انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سریہ زید بن حارثہ قردہ(نجد)کی طرف(جمادی الآخر۳ہجری) بدر کے بعد جب قریش کی شامی تجارت مدینہ کی راہ سے بند ہوگئی تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ عراق کی راہ اختیار کریں جو دور کا راستہ تھاچنانچہ انھوں نے اس راستہ سے آمدروفت شروع کردی، ابو سفیان اور صفوان بن امیہ جو اب قریش کے سردار تھے انھوں نے اس خطرہ کااعلان کیا کہ " اگر ہم مکہ میں بیٹھے رہے تو اپنی ساری پونجی کھا جائیں گے، چنانچہ بدر کے نو مہینے بعد قریش کے تاجر سامان تجارت لے کر روانہ ہوئے اور انھوں نے عراق کا راستہ اختیار کیا، ان میں ابو سفیان بن حرب بھی تھا اور اس کے ساتھ کافی چاندی تھی اور یہی ان کا عظیم تجارتی سرمایہ تھا، انھوں نے قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص فرات بن حیان عجلی حلیف بنی سہم کو کچھ معاوضہ دے کر ساتھ لے لیا تاکہ وہ اس راستہ میں ان کی رہنمائی کرے،جب رسول اﷲﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی کہ قریش کا قافلہ اب براہ عراق تجارت کے لئے روانہ ہورہاہے تو آپﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو جمادی الآخر ۳ ہجری میں روانہ کیا، حضرت زیدؓ بن حارثہ کی یہ پہلی امارت تھی جو عملاً اس طرح کے معاملہ میں ناتجربہ کار تھے مگر حضورﷺ نے انہی کا انتخاب کیا، حضرت زیدؓ ایک سو سواروں کے ساتھ روانہ ہوئے اور چشمہ " قردہ پر قریش کے کارواں کو پکڑے، اس غیرمتوقع حملے سے قافلے والے بدحواس ہوکر بھاگ گئے، حضرت زیدؓ نے تمام تجارتی سامان پر قبضہ کرلیاجس میں ایک لاکھ درہم کی چاندی تھی، اس مال غنیمت میں سے خمس یعنی بیس ہزار درہم نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کردیاگیا، اس سریہ کے بعد قریش کے تجارتی کاروانوں کی ناکہ بندی مکمل طور پر مسلمانوں کے اختیار میں آگئی، اب اہل مکہ یعنی قریش کے سامنے دو ہی راستے تھے، ایک یہ کہ مسلمانوں کی برتری تسلیم کرکے صلح کی راہ پر چلیں یا جنگ کریں، بد قسمتی سے قریش نے دوسرا راستہ اختیار کیااور مسلمانوں سے ٹکر لینے اور ان کے ملک میں گھس کر ان پر حملہ کرنے کے لئے بھر پور تیاری شروع کردی۔ دشمنِ اسلام و گستاخِ رسولﷺ ابو رافع عبداللہ سلام بن ابی الحقیق( اُم المومنین حضرت صفیہ ؓ کے پہلے شوہر کابھائی )کا قتل۔