انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شہر قسطنطنیہ کی تاریخ قسطنطنیہ کی یہ فتح دنیا کا نہایت ہی اہم اور عظیم الشان واقعہ سمجھا جاتا ہے،اسی فتح قسطنطنیہ پر یورپی مؤرخین کی اصطلاح میں مڈل ایجیز یعنی زمانۂ وسطیٰ ختم ہوجاتا ہے،اس کے بعد روشنی کا زمانہ یعنی دورِ جدید شروع ہوتا ہے، اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ کے مختصر تاریخ حالات بیان کردیئے جائیں،جس موقع پر قسطنطنیہ آباد ہے، اسی موقع پر سنہ عیسوی سے ۶۶۷ سال پہلے بائی زینتم نامی ایک شہر کسی خانہ بدوش قبیلے نے آباد کیا تھا، اس شہر پر سنہ عیسوی سے ۶۶۷ سال پہلے بائی زینتم نامی ایک شہر خانہ بدوش قبیلے نے آباد کیا تھا،اس شہر پر بہت سے حادثے گذرے اور وہ اپنے ارد گرد کے علاقے کا مرکزی شہر اورایک مختصر سی ریاست کا دارالصدر بن گیا سکندر یونانی کے باپ فلیقوس نے اس شہر پر حملہ کرکے اُس کو اپنے قبضہ میں لانا چاہا، اُس نے رات کی تاریکی میں اپنی فوجوں کو شہر بائی زینتم تک پہنچا نا اورشہر پر اچانک قبضہ کرنا چاہا، اسی رات کی تاریکیمیں جب کہ فیلقوس کی فوج شہر کی فصیل تک پہنچ گئی تھی،شمال کی جانب سے ایک روشنی نمودار ہوئی اوراس روشنی میں شہر والوں نے حملہ آور فوج کو دیکھ لیا اورفوراً مقابلہ کی تیاری اور مدافعت پر آمادہ ہوگئے،فیلقوس شہر والوں کو مستعد دیکھ کر واپس ہوگیا اور شہر اس طرح بچ گیا،شہر والوں نے اس آئی بلاکے ٹل جانے کو ڈائنا دیبی کا کمال وتصرف تصور کیا اوراس خوشی میں دیبی مذکور کا مندر تعمیر کرکے ہلال کو اپنے شہر کا نشان مقرر کیا۔ اس کے چند روز بعد سکندر نے اس شہر کو فتح کرکے اپنے باپ کی ناکامی کا بدلہ لے لیا، سلندر کے بعد بائی زینتم کو مختلف قوموں نے اپنی تاخت وتارج کا تختہ مشق بنایا، اس کے بعد قیصر قسطنطنین اوّل نے اس علاقہ کو فتح کیا تو وہ شہر بائی زینتم کے خوش فضا محل وقوع کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اوراُس نے اس شہر اور اس کے متصلہ رقبہ کوشامل کرکے شہر آباد کیا تاکہ اس کو اپنا دارالحکومت بنائے،اس جدید شہر کانام اُس نے روما جدید رکھا مگر وہ قسطنطین اپنے بانی کے نام پر قسطنطنیہ مشہور ہوا۔ قسطنطین اوّل نے قسطنطنیہ کو ۳۲۷ھ میں آباد کیا، اس سے پہلےتک قسطنطین اوراُس کےباپ دادابُت پرست اورلامذہب تھےلیکن قسطنطین نے خود دین عیسوی قبول کرکے قسطنطنیہ کو اُس کی آبادی کے تین سال بعد حضرت مریم ؑ کی نذر کیا اورخوب خوشی منائی لہذا مئی ۳۰۳۰ء سے قسطنطنیہ مخصوص عیسائی شہر سمجھا جانے لگا، اس کے بعد سلطنت روما جب دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو قسطنطنیہ مشرقی سلطنت کا مستقل دار السلطنت قرار پایا،اس سلطنت یعنی مشرقی روم کا کامل عروج قیصر حسٹین کے عہدِ حکومت میں حاصل ہوا جس نے ۵۲۷ء سے ۵۶۵ء تک حکومت کی، اس قیصر نے قسطنطنیہ کی تعمیر ورونق میں بہت اضافہ کیا،اس شہر پر مختلف قوموں نے مختلف اوقات مین چڑھائیاں کی اورحضرت ابو ایوب انصاریؓ اسی معرکہ میں شہید ہوکر فصیل شہر کے نیچے مدفون ہوئے،اس مرتبہ یہ شہر فتح ہوتے ہوتے رہ گئے،عیسائیوں نے کئی مرتبہ چاہا کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کی قبر مبارک کو اکھیڑ کر پھینک دیں مگر وہ ہمیشہ مسلمانوں کی ناراضگی کے خوف سے اس ارادہ کو پورا نہ کرسکے، سلطان محمد خاں فاتھ نے فتح قسطنطنیہ کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار مبارک کے متصل ایک مسجد بنوادی تھی جو جامع ایوب کے نام سے مشہور ہے۔ خلفاء عباسیہ کے دور حکومت میں کئی مرتبہ قسطنطنیہ کے فتح کرنے کی تیاریاں ہوئیں مگر ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی ایسا مانع ہوا کہ یہ کار ناتمام ہی رہ گیا، اس کے بعد۶۰۰ ھ میں جب کہ صلیبی لڑائیوں کی سرگرمیاں بڑے زور شور سے جاری تھیں،وینس کی ایک فوج نے قسطنطنیہ کو فتح کرکے لاطینی سلطنت قائم کی جو روما کے پوپ کو مذہبی پیشوا مانتی تھی، ساٹھ سال تک یہ حکومت قائمرہی، اس کے بعد ۶۶۰ ھ میں یونانیوں یعنی مشرقی رومیوں نے پھر قسطنطنیہ کو فتح کرکے اپنی مشرقی حکومت دوبارہ قائم کرلی اجو اُسی پُرانے خمیری عقیدے پر قائم اورپوپ روما کی اطاعت سے آزاد تھی۔ دو سو برس کے بعد سلطان محمد خاں فاتح نے اس سلطنت کا خاتمہ کردیا اوربجائے ایڈریا نوپل کے قسطنطنیہ عثمانیہ سلطنت کا دار السلطنت ہوا، قسطنطنیہ سوا گیارہ سو سال تک عیسائی حکومت کا دار السلطنت ہوا، قسطنطنیہ سواگیارہ سو سال تک عیسائی حکومت کا دار السلطنت رہ کر اسلامی حکومت کا دارالسلطنت بنا اورپونے پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ تک اسلامی حکومت وخلافت کا دارالسلطنت اوردارالخلافہ رہنے کے بعد ہمارے اس زمانے میں جب کہ خلافتِ عثمانیہ کا سلسلہ ختم ہونے پر انگورہ ترکوں کی اسلامی جمہوری حکومت کا دار الحکومت قرار پایا، قسطنطنیہ کی دارالحکومت ہونے کی خصوصیت جاتی رہی، تاہم وہ دنیا کا ایک نہایت اہم عظیم الشان شہر اور مسلمانوں کا مایہ ناز مقام ہے۔