انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اسلام اور ہجرت اسلام قریش کے سربرآوردہ اشخاص میں ابو جہل اورحضرت عمر ؓ اسلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے،اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لئے اسلام کی دعا فرمائی :اللھم اعزالاسلام باحدالرجلین اما ابن ہشام واماعمر بن الخطاب (جامع ترمذی مناقب عمر ؓ) یعنی خدایا اسلام کو ابو جہل یا عمر بن الخطاب سے معزز کر،مگریہ دولت تو قسام ازل نے حضرت عمر ؓ کی قسمت میں لکھ دی تھی، ابو جہل کے حصہ میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثریہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا،یعنی حضرت عمر ؓ کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا"ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ"تاریخ وسیر کی کتابوں میں حضرت عمر ؓ کی تفصیلات اسلام میں اختلاف ہے۔ ایک مشہور واقعہ جس کو عام طورپر ارباب سیر لکھتے ہیں، یہ ہے کہ جب حضرت عمر ؓ اپنی انتہائی سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے بددل نہ کرسکے تو آخر کار مجبور ہوکر(نعوذ باللہ) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ کی طرف چلے راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ مل گئے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے؟ بولے"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں، انہوں نے کہاپہلے اپنے گھر کی تو خبر لو خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لاچکے ہیں" فوراً پلٹے اور بہن کے یہاں پہنچے،وہ قرآن پڑھ رہی تھیں ، ان کی آہٹ پاکر چپ ہوگئیں اورقرآن کے اجزاء چھپالئے؛لیکن آوازان کے کان میں پڑ چکی تھی، بہن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ بولیں کچھ نہیں، انہوں نےکہا میں سن چکاہوں کہ تم دونوں مرتد ہوگئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست وگریباں ہوگئے اورجب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی،یہاں تک کہ ان کا جسم لہو لہان ہوگیا؛لیکن اسلام کی محبت پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا "بولیں عمر جوبن آئے کرلو ؛لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا "ان الفاظ نے حضرت عمر ؓ کے دل پر خاص اثر کیا،بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا،ان کے جسم سے خون جاری تھا، اسے دیکھ کر اوربھی رقت ہوئی، فرمایا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ ،فاطمہ ؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لاکر رکھ دیئے ،اٹھاکر دیکھا تو یہ سورۃ تھی: "سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِo وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ" "زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں، وہ غالب اورحکمت والا ہے۔" ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا،یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: "اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ" خدااور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تو بے اختیار پکاراٹھے "اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً الرَّسُوْلَ اللہ" یہ وہ زمانہ تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقم ؓ کے مکان پر جوکوہ صفا کے نیچے واقع تھا پناہ گزین تھے،حضرت عمر ؓ نے آستانہ مبارک پر پہنچ کردستک دی،چونکہ شمشیر بکف تھے،صحابہ کو تردد ہوا؛لیکن حضرت حمزہ ؓ نے کہا آنے دو، مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سرقلم کردوں گا،حضرت عمر ؓ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا"کیوں عمر!کس ارادے سے آئےہو؟ نبوت کی پرجلال آواز نے ان کو کپکپادیا،نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا ایمان لانے کے لئے !آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام پہاڑیاں گونچ اٹھیں۔ (سیرۃ النبی ج۱ : ۲۰۹و ۲۱۰ بحوالہ اسد الغابہ وابن عسا کروکامل ابن اثیر) یہی روایت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی،ابویعلیٰ،حاکم اوربیہقی میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے،دونوں میں فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلی میں سورۂ حدید کی آیۃ سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِہے،دوسری میں سورۂ طہٰ کی یہ آیت ہے: "اِنَّنِیْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْoَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ" "میں ہوں خداکوئی نہیں معبود ؛لیکن میں،تومجھ کو پوجو اورمیری یاد کے لئے نماز کھڑی کرو"۔ جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار لا الہ الا اللہ پکار اٹھے اوردراقدس پر حاضری کی درخواست کی ؛لیکن یہ روایت دوطریقوں سے مروی ہے اوردونوں میں ایسے رواۃ ہیں جو قبول کے لائق نہیں؛چنانچہ دارقطنی نے اس روایت کو مختصراًلکھا ہے کہ اس کا ایک راوی قاسم بن عثمان بصری قوی نہیں۔(دارقطنی باب الطہارۃ للقرآن )ذہبی نے مستدرک حاکم کے استدلال میں لکھا ہے کہ روایت واہی ومنقطع ہے(مستدرک حاکم ج ۴ : ۵۹)ان دونوں روایتوں کے مشترک راوی اسحاق بن یوسف،قاسم بن عثمان، اسحاق بن ابراہیم الحسینی اور اسامہ بن زید بن اسلم ہیں اور یہ سب کے سب پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔ ان روایتوں کے علاوہ مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود حضرت عمر ؓ سے مروی ہے،جو گوایک تابعی کی زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ محفوظ ہے،حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہوگئے اورنماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ الحاق تلاوت فرمائی، میں کھڑا سنتارہا اورقرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا، دل میں کہا جیسا قریش کہا کرتے ہیں، خدا کی قسم یہ شاعر ہے،ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: "اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍoقَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ" "یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں،تم بہت کم ایمان رکھتے ہو۔" میں نے کہا یہ تو کاہن ہے،میرے دل کی بات جان گیا ہے،اس کے بعد ہی یہ آیت پڑھی: "وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍoقَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَoتَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ" "یہ کاہن کا کلام بھی نہیں تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو،یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے"۔ آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا۔ (مسند ابن حنبل ج۱ : ۱۷) اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر ؓ کی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندرسے آواز آئی، اے جلیج ایک فصیح البیان کہتا ہے: لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ ،اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ؛لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی، اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں، (باب بنیان الکعبہ باب اسلام عمر ؓ)اس روایت میں اس کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا حضرت عمر ؓ پر کیا اثر ہوا۔ پہلی عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر حضرت عمر ؓ نے لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اورنبوت کا کوئی ذکر نہ تھا تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لئے ادھر میلان ہواہوگا؛لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع نہیں ملا، اس لئے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ معلوم ہوسکی، اس کے بعد جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت اورحشر ونشر کا نہایت موثربیان ہے، نماز میں پڑھتے سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس فقرے سے ظاہر ہوتا ہے وقع الاسلام فی قلبی کل موقع ،یعنی اسلام میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا تاہم چونکہ وہ طبعاً مستقل مزاج اورپختہ کار تھے اس لئے انہوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا ؛بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے ؛لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طہٰ پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکاراٹھے اوردراقدس پر حاضری کی درخواست کی۔ اوراگر وہ پہلی روایت صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت محدود اورمخفی رہی تھی اس لئے ان کو اس کا حال نہ معلوم ہوسکا اورمخالفت کی شدت کے باعث کبھی خود بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جانے اورقرآن سننے کا موقع نہ ملا پھر جب رفتہ رفتہ اسلام کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی، بالآخر وہ دن آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع ملا اور وہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کے آستانہ پر حاضر ہوگئے۔ زمانۂ اسلام عام مورخین اورارباب سیر نے حضرت عمر ؓ کے مسلمان ہونے کا زمانہ ۷ نبوی مقررکیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ چالیسویں مسلمان تھے۔ (آج کل کے ایک نوجوان خوش فہم صاحب قلم نے تمام گذشتہ روایات کو ایک سرے سے ناقابل التفات قراردے کریہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نہایت قدیم الاسلام تھے، شاید مقصود یہ ہو کہ حضرت ابوبکر ؓ وغیرہ کے بعد ہی ان کا شمارہو، اس مقصد کے لئے انہوں نے تنہا بخاری کو سند قراردیا ہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ کے اسلام کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں کہ:اسی فطرت سلیمہ کی بنا پر ان (عمر ؓ ) کو اسلام سے ہمدردی پیدا ہوئی؛چنانچہ ان کی ہمشیرہ اور سعید بن زید نے اسلام قبول کیا تو گووہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تاہم لوگوں کو اسلام پر قائم رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے؛چنانچہ سعید نے اس واقعہ کو ایک موقع پر بیان کیا ہے۔" کان عمر بن الخطاب ؓ یقیم علی الاسلام اناواختہ ومااسلم "یعنی حضرت عمر ؓ مجھ کو اوراپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ خود نہیں اسلام لاتے تھے"۔ (سیرالصحابہ ۳۲۶) اس حدیث میں اپنے موافق مطلب تحریر کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں:"اس حدیث کا بعض لوگوں نے اور بھی مطلب بیان کیا ہے اور قسطلانی نے اس کی تردید کی ہے۔" اس کے بعد بت خانہ میں ندائے غیب سننے کے واقعہ کا ذکر کیا۔ پہلی حدیث سے حضرت عمر ؓ کی اسلام کے ساتھ ہمدردی اوردوسری میں ہاتف غیب کی آواز سننے کا ذکر ہے،ان دونوں باتوں کو ملاکر انہوں نے فوراً حضرت عمر ؓ کے آغاز اسلام ہی میں مسلمان ہونے کا قطعی فیصلہ کردیا اوراسی واقعہ کو ان کے فوری اسلام کا سبب قراردیدیا،اس کے بعد ایک اورشہادت پر مصنف کی نظر پڑی کہ مرض الموت میں ایک نوجوان نے حضرت عمر ؓ کے سامنے یہ الفاظ کہے:"اے امیر المومنین:خدانے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اورسبقت کے ذریعہ سے (جس کو آپ جانتے ہیں) جو بشارت دی ہے اس سے آپ خوش ہوں"اس قدر شواہد اوراتنے دلائل کے بعد فاضل مصنف ناظرین سے داد طلب ہیں کہ: "ایک طرف توصحیح بخاری کی مستند روایات ہیں جو حضرت عمر ؓ کی فطری سلامت روی اورحق پرستی کو ظاہر کرتی ہیں،دوسری طرف مزخرفات کا یہ دفتر بے پایاں ہے جو ان میں گذشتہ اوصاف سے متعارض صفات تسلیم کراتا ہے،ناظرین انصاف کریں کہ ان میں سے کس کو صحیح تسلیم کیا جائے؟’’ افسوس مصنف کو دیگر مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی متعدد مسامحات میں گرفتار ہونا پڑا ہے،ہم ناظرین کو مصنف کے ابتدائی دلائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں،مصنف نے سب سے پہلے اسلام کے ساتھ حضرت عمر ؓ کی ہمدردی میں سعید بن زید ؓ کی یہ روایت پیش کی ہے: کان عمر بن الخطاب یقیم علی الاسلام انا واختہ ومااسلم (بخاری باب اسلام عمر ؓ) "یعنی حضرت عمر ؓ مجھ کو اوراپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ خود مسلمان نہیں ہوئے تھے۔" اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا بعض لوگوں نے ایک اور مطلب بھی بیان کیاہے اور قسطلانی نے اس کی تردید کی ہے،یہاں پر مصنف نے اپنا مطلب ثابت کرنے کے لئے بڑی جسارت سے کام لیا ہے،اول توحدیث کے لفظ میں صریح تحریف کی ہے اورتحریف بھی ادب عربی کے خلاف ہے،پھر حدیث میں "یقیم"کے بجائے "موثقی"ہے،(بخاری ج۱ باب اسلام سعید بن زید واسلام عمر ؓ)جس کے معنی باندھنے کے ہیں نہ کہ مضبوط کرنے اور قائم رکھنے کے یہ عربی کا محاورہ ہے اور قسطلانی نے باندھنے کے معنی لئے ہیں،اورمصنف کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطلانی سے مصنف کے بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے،حالانکہ یہ سراسر غلط ہے،ہذا بہتان عظیم؛چنانچہ قسطلانی کے الفاظ یہ ہیں،(قسطلانی ج ۶ : ۲۱۳) بجبل اوقد کالا سیر تضییقا واھانۃ،یعنی موثقی سے مراد رسی یا تسمہ سے قیدی کی طرح تنگ کرنے اورذلیل کرنے کے لئے باندھنا ہے،البتہ قسطلانی نے مصنف کے اختیار کردہ غلط معنی کی تردید کی ہے جس کو بعض خوش فہموں نے اختیار کرنا چاہا تھا۔ دوسری حدیث جو مصنف نے حضرت عمر ؓ کے اسلام کے باب میں پیش کی ہے،یعنی ہاتف غیب کی آواز،اس روایت میں کوئی ایسا فقرہ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ حضرت عمر ؓ اس کو سن کر متاثر ہوئے اور فورا اسلام لےآئے، اس قصہ کے آخر میں یہ صاف مذکور ہے کہ اس کے بعد تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا شہرہ ہوا، اس لئے یہ بالکل ہی آغاز اسلام کا واقعہ ہوگا، اگر اسی وقت حضرت عمر ؓکا اسلام لانا ثابت ہوجائےتواس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ حضرت عبداللہ بن عمر کی ولادت سے پہلے ہی آپ مسلمان ہو چکے تھے جو قطعی غلط ہے، جیسا کہ آگے ثابت ہوگا۔ آئیے اب ہم صحیح بخاری ہی کے ارشادات پر چل کر حضرت عمر ؓ کے اسلام کی تاریخ تلاش کریں،حضرت عمر ؓ کے اسلام کے واقعہ کے بیان میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے یہ الفاظ بخاری میں ہیں:"حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو ایک ہنگامہ برپاہوگیا،مشرکین بکثرت ان کے مکان پرجمع ہوگئے اورکہنے لگے صبا عمر،عمر بے دین ہوگئے،حضرت عمرؓ خوف زدہ گھر کے اندر تھے اور میں مکان کی چھت پرتھا۔" (صحیح بخاری اسلام عمر ؓ) اس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ کے اسلام کے وقت نہ صرف یہ کہ وہ پیدا ہوچکے تھے ؛بلکہ سن تمیز کے اس درجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کو لڑکپن کے واقعات وضاحت سے یادرہ گئے اورتجربہ اس کا شاہد ہے کہ ۵،۶ سال کابچہ واقعات کو اس طرح سے محفوظ نہیں رکھ سکتا،آگے چلئے، ۳ ھ یعنی بعثت کے سولہویں سال غزوہ ٔاحد ہوا،بخاری میں خود حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اس وقت ان کی عمر ۱۴ سال تھی اس لئے چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ چھانٹ دیئے گئے تھے اورمجاہدین میں نہیں لئے گئے،(بخاری باب غزوۃ الخندق) اس حساب سے بعثت کے دوسال بعد آپ کی پیدائش ماننی پڑے گی،اورکم از کم پانچ سال کی عمر واقعات محفوظ رہنے کے لئے ماننی ہوگی توپانچ سال یہ اوردوسال بعد بعثت کے کل سات سال ہوجاتے ہیں،لہذا خود صحیح بخاری کی تائید سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کا زمانہ اسلام ۷ھ بعثت ہوگا، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ ہاتف غیب کی آواز سننے کے سات سال بعد اسلام لائے۔) حضرت عمر ؓ کے مسلمان ہوجانے سے اسلام کی تاریخ میں ایک نیا دورشروع ہوگیا،اس وقت تک چالیس یا اس سے کچھ کم وبیش آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے ؛لیکن وہ نہایت بے بسی ومجبوری کے عالم میں تھے، اعلانیہ فرائض مذہبی ادا کرنا تودرکنار اپنے کو مسلمان ظاہر کرنا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا اورکعبہ میں نماز پڑھنا تو بالکل ناممکن تھا،حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے سے دفعتاً حالت بدل گئی،انہوں نے اعلانیہ اپنے اسلام کا اظہارکیا،صرف اتنا ہی نہیں ؛بلکہ مشرکین کو جمع کرکے بآواز بلند اپنے ایمان کا اعلان کیا،مشرکین نہایت برافروختہ ہوئے ؛لیکن عاص بن وائل نے جو رشتہ میں حضرت عمر ؓ کے ماموں تھے،ان کو اپنی پناہ میں لے لیا،حضرت عمر ؓ قبول اسلام سے پہلے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی مظلومیت کا تماشہ دیکھتے تھے اس لئے شوق مساوات نےاسے پسند نہ کیا کہ وہ اسلام کی نعمت سے متمتع ہونے کے بعد عاص بن وائل کی حمایت کے سہارے اس کے نتائج سے محفوظ رہیں،اس لئے انہوں نے پناہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور برابر ثبات واستقلال کے ساتھ مشرکین کا مقابلہ کرتے رہے،یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ برابر کعبہ میں جاکر نماز اداکی۔ (ابن سعد جزو۳ ق اول : ۱۹۳) یہ پہلا موقع تھا کہ حق، باطل کے مقابلہ میں سربلند ہوا اورحضرت عمر ؓ کو اس صلہ میں دربار نبوت سے فاروق کا لقب مرحمت ہوا۔ ہجرت مکہ میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد بڑہتی گئی ،اسی قدرمشرکین قریش کے بغض وعناد میں بھی ترقی ہوتی گئی،اگر پہلے وہ صرف فطری خونخواری اورجوش مذہبی کی بناپر مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے تھے تو اب انہیں سیاسی مصالح نے مسلمانوں کے کامل استیصال پر آمادہ کردیا تھا، سچ یہ ہے کہ اگر بلا کشان اسلام میں غیر معمولی جوش ثبات اوروارفتگی کا مادہ نہ ہوتا ایمان پر ثابت قدم رہنا غیر ممکن تھا۔ حضرت عمر ؓ ۷نبوی میں اسلام لائے تھے اور ۱۳ نبوی میں ہجرت ہوئی، اس طرح گویا انہوں نے اسلام لانے کے بعد تقریبا ۷،۶ برس تک قریش کے مظالم برداشت کئے،جب مسلمانوں کو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی تو حضرت عمر ؓ بھی اس سفر کے لئے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت سے اجازت لے کر چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اس شان کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پہلے مسلح ہوکر مشرکین کے مجمعوں سے گزرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے ،نہایت اطمینان سے طواف کیا،نمازپڑھی،پھر مشرکین سے مخاطب ہوکر کہا کہ جس کو مقابلہ کرنا ہو وہ مکہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرلے ؛لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی اوروہ مدینہ روانہ ہوگئے۔ ( زرقانی ج ۱ : ۳۷۱) حضرت عمر ؓ مدینہ پہنچ کر قبا میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے مہمان ہوئے،قبا کا دوسرانام عوالی ہے؛چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرودگاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے،حضرت عمر ؓ کے بعد اکثر صحابہ نے ہجرت کی یہاں تک کہ ۶۴۲ء میں خود آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ کی گھاٹیوں سے نکل کر مدینہ کے افق سے ضوافگن ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد غریب الوطن مہاجرین کے رہنے سہنے کا اس طرح انتظام فرمایا کہ ان میں اور انصار میں برادری قائم کردی، اس موقع پر انصار نے عدیم النظیر ایثار سے کام لے کر اپنے مہاجربھائیوں کو مال واسباب میں نصف کا شریک بنالیا،اس رشتہ کے قائم کرنے میں درجہ ومراتب کا خاص طورپر خیال رکھا گیا تھا یعنی جو مہاجر جس رتبہ کا تھا اسی حیثیت کے انصاری سے اس کی برادری قائم کی گئی تھی؛چنانچہ عمر ؓ کے برادراسلام حضرت عتبہ بن مالک قرار پائے تھے جو قبیلہ بنی سالم کے معزز رئیس تھے۔ مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بے بس ومجبورنہ تھا؛بلکہ اب آزادی اوراطمینان کا دورتھا اور اس کا وقت آگیا تھا کہ فرائض وارکان محدود اورمعین کئے جائیں نیز مسلمانوں کی تعداد وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی تھی اوروہ دور دور کے محلوں میں آباد ہونے لگے تھے، اس بنا پر شدید ضرورت تھی کہ اعلان نماز کا کوئی طریقہ معین کیاجائے؛چنانچہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اسی کا انتظام کرنا چاہا، بعض صحابہ کی رائے ہوئی کہ آگ جلا کر لوگوں کو خبر کی جائے،بعض کا خیال تھا کہ یہودیوں اورعیسائیوں کی طرح بوق وناقوس سے کام لیا جائے،حضرت عمر ؓ نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کے لئے کیوں نہ مقرر کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور اسی وقت حضرت بلال ؓ کو اذان کا حکم دیا گیا، اس طرح اسلام کا ایک شعار اعظم حضرت عمر ؓ کی رائے کے موافق قائم ہوا،(صحیح بخاری کتاب الاذان باب بدء الاذان) جس سے تمام عالم قیامت تک دن اوررات میں پانچ وقت توحید ورسالت کے اعلان سے گونجتا رہے گا۔