ عَلَى ظُهُورِهِمْ وَكَانَ مَسْجِدُهُمْ ضَيِّقًا مُقَارِبَ السَّقْفِ إِنَّمَا هُوَ عَرِيشٌ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ حَارٍّ وَعَرِقَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الصُّوفِ حَتَّى ثَارَتْ مِنْهُمْ رِيَاحٌ آذَى بِذَلِكَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا فَلَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الرِّيحَ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمَ فَاغْتَسِلُوا وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ۔ (ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب الرخصۃ فی ترک الغسل یوم الجمعہ) صحابہ کرام سخت تنگدست تھے، کمل کے کپڑے پہنتے تھے،اپنی پیٹھ پر بوجھ لادتے تھے ،ان کی مسجد نہایت تنگ تھی، چھت پست تھی ، اوپر صرف چھپر تھا، ایک روز آنحضرت ﷺ نماز جمعہ کے لئے برآمد ہوئے، دن نہایت گرم تھا،لوگوں کو کمل کے کپڑوں میں پسینہ آیا اور اس قدر بو پھیلی کہ سب کو تکلیف ہوئی آپ کو بو کا احساس ہوا تو فرمایا کہ جب یہ دن آئے تو غسل کرلیا کرو اورجہاں تک ممکن ہو عمدہ تیل اور عمدہ خوشبو لگاؤ۔ صحابیات خانہ داری کے کاموں کو خود اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں اوراس میں سخت سے سخت تکلیفیں برداشت کرتی تھیں ،حضرت فاطمہؓ رسول اللہ ﷺ کی محبوب ترین صاحبزادی تھیں، لیکن چکی پیستے پیستے ہاتھ میں چھالے پڑگئے تھے، مشکیزوں میں پانی لاتے لاتے سینہ داغ دار ہوگیا تھا،جھاڑو دیتے دیتے کپڑے غبار آلود ہوگئے تھے۔ (ایضا کتاب الخراج والامارۃ باب فی بیان مواضع قسم الخمس وسہم ذی القربے) حضرت اسماء حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی تھیں اوران کی شادی حضرت زبیرؓ سے ہوئی تھی وہ اس قدر مفلس تھے کہ ایک گھوڑے کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا، حضرت اسماءؓ خود اس گھوڑے کے لئے گھاس لاتی تھیں حضرت ابوبکرؓ نے گھوڑے کی گھانس لانے کے لیے ایک خادم بھیجا تو انہوں نے اس خدمت سے نجات پائی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیرؓ کو ایک قطعہ زمین بطور جاگیر کے دیا تھا جو مدینہ سے تین فرسخ دور تھا حضرت اسماءؓ وہاں جاتیں اور وہاں سے کھجور کی گھٹلیاں اپنے سر پر لاتیں اوران کو کوٹ کر ان کی پانی کھنچینے والی اونٹنی کو کھلاتیں، گھر کے معمولی کاروبار ان کے علاوہ تھے،خود پانی لاتیں، مشک پھٹ جاتی تو اس کو سیتیں ،آٹا گھوندھتیں۔ (مسلم کتاب السلام بَاب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) ازواج مطہرات گھر کا کام دھندا خود کرتی تھیں، ایک دن حضرت عائشہؓ کی باری تھی جو پیس کر اس کی روٹی پکائی اوررسول اللہ ﷺ کا انتظار شروع کیا، آپﷺ کے آنے میں دیر ہوگئی تو سوگئیں،آپ آئے تو جگایا۔ (ادب المفردباب لایوذی جارہ) ذرائع معاش مورخین یورپ کا خیال ہے کہ اسلام کے بعد صحابہ کرام کی معاش کا تمام تر دارومدارصرف مالِ غنیمت پررہ گیا تھا، لیکن درحقیقت یہ ایک عظیم الشان تاریخی غلطی ہے۔ مہاجرین وانصار اسلام کے نظام ترکیبی کے اصلی عنصر تھے اور ان دونوں نے ابتدا ہی سے الگ الگ ذریعہ معاش اختیار کرلیا تھا، مہاجرین تجارت اورانصار کھیتی باڑی کرتے تھے،چنانچہ جب حضرت ابوہریرہؓ پر کثرت روایت کا الزام لگایا گیا تو انہوں نے اس کی یہی وجہ بتائی: وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنْ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمْ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ وَكُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي فاشھداذا غابواداحفظ اذانسواوکان یشغل اخوتی من الا نصار عمل اموالھم وکنت امرءً مسکینا من مساکین الصفۃ اعی حین ینسون۔ (بخاری کتاب البیوع) میرے بھائی مہاجرین تجارتی کاروبار میں مصروف رہتے تھے اور میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہمہ وقت موجود رہتا تھا، اس لئے جب وہ غائب ہوتے تھے تو میں حاضر ہوتا تھا جب وہ بھول جاتے تھے تو میں یاد کرتا تھا اورمشغول رہتے تھے اورمیں مساکین صفہ میں سے ایک مسکین تھا، اس لیے جب وہ لوگ بھول جاتے تھے تو میں آپ کے اقوال کو یاد کرلیتا تھا۔ (بخاری،کتاب البیوع) ایک بار حضرت ابوموسیٰ خدریؓ نے ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا حوالہ دیا اورحضرت عمرؓ نے اس کی تصدیق کرنا چاہی اورحضرت ابو سعید خدریؓ نے اس کی تصدیق کی توحضرت عمرؓ نے خود معذرت کی۔ أَخَفِيَ هَذَا عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ (بخاری کتاب البیوع باب الخروج فی التجارۃ) مجھ پر رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس لئے مخفی رہا کہ تجارتی کاروبار نے مجھ کو مشغول کرلیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب بیت المال سے وظیفہ لینا چاہا تو اس کی وجہ یہ بیان کی: قَالَ لَقَدْ عَلِمَ قَوْمِي أَنَّ حِرْفَتِي لَمْ تَكُنْ تَعْجِزُ عَنْ مَئُونَةِ أَهْلِي وَشُغِلْتُ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَسَيَأْكُلُ آلُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذَا الْمَال (ایضا باب کسب الرجل و عملہ بیدہ) میری قوم جانتی ہے کہ میرا پیشہ میرے اہل وعیال کی معاش کے لئے کافی تھا؛لیکن اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہوگیا ہوں، اس لئے میرے اہل و عیال بیت المال سے وجہ معاش لیں گے۔ حضرت عثمانؓ حضرت ربیعہ بن حارث کی شرکت میں تجارت کرتے تھے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت ربیعہؓ بن حارث) حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ ہجرت کرکے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن الربیع کے ساتھ ان کی مواخات کرادی اس بنا پر حضرت سعد نے اپنے مال میں سے ان کو نصف دینا چاہا؛ لیکن انہوں نے کہا یہ مال تم کو مبارک مجھے کوئی تجارتی بازار بتاؤ، انہوں نے سوق قینقاع کا راستہ بتادیا، وہاں جاکر انہوں نے پنیر اور گھی کی تجارت شروع کردی اورچند ہی دنوں میں اس قدر فائدہ ہوا کہ شادی کرنے کے قابل ہوگئے۔ (بخاری کتاب البیوع باب قول اللہ تبارک وتعالی فاذاقضیت الصلوٰۃ الخ) اسلام سے پہلے عرب میں جو بازار قائم تھے، مثلا عکاظ، ذوالمجنہ،ذوالمجاز،حباشہ اسلام کے بعد بھی ان کی رونق تقریبا ًایک صدی تک قائم رہی،(فتح الباری جلد۳،صفحہ ۴۷۳،۴۷۴، میں ان بازاروں کے تاریخی حالات بہ تفصیل مذکور ہیں) لیکن یہ بازار چونکہ عموماً زمانہ حج میں لگتے تھے، اس لیے اول اول صحابہ کرام نے ان میں تجارت کرنا حرمت حج کے خلاف سمجھا؛لیکن اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو اپنے فضل و برکت سے کیوں کر محروم کرسکتا تھا،چنانچہ وحی آسمانی نے صحابہ کرام کو ان بازاروں میں تجارت کی عام اجازت عطا فرمائی۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ ۔ (البقرۃ:۱۹۸) (بخاری کتاب البیوع باب ماجاء فی قول اللہ تبارک و تعالی فاذاقضیت الصلوٰۃ فانتشروافی الارض الخ) زمانہ حج میں تجارت کرنا تمہارے لیے کوئی گناہ کا کام نہیں۔ ان بازاروں کے علاوہ خود عہد اسلام میں بعض نئے بازار قائم ہوئے،چنانچہ خود رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ایک جدید بازار قائم کیا جس میں کوئی تجارتی محصول نہیں لیا جاتا تھا۔ (فتوح البلدان ،صفحہ۲) حضرت صخرؓ بہت بڑے تاجر تھے اورچونکہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تھی۔ اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا خداوندا میری امت کو صبح سویرےکےوقت میں برکت دے اس لئے وہ ہمیشہ اپنے سامان تجارت کو صبح سویرے روانہ فرماتے تھے اور معقول نفع اُٹھاتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد بَاب فِي الِابْتِكَارِ فِي السَّفَرِ) حضرت ابوبکرؓ اکثراپنا مال تجارت لے کر بصرہ جایا کرتے تھے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے ایک سال پیشتر مال تجارت لے کر بصرہ کو گئے تھے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المزاج) حضرت عطاردالتیمیمیؓ ایک صحابی تھے جو عموماً سلاطین کے دربار میں(غالباًتجارتی تعلقات سے) حاضر ہوتے تھے اورفائدہ اٹھاتے تھے،ایک بار وہ ایک ریشمی جوڑالائےا ورحضرت عمرؓ نے اس کو بازار میں دیکھا تو فرمایا،یا رسول اللہ آپ اس کو خرید لیجئے اورجب و فود عرب آئیں تو اسی کو پہن کر ان کے سامنے بیٹھیے،اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں وہ دنیا میں ریشمی کپڑا پہنےگا۔ (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ ،اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ) غرض صحابہ کرام کا تجارتی ذوق اس قدر ترقی کر گیا تھا کہ وہ اس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ معاش پسند ہی نہیں کرسکتے تھے، حکومت کی وظیفہ خواری ایک ایسا لقمہ تر ہے جس کے تصور سے بھی اشیائی مذاق کے منہ میں پانی بھر آتا ہے؛ لیکن صحابہ کرام میں جو لوگ تجارت کی برکات سے واقف تھے وہ عرب کو اس کے خوگر بنانا پسند نہیں کرتے تھے،چنانچہ جب حضرت عمرؓ نے بیت المال سے تمام مسلمانوں کا وظیفہ مقرر کرنا چاہا تو حضرت ابوسفیانؓ بن حرب نے فرمایا: ادیوان مثل دیوان بنی الاصفر انک فرضت للناس اتکلوا علی الدیوان وترکوا التجارۃ (فتوح البلدان ،صفحہ ۴۶۳) کیا رومیوں کے طرح ان کے نام بھی درج رجسٹر ہوں گے، اگر آپ نے لوگوں کے وظائف مقرر کئے تو وہ اس پر اعتماد کرلیں گے اورتجارت کو چھوڑدیں گے۔ مہاجرین کا مخصوص پیشہ اگرچہ تجارت تھا،تاہم مدینہ میں آکر وہ بھی رفتہ رفتہ کھیتی باڑی میں مصروف ہوگئے،چنانچہ جب اول اول مہاجرین مدینہ میں آئے توانصار نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں درخواست کی کہ ہمارے نخلستان ہمارے بھائی مہاجرین کے درمیان تقسیم فرمادیجئے ؛لیکن آپ نےانکار فرمایا،پھرانہوں نے کہا کہ وہ محنت مزدوری میں حصہ لیں ہم ان کو پیداوار میں شریک کرلیں گے ،تمام مہاجرین نے اس کو بخوشی قبول کرلیا، (بخاری ابواب الحرث والمزارعۃ باب اذاقال انفنی مونۃ النخل) بعد میں انصار نے اپنے کھیت بٹائی پر دینا شروع کئے تو عموماً تمام مہاجرین نے زراعت کو اپنا پیشہ بنالیا صحیح بخاری میں ہے: مابالمدینۃ اھل بیت ھجرۃ الا یزرعون علی الثلث والربع مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھتیی نہ کرتا ہو۔ حضرت علیؓ حضرت سعد بن مالکؓ ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ اسی طرح کھیتی کرتے تھے۔ (صحیح بخاری ابواب الحرث والمزارعۃ بالشتر ونحوہ) لیکن صحابہ کی معاش صرف زراعت و تجارت ہی پرموقوف نہ تھی، اللہ تعالی نے ان کو کسب حلال کی توفیق عطا فرمائی تھی، اس لئے جس پیشے سے رزق طیب حاصل ہوسکتا تھا، اس کے اختیار کرلینے میں ان کو کسی قسم کا ننگ وعار نہ تھا خود حضرت سودہؓ طائف کا ادیم بناتی تھیں اوراس کی وجہ سے ان کی مالی حالت تمام ازواج مطہرات سے بہتر تھی۔ (اسدالغابہ تذکرہ خلیسہؓ) حضرت سلمان فارسیؓ اگرچہ مدائن کے گورنر تھے تاہم چٹائی بُن کر معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔ (استیعاب تذکرہ حضرت سلمان فارسیؓ) بعض صحابہ محنت مزدوری پر اپنی اوقات بسر کرتے تھے، ایک صحابی نے آپﷺ سے مصافحہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا آپ کے ہاتھ میں نشانات کیسے ہیں، بولے پتھر پر پھاوڑا چلاتا ہوں اور اس سے اپنے اہل وعیال کیلئے روزی پیدا کرتا ہوں، آپﷺ نے ان کے ہاتھ چوم لئے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ سعد الانصاریؓ) بعض صحابہ شہد کی مکھیوں کی نگہداشت کرتے تھے اوران سے شہد پیدا کرتے تھے؛ چنانچہ ایک صحابی نے ایک جنگل رسول اللہ ﷺ سےاپنے لئے مخصوص کرالیا تھا، اس سے شہد پیدا کرتے تھے اوراس کی زکوٰۃ ادا کرتے تھے ،یہ جنگل حضرت عمرؓ کے عہد خلافت تک ان کے قبضے میں رہا، ایک قبیلے کے لئے آپ نے اسی قسم کے دوجنگل مخصوص کردیئے تھے اور وہ ان کی زکوٰۃ دیتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الزٰۃ باب زکوٰۃ السل)