انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** رومی عیسائی قدیم زمانہ میں یمن کے متعدد عربی قبیلے، ترک وطن کرکے دمشق وکوفہ میں آباد ہوگئے تھے، سنہ عیسوی کی ابتدائی صدیوں میں ان قبائل نے یہاں اپنی متعدد نوآبادیاں اور قبائلی ریاستیں قائم کرلی تھیں، ایک طرف اگرایرانی سرحد کے قریب حیرہ (کوفہ) میں ان کی ایک ریاست تھی تودوسری طرف دمشق میں رومی اور عربی سرحد پرقبیلہ سلیج جن کوضجاعمہ اور ضجاعم بھی کہتے ہیں، ان کی نوآبادی قائم تھی، ان کے علاوہ سرحدی علاقہ میں اور بھی متعدد قبائل آباد تھے، عربوں کوایرانیوں اور رومیوں دونوں سے نفرت تھی اور پھرمعاشی حیثیت سے بھی مطمئن نہیں تھے اس لیے اپنے ملحقہ رومی اور ایرانی علاقوں میں برابر لوٹ مار کرتے رہتے تھے، رومیوں اور ایرانیوں میں صدیوں سے سیاسی چشمک تھی، اس لیے دونوں کچھ تواپنے سیاسی مصالح اور دوسرے عربوں کی آئے دن کی غارت گری اور لوٹ مار کی وجہ سے ان کواپنی طر مائل کرنے کی کوشش کرتے رہے، جس میں دونوں کوکامیابی ہوئی، ایک طرف اگرایرانیوں نے آہستہ آہستہ حیرہ کے عربوں کواپنا ہمنوا بنالیا (تمدن عرب:۸۷) تودوسری طرف رومی دمشق کے عربی قبائل کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں اپنی ایک باجگداز ریاست بنالی۔ (خطط الشام:۱/۶۳) دمشق میں پہلے قبیلہ ضجعم جویہاں کا سب سے طاقتور قبیلہ تھا، باجگذار حکومت قائم ہوئی سدمارب کے ٹوٹنے کے بعد قبیلہ غسان جب یمن سے ہجرت کرکے دمشق آیا توضجعمیوں نے رومی سلطنت کی طرف سے ان پرفی کس ڈیڑھ دینار سالانہ ٹیکس مقرر کیا، پہلے تواس کے ادا کرنے میں انھوں نے پس وپیش کیا؛ مگرپھرراضی ہوگئے اور کچھ دنوں تک ٹیکس دیتے رہے؛ پھراس کے دینے سے انکار کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں جنگ ہوئی جس میں ضجعمیوں کوشکست ہوئی اور غسانیوں نے یہاں اپنی حکومت قائم کرلی جس کا سردار یاحکمران ثعلبہ تھا۔ غسانی چونکہ رومیوں کے ٹیکس سے عاجز آکر لڑائی پراُترآئے تھے اس لیے غالبا رومی حکومت کوخطرہ پیدا ہوا ہوگا کہ کہیں یہ ایرانیوں سے نہ مل جائیں اس لیے انھوں نے غسانی سردار ثعلبہ کے پاس پیام بھیجا کہ تم بڑے بہادر لوگ ہو تم نے عرب کے سب سے طاقتور قبیلہ کوشکست دے دی اس لیے ضجعمیوں کی جگہ تمھیں حاکم مقرر کیا جاتا ہے، تم پرکوئی حملہ آور ہوگا تورومی حکومت چالیس ہزار فوج سے تمہاری مدد کرے گی اور اگرہم پرکوئی حملہ آور ہوا توتم لوگ بیس ہزار مسلح فوج سے ہماری مدد کروگے، اسی کے ساتھ ہمارے اور ایرانیوں کے باہمی معاملات میں تمھیں کوئی دخل نہ ہوگا؛ چنانچہ طرفین میں یہ معاہدہ ہوگیا اور غسانیوں کی حکومت یہاں قائم ہوگئی (کتاب المجر:۳۷۱) (حیرہ کی تاریخ جتنی اُجاگر ہے اتنی ہی غسانیوں کی تاریخ اُلجھی ہوئی ہے، یہ بیان ہم نے ڈاکٹر حمیداللہ کے اتباع میں کتاب المجر سے لیا ہے، جو بہت واضح ہے اور جس سے غسانیوں کی تاریخ پرپوری روشنی پڑتی ہے)۔ غسانی حکومت کس صدی میں قائم ہوئی؟ مختلف فیہ ہے، عام مؤرخین اور انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مرتبین کے بیان کے مطابق یہ چھٹی صدی عیسوی کی ابتداء کا واقعہ ہے؛ مگرصاحب کتاب المجر کا بیان ہے کہ غسانی حکومت کی ابتداء تیسری صدی کے ابتدائی سالوں میں ہوئی، محمدبن حبیب نے لکھا ہے کہ غسانیوں سے جس رومی شہنشاہ نے معاہدہ کیا تھا اس کا نام دی قیوس (Decius) تھا، جس کی وفات سنہ۲۵۱ میں ہوئی (ڈاکٹرحمید اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ محمد بن حبیب کے اس بیان کوبڑی اہمیت حاصل ہے، اب تک یہ خیال تھا کہ سنہ۵۱۸ کا واقعہ ہے، سیاسی زندگی:۲۵۶) اس سے ظاہر ہے کہ غسانیوں کی آمد اس سے پہلے ہوئی ہوگی؛ غرض غسانیوں نے ہمیشہ عربی حمیت ووفاداری کی لاج رکھی اور سخت سے سخت وقت میں بھی رومیوں کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ان کے دمساز رہے؛ یہاں تک کہ ان کے اثر سے خود بھی عیسائی ہوگئے۔ (انسائیکلوپیڈیا آف اسلام، بحوالہ سیاسی زندگی) عربوں کی یہی سرحدی ریاست جزیرۂ عرب میں عیسائیت کی سوغات لائی اور پورے جزیرہ اس کولیجاکر تقسیم کیا، اس کے بعد رومیوں کے اثرات بتدریج بڑھتے گئے، یعنی ان کی اسی حکم برداری کے سایہ میں ان کا تمدن، ان کا علم اور مذہب بھی آیا، جس سے عربوں کے دل ودماغ اثرپذیر ہونے لگے؛ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں سرحدی عربوں کومتعدد چھوٹی چھوٹی قبائلی ریاستیں پورے طور پررومیوں کے سیاسی اثر کے ماتحت آگئیں اور متعدد قبائل نے عیسائیت قبول کرلی، ان کے یہ تمدنی اور علمی اور مذہبی اثرات صرف سرحدی مقام وقبائل ہی تک محدود نہیں رہے؛ بلکہ انھوں نے اس کوشمالی حجاز کے مرکزی شہروں مکہ، یثرب اور وادی القریٰ تک پھیلانے کی کوشش کی، کعبہ کی وجہ سے مکہ کومذہبی تقدس حاصل تھا اور اس کی تولیت پورے عرب کی سیادت کے ہم معنی تھی، اس لیے ہرزمانہ میں ہرطاقتور قبیلہ نے اس پرقبضہ کرنے کی کودشش کی پہلے جرہم اس پرقابض تھے، اس کے بعد خزاعہ قابض ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا کے دادا قصی نے خزاعی سردار حلیل جواس وقت کعبہ کا متولی تھا، اس کی لڑکی سے شادی کرلی، قصی نہایت ہوشمند اور صاحب صلاحیت تھے، اس لیے حلیل جب مرنے لگا توکعبہ کی تولیت کے لیے ان کووصیت کرگیا؛ لیکن بنوخزاعہ نے اس کے مرنے کے بعد قصی کومتولی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور جنگ تک نوبت پہنچ گئی اور قصی کامیاب ہوگئے، ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ: وَأَعَانَه قيْصَر عَلَيْهَا۔ ترجمہ: قیصرِ روم نے اس اقتدار کے حصول میں قصی کومدد دی۔ (المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام:۶/۷۹، شاملہ، المؤلف : الدكتور جواد علي، الناشر : دار الساقي، موقع مكتبة المدينة الرقمية) بعثت نبوی سے دوسوبرس پہلے یثرب میں ایک مرتبہ یہودیوں اور اوس وخزرج میں جنگ ہوئی توغسانی عیسائیوں نے ان قبیلوں کی مدد کی تھی (ابوالفداء:۹۸۔ وفاء الوفا) ظاہر ہے کہ رومیوں اور غسانیوں کی قصی اور اوس وخزرج کے ساتھ یہ ہمدردی اور امداد واعانت یونہی نہیں تھی؛ بلکہ اس میں ان کی ایک سیاسی غرض بھی پوشیدہ تھی یعنی وہ چاہتے تھے کہ سرحدی مقامات کی طرح جزیرہ کے اندرونی مقامات خصوصیت سے حجاز میں بھی ان کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ہوجائے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے، تفصیل آگے آئے گی۔