انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حیات طیبہ۵۸۷ء حلف الفضول حرب فجارکے خاتمہ کے بعد ایک معاہدہ ہوا ، اس معاہدہ ( حلف )کو طئے کرنے والے تین سرداروں کے نام فضل بن فضالہ ، فضل بن وداعتہ اور فضیل بن حارث تھے، چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا اس لئے معاہدہ کو حلف ا لفضول کہتے ہیں، اس معاہدہ میں ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کی گئی تھی ، ڈاکٹر حمیداللہ کے مطابق ایسا ہی ایک معاہدہ جرہمی دور میں بھی طئے پایا تھا۔ امام ابن کثیر کا بیان ہے کہ قریش نے قصی کی وفات کے بعد حلف اٹھایا تھا اور ایک تنازعہ اس وجہ سے بپا ہوا تھا کہ قصی نے اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کو سقایہ ، رفادہ ، لوا ، ندوہ اور حجابہ سب منصب عطا کر دئے تھے، اس وجہ سے ان کے چھوٹے بیٹے عبدالمناف کی اولاد نے نزاع پیدا کیا اور فریقین کے ہمراہ قریشی قبیلے تھے اور ہر ایک نے اپنے حزب اور گروہ کے ساتھ تعاون کرنے کی قسم کھائی تھی؛ چنانچہ اولاد عبدمناف نے ایک پیالہ میں خوشبو ڈال کر اس میں ہاتھ ڈبو کر باہمی تعاون پر قسم کھائی، بعد ازاں انھوں نے بیت اﷲ کے کونوں اور گوشوں کو چھوا، اس وجہ سے اس کا نام مطیبین ہوا اور یہ عرب کا قدیم دستور تھا ۔ (سیرۃ النبی - ابن کثیر) اس کے چند سال بعد ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ ایک زبیدی تاجر نے مکہ میں سامان تجارت لاکر وہاں کے ایک سردار عاص بن وائل کے ہاتھ فروخت کیا؛ لیکن سردار نے دام دینے سے انکار کیا، چونکہ تاجر کو مکہ میں کسی قبیلہ کی حمایت حاصل نہ تھی اس نے بو قبیس کی پہاڑی پر چڑھ کر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی، اس پر زبیر بن عبدالمطلب نے جو حضور اکرم ﷺ کے چچا اور بنو ہاشم کے سر دار تھے بنو تیم کے سردار عبداللہ بن جد عان کے گھر میں سردارانِ قریش کو جمع کیا جہاں ایک معاہدہ ہوا جس میں جرہمی دورمیں طئے پائے معاہدہ حلف مطیبین کی طرز پر ایک معاہدہ کرنے کی دعوت دی گئی، معاہدہ اس بات پر کیا گیا کہ: خدا کی قسم ہم سب مل کر ایک ہاتھ بن جائیں گے اور وہ ہاتھ مظلوم کے ساتھ رہ کر اس وقت تک ظالم کے خلاف اٹھا رہے گا جب تک وہ ( ظالم) اس مظلوم کا حق ادا نہ کرے اور یہ حلف اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ سمند رگھونگھوں کو بھگوتا رہے اور حرا اورثبیر کے پہاڑ اس جگہ پر قائم رہیں اور ہماری معیشت میں مساوات رہے گی۔ (ابن سعد) حضور اکرم ﷺکی عمر اس وقت تقریبا ً سترہ یا بیس سال تھی اور آپ ﷺ بھی اس معاہدہ میں شریک تھے اور عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ کے بدلے مجھے کوئی سُرخ اونٹ بھی دے تو میں قبول نہ کروں اور اب بھی کوئی ایسا معاہدہ کرنا چاہے تو میں تیار ہوں۔