انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تحریر حدیث کی اجازت (۱)ایک انصاری حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی کہ میں آپ سے حدیث سنتا ہوں تو بھول جاتا ہوں، حضوراکرمﷺ نے فرمایا،استعن بیمینک (جامع ترمذی:۲/۱۰۷) اپنے ہاتھ سے مدد لو، یعنی لکھ لیا کرو روایت میں ہے "واوما بیدہ لخط" کہ آپ نے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ فرمایا..... یہ آپ کی طرف سے حدیث لکھنے کی اجازت تھی۔ (۲)یمن کا ایک شخص ابوشاہ فتح مکہ کے موقع پر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب اس نے حضورﷺ کا بیان سنا تو گذارش کی کہ حضورﷺ مجھے لکھ دیجئے،آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ یہ بیان ابو شاہ کے لیے قلم بند کردو: "اکتبوہ لابی شاہ"۔ (صحیح بخاری:۱/۲۲۔ جامع ترمذی:۲/۱۰۷) ترجمہ:ابو شاہ کے لیے یہ باتیں لکھ دو۔ حضور نے اس روایت میں صریح طور پرکتابت حدیث کا اہتمام فرمایا اوراس کے لیے صحابہ کو امر کیا۔ (مقدمہ صحیفہ ہمام بن منبہ:۳۳) (۳)حضرت ابو رافع نے بھی حضورﷺ سے احادیث لکھنے کی اجازت مانگی تھی، آپ نے انہیں بھی اجازت دے دی تھی،آپ کا یہ مجموعہ حدیث اتنا معتمد تھا کہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی اس مجموعہ سے روایات نقل کرلیا کرتے تھے، حضرت سلمی کہتے ہیں: "رأیت عبداللہ بن عباسؓ معہ الواح یکتب علیہا عن ابی رافع شیئا من فعل رسول اللہﷺ "۔ (طبقات ابن سعد:۲/۷۱) ترجمہ: میں نے عبداللہ بن عباس کو دیکھا: لکھنے کی تختیاں ان کے پاس تھیں، ان پر وہ ابورافع سے آنحضرتﷺ کے کچھ افعال لکھ رہے تھے۔ (۴)حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرمﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میں آپ کی احادیث روایت کرنا چاہتا ہوں؛ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے دل کے ساتھ ساتھ کچھ مدد اپنے ہاتھ سے بھی لے لوں (یعنی لکھ لوں) اس پر آنحضرتﷺ نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ (دیکھئے: سنن دارمی:۱۰۴۔ وطبقات ابن سعد:۴/۲۶۲) وہ کہتے ہیں قریش نے مجھے حدیث نہ لکھنے کا مشورہ دیا اور کہا: انما ھو بشر یغضب کما یغضب البشر"۔" (مستدرک،کتاب العلم،حدیث نمبر:۳۲۸) ترجمہ: حضورؐ ﷺ بھی تو انسان ہیں، کبھی غصے میں ہوتے ہیں جیسا کہ انسان غصے میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓو نے جب حضور کو یہ بات بتلائی تو آپ نے فرمایا: "والذی نفس محمد بیدہ، مایخرج مما بینھما الاحق فاکتب"۔ (سنن ابی داؤد:۲/۵۱۳) ترجمہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، ان دو ہونٹوں کے درمیان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا،سو تم لکھتے رہو۔ (۵)حضرت رافع بن خدیجؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کی، ہم آپ سے بہت سی باتیں سنتے ہیں تو کیا ہم انہیں لکھ لیا کریں،آپ نے فرمایا: "اکتبواولاحرج"۔ (تدریب الراوی:۲۸۶) ترجمہ: لکھ لیا کرو اوراس میں کوئی حرج نہیں۔ (۶)حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: "قیدواالعلم بالکتاب"۔ (جامع بیان العلم:۱/۷۲) ترجمہ: علم کو قید کتابت میں لاؤ۔ علم سے مراد علم منقول ہے، اس کے مقابلہ میں لفظ رائے ہے،لفظ علم سے اس دور میں حدیث مراد لی جاتی تھی،امام ابو حنیفہ کے استاد امام تفسیر حضرت عطاء بن ابی رباح جب کوئی مسئلہ بیان کرتے تو لوگ پوچھتے۔ علم اورای (یہ علم ہے یا رائے ہے؟) اگر وہ بات منقول ہوتی تو آپ فرماتے علم ہے اور اگر وہ اجتہادی ہوتی تو فرماتے یہ رائے ہے: "فان کان اثرا قال علم وان کان رایا قال رای"۔ (طبقات ابن سعد:۵/۵۶۹) ترجمہ: سو اگروہ بات روایت ہوتی تو فرماتے یہ علم ہے اور اگر وہ رائے ہوتی تو اسے رائے کہتے۔ حضرت انس بن مالکؓ کی مذکورہ بالا روایت "قید واالعلم بالکتاب" میں علم سے مراد حدیث ہی ہے، آنحضرتﷺ نے امر فرمایا ہے کہ حدیثیں لکھ لیا کرو، یہ صرف اجازت نہیں؛ بلکہ امر ہے اور حضورﷺ کا حکم ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ نہ صرف حضورﷺ سے حدیثیں لکھتے رہے؛بلکہ لکھ کر بعض اوقات حضورﷺ کو سنا بھی دیا کرتے تھے، سعید بن ہلال آپ کے معروف شاگرد بیان کرتے ہیں: "كنا إذا أكثرنا على أنس بن مالك رضي الله عنه أخرج إلينا محالا عنده فقال هذه سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم فكتبتها وعرضتها عليه"۔ (موسوعۃ اطراف الحدیث، صفحہ نمبر:۱/۲۱۲۵۷۷،شاملہ، موسوعة أطراف الحديث) ترجمہ: ہم جب حضرت انس بن مالکؓ سے زیادہ روایات پوچھتے تو وہ مجلات (بیاضیں) نکال لیتے اور کہتے یہ وہ روایات ہیں جو میں نے حضورﷺ سے سنیں، میں نے انہیں لکھا اور انہیں (آپﷺ کو ) پڑھ کر بھی سناتا رہا۔ (مستدرک حاکم،معرفۃ الصحابہ:۳/۵۷۴) قاضی الحسن بن عبدالرحمن الرامھرمزی(۳۶۰ھ) نے حضرت انسؓ کی یہ روایت ہبیرہ بن عبدالرحمن سے بھی نقل کی ہے۔ (المحدث الفاصل:۳۶۷) حضرت انسؓ نے اپنے شاگرد خالد بن خداش بغدادی کو نصیحت فرمائی کہ اہل علم سے احادیث لکھ لیا کریں، فرمایا: "علیک بتقوی اللہ فی السر والعلانیۃ والنصح لکل مسلم وکتابۃ العلم من عندا اھلہ"۔ (جامع بیان العلم:۱/۷۴) ترجمہ: ان چیزوں کو لازم پکڑو، (۱)ظاہر اورباطن میں اللہ کا خوف (۲)ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی (۳)علماء سے احادیث لکھنا۔ آپ اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے کہ حدیثیں لکھ لیا کرو۔ (دیکھئے صحیح مسلم:۱/۴۶۔سنن دارمی:۱/۱۰۵۔ المحدث الفاصل:۳۶۸) اس دوراول میں حضرت انسؓ اوران کی اولاد کا حدیث لکھنے کا یہ اہتمام بتلاتا ہے کہ صحابہ اورتابعین کے ہاں حدیث کا کافی مواد جمع ہوچکا تھا۔